20 May 2018 - 15:00
News ID: 435986
فونت
امریکہ کے ویزہ آفیس کے سابق سربراہ نے کہا:امریکہ روزانہ ایک کروڑ ڈالر اور ہر مہینے ۳۰ کروڑ ڈالرسے اسرائيل کی مدد کرتا ہےیہ مدد بند ہونی چاہییے اور لوگوں کو اس بارے میں باخبر کیا جائے۔
جی مائیکل اسپرینگمن

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق جی مائیکل اسپرینگمن نے شہر قزوین کی میڈیا کی ہمفکری میٹنگ میں کہ جو آستان قدس رضوی کے جوان فاؤنڈیشن کے تعاون سے منعقد تھی ، کہا:  ہمارا کام اخبار پر تبصرہ کرنا ہے تاکہ یہ واضح ہوجائے کہ یورپ و امریکہ کی عوام کو کیوں غلط معلومات فراہم کی جارہی ہیں ، اسرائیل کے بارے میں جو سوالات آپ لوگ ہم سے کرتے ہیں اور جو سوالات امریکہ کے عوام کرتے ہیں دونوں میں فرق ہے ۔ آپ لوگوں کا سوال  کہ  امریکہ کا اپنے سفارت خانے کو شہر قدس منتقل کرنے پر اسرار کی وجہ کیا ہے کا  جواب   صرف ایک مسکراہٹ  اور تجزیہ و تحلیل کے بغیر  نہیں دیا جاسکتا ہے۔

 صیہونیزم کی مخالف اس سرگرم شخصیت نے کہا: جو امریکہ کے میڈیا میں خبریں نشر کی جاتی ہیں وہ حقیقت پر مبنی نہیں ہوتیں؛ مثلا ہر پانچ منٹ میں ایک ایکسیڈینٹ کی خبردی جاتی ہے لیکن اسرائيل و فلسطین کے بارے میں کوئي خبر منتشر نہیں ہوتی ۔

 انہوں نے کہا: امریکہ کی 90 پرسینٹ خبریں نشر کرنا چھ کمپنیوں کی ذمہ داری ہے اور اقتصادی مسائل کی وجہ سے تمام اخبار پروپیگنڈہ و ایڈوٹائز کی صورت میں نشر کی جاتی ہیں  تاکہ صحیح خبریں لوگوں تک پہنچ سکیں۔

اسپرینگمن نے کہا: جو خبریں اور رپورٹس حکومت ان کمپنیوں کے حوالے کرتی ہے وہی صرف نشر ہوتی ہیں اور کسی کو بھی ان پر اعتراض وسوالات کرنے کا حق نہیں ہوتا ۔ جناب ٹرامپ صرف ٹیکس کو کم کرنے کے متعلق گفتگو کرتے ہیں لیکن یہ تمام آمدنی اسرائیل کے خزانے میں جاتی ہے۔

امریکہ کے ویزہ آفیس کے سابق سربراہ نے کہا: آج فلسطین کے اقتصادی منابع اور طبیعی امکانات کو اسرائیل کے منافع میں خرچ کیا جارہا ہے، صیہونیزم حکومت میں بہت کمپنیاں کام کرتی ہیں کہ جن کی تمام آمدنی صیہونیزم کے لیے مخصوص ہے ۔

انہوں نے اظہار خیال کیا: مجھ کو  ابھی تک فلسطین کی حمایت کی وجہ سے دھمکی نہیں ملی ہے لیکن جب میں سفارت میں کام کرتا تھا افغانستان سے مجاہدین کو امریکہ کی ویزہ دیتے ہوئے  میں نے ٹروریزم و دہشتگردی پر اعتراض کیا تو مجھ کو سفارت سے نکال دیا گیا۔/۹۸۹/ف۹۴۰/

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬