رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، مراجع تقلید قم میں سے حضرت آیت الله جعفر سبحانی نے مدرسہ حجتیہ قم ایران میں سیکڑوں طلاب و افاضل حوزہ علمیہ کی شرکت میں منعقد تفسیر قران کی نشست میں سورہ توبہ کی تفسیر کرتے ہوئے کہا : سوره توبه قران کریم کا ۹واں سوره ہے اور اس سورہ میں 129 یا 130 آیتیں ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا: اس سورہ کے نزول کا مقصد دو اہم مسئلہ ہے ؛ پہلی چیز مشرکوں کا سکون چھین لینا ، اگر چہ اسلام اور رسول اسلام دونوں ہی مجسمہ رحمت ہیں مگر مشرکین اسلام کے اصول دین یعنی کلمہ لا اله الا الله کے مخالف ہیں اور اس سورہ کا دوسرا مقصد منافقین کی رسوائی ہے کہ جو بظاھر لا اله الا الله تو کہتے ہیں مگر در حقیقت اندر سے مشرک ہیں ۔
اس مرجع تقلید نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ اس سورہ کا نام برائت اور توبه دونوں ہی ہے کہا: مرحوم طبرسی نے تفسیر مجمع البیان میں اس سورہ کے متعدد نام ذکر کئے ہیں ، کہ جو میری نگاہ میں تمام کے تمام سورہ توبہ کے اوصاف ہیں نام نہیں ، البتہ یہاں پر ایک گفتگو ہے کہ آیا سوروں کے نام بھی توقیفی ہیں یا نہیں یعنی سوروں کے لئے رسول اسلام کے سوا کوئی اور بھی نام منتخب کرسکتا ہے یا نہیں ؟ یا فقط یہ رسول اسلام کا حق ہے کہ وہ سوروں کے لئے نام منتخب کریں ، میری نگاہ میں سوروں کا نام توقیفی نہیں ہے مگر سورہ کا نام سورہ کے مناسب ہونا چاہئے ۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ قران کریم کے تمام سورے خدا کے نام سے شروع ہوتے ہیں کہا: فقط سورہ برائت وہ سورہ ہے جس میں بسم الله الرحمن الر حیم نہیں ہے ، البتہ اس سورہ میں بسم الله الرحمن الر حیم کا نہ ہونا اور سورہ نمل میں دو عدد بسم الله الرحمن الر حیم کے ہونے کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔
حضرت آیت الله سبحانی نے مزید کہا: بعض افراد کا کہنا ہے کہ اس سورہ میں بسم الله الرحمن الر حیم کے نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس سورہ یعنی سورہ برائت کے مطالب اس سے پہلے کے سورہ ، سورہ انفال کے مطابق ہیں یعنی در حقیقت سورہ توبہ سورہ انفال کا تسلسل ہے ، سورہ انفال عھد و پیمان کے سلسلے میں ہے اور سورہ توبہ امان ختم کرنے کے سلسلے میں ہے ، یہ نظریہ غلط نظریہ ہے کیوں کہ سورہ انفال اور سورہ توبہ کے نزول کے درمیان سات سال کا فاصلہ ہے ، دوسرے یہ کہ اگر ایسا ہوتو سورہ قریش سورہ فیل کا تسلسل ہے مگر اس کے درمیان بسم الله الرحمن الر حیم موجود ہے ۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ سورہ انفال اور سورہ توبہ کے نتائج الگ الگ ہیں کہا: سورہ توبہ میں بسم الله الرحمن الر حیم کے نا آنے کی دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب بھی رسول اسلام پر قران نازل ہوتا حضرت آیتوں جگہوں کو معین فرماتے تھے مگر جب سورہ برائت نازل ہوا تو رسول اسلام نے سورہ توبہ کے لئے بسم الله الرحمن الر حیم تحریر نہیں کرایا اسی بنیاد پر جب خلیفہ سوم عثمان نے قران جمع کرایا تو سورہ توبہ میں بسم الله الرحمن الر حیم تحریر نہیں کرایا ۔
حضرت آیت الله سبحانی نے مزید کہا: اس کا جواب یہ ہے کہ سب پہلے قران کریم عصر رسول اسلام میں یکجا کیا گیا ،عثمان کے دور خلافت میں نہیں ، اور جسے بھی اس بات کا اعتقاد ہو گویا اسے رسول اسلام کی صحیح شناخت نہیں ہے ، البتہ صحیح بخاری میں آیا ہے جب رسول اسلام کی رحلت ہوئی تو قران متفرق اور جزء جزء تھا ، جبکہ یہ دعوا صحیح نہیں ہے کیوں کہ سورہ قیامت میں آیا ہے خداوند متعال نے خود قرآن کو یکجا کیا ہے ، اس کے علاوہ بعض اہل سنت علماء کا دعوا ہے قران ، خلیفہ اول ابوبکر کے زمانے میں یکجا ہوا اور وہ خلیفہ سوم عثمان کے دور خلافت میں قران یکجا کئے جانے کے منکر ہیں ۔ /۹۸۸/ ن۹۷۰