رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قرآن خدا کا کلام اور خدا کی کتاب ہے خداوند کریم کا درخشندہ نور اور اسکے نور کے مشاہدہ کی جگہ ہے۔ قرآن خداکے راستہ کی ھدایت کرتا ہے۔ خداکی مظبوط رسی ہے اور اسکے قانون کی کتاب ہے، انسانیت کے لئے اللهُ کا لطف و کرم ہے اور شفا کے حصول کا نسخہ ہے۔ قران اور اسکی آیتیں خداوند کے عظمت و بزرگی کی نشانیاں اور ایک زندہ جاوید معجزہ ہیں۔
قرآن کریم ، ہمارے نجات کا علمبردار، درس عبرت، اور ذکر خدا کی کتاب ہے۔
قرآن ھدایت و ارشاد ہے۔ قرآن کتاب بشارت ہے، قرآن توحید اور موعظہ ہے۔ اخلاق و آگھی کی کتاب ہے، ایک ایسا نور ہے جس میں تاریکی نہیں ہے، ایک ایسی ھدایت ہے جس میں گمرھی نہیں، ایک ایسا خزانہ ہے جو کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے، قران، کتاب علم ہے کتاب احکام ہے کتاب تاریخ ہے، تاریخ انسانیت کا تجزیہ و تحلیل اور سبق آموز درس ہے۔
قرآن کتاب حکمت و سیاست ہے، شعور و تدبر ہے، تفکر ہے تعقل ہے، قرآن کتاب صلح و جھاد زندگی ہے اور کتاب ایمان و اعتقاد ہے۔ تاریکی و جھل میں انسان کا مونس ہے اور گمرھی و بے راہ روی میں انسانیت کا ھادی ہے۔
قرآن کتابِ دعوت و ارشاد ہے، کتاب تقوی و صلاح ہے، کتاب خلود و حیات ہے۔ کتاب ظاھر و باطن ہے۔ کتاب دنیا و آخرت ہے۔ کتاب طبیعت اور ماوراء طبیعیت ہے، قران کتاب غیبت و شہود ہے، قرآن نیکیوں اور شایستہ عمل کے سیکھنے کی کتاب ہے جو عالم انسانیت کے لئے ایک اُلگو ایک رول ماڈل پیش کرتی ہے۔ یہ کتاب صحیفہ امر به معروف و نهى از منكر ہے۔
قرآن آئین زندگی ہے ۔ محافظ اقدار و عظمت انسانیت ہے۔ قرآن پیغمبروں کے اُسوہ کارناموں کی تاریخ ہے، قرآن ھدایت کے راستوں کو کھولتا ہے سیدھا راستہ جو خدا کی جانب ھدایت کرتا ہے، قران کتابِ اِخلاق و عرفان ہے، کتاب قانون و فقہ ہے انسان کی تنہائی کا دوست اور پریشانیوں کے عالم میں اس کا مونس ہے، کتاب ادب ہے کتاب فصاحت و بلاغت اور کتاب حکمت و حکومت ہے ۔ کتابِ فلفسہ و حکمت ہے کتاب عقل و معرفت ہے اور کتاب شرافت دین ہے، یہ وہ کتاب مکنون ہے کہ جس سے تمسک ٹوٹا تو ذلت و خواری کے گمنامی میں گر جانے کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا ہے۔
پچھلے سو سال سے "سطحی طرز تفکر" نے حصول دنیا میں اتنی دلچسپی لینی شروع کردی کہ شیعیت کے دو اہم منابع قرآن اور اجتہاد کی اھمیت کو نظر انداز کیا جانے لگا۔ ایک نئے مادی طرز تفکر کی بنیاد رکھی گئی جس میں مذہب کو عزاداری تک محدود کر دیا گیا۔ قرآنی تعلیمات سے کسبِ معرفت کا سلسلہ ٹوٹنے لگا علماو مجتھدین سے اجتناب، اور اصول فقہ سے دوری برتی جانے لگی ملت میں ماھیتِ علم کی کمی اور سطحی فکر کا آغاز ہوا۔ اس طرز تفکر نے دین تشیعہ کو بہت نقصان پہنچایا، ہر طرف ھواو ھوس کی دوڑ شروع ہوگئ۔ علم دین کی اہمیت اور معرفت الٰہی کا ذکر کم ہونے لگا۔
آج کے معاشرہ میں یہ آسان طلبی، راحت طلبی اور سطحی طرز تفکر اِسی ذہنیت کی دین ہیں ۔ مادیت کی دوڑ میں تشیعہ نے اتنی تیز دوڑ لگائی کہ، دینی اقدار، مذہبی زبان، فرھنگ، تہذیب تمدن سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔اور آج سارا نوجوان معاشرہ کتبی طور پر دین سے منقطع ہوگیا۔ ہر طرف بازاریت اور میانہ فکر کا دار دورہ تھا۔ دین سے جڑے ہوئے افراد عقب افتادہ اور پچھڑے سمجھے جانے لگے۔ میں سونچتا ہوں کہ اگر انقلاب اسلامی نہ آیا ہوتا تو جس تیزی کے ساتھ یہ قوم دین سے دور ہوتی جا رہی تھی، آج نہ جانے کس قعر گمنامی میں گرگئی ہوتی۔ "نا گفتہ بہ"۔
موجودہ معاشرہ میں ہمیں جو بھی مسائل بدرجہ اتم مشاھدہ کر نے کو مل رہے ہیں یہ اسی "سطحی فکر" اور مذہب میں قرآن کریم کی تعلیمات و علماء سے دوری کا نتیجہ ہیں۔ اس فکر نے ہمیں اسلام ناب کے اقدار سے دور کردیا۔
ہمارا دین اور مذہب سب مُحرًم تک محدود ہوگئے۔ ہم نے ، اخلاق، حکمت، فلسفہ، منطق، عرفان، تفسیر، کلام، رجال، اور دیگر تمام علوم اسلامی سے دوری اختیار کرلی۔ ہمارے اسلامی معاشرہ میں آہستہ آہستہ یکے بعد دیگر ے اسلامی علوم کا خاتمہ ہوتا چلا جارہا ہے ۔ آج ہماری موجودہ نسل کا را بطہ دین سے محض شفاعی ہو رہ گیا ہے۔
ہم میں مادیت گرائی اور دنیا داری کا ماحول ہماری روحانی اقدار پر پر اس قدر غلبہ پا چکا ہے کہ ہم نے اپنے اھم اسلامی اقدار کو بھلا دیا ہے اور اسی مٹیریالیزم کو ہم اپنی نجات اور آخرت کا ذریعہ سمجھنے لگےہیں ۔ یہ بات ہمارے ایمان اور عقیدوں کے کمزور ہونے کی دلیل ہے۔ یہ مسائل قوم میں تدبر تعقل اور تفکر نہیں کرنے کا نتیائج تھے۔ قرآن کریم نی اس بات کی آگہی آج سے چودہ سو سال پہلے ہی دے دی تھی۔ قوم کی نجات کا راستہ قرآن کریم کی تعلیمات میں تفکر و تعقل کرنے میں اور اصول و اجتھاد و مجتھدین سے تمسک میں ہی ہے۔
آج کے معاشرہ کے سارے مسائل کیون نہ وہ "شہادت ثالثہ"کے مسائل ہوں یا لسانی اعتبار سے "غلو"کی تفہیم کے مسائل ہوں یا "تقلید" کے مسائل ہوں یا علماء مجتھدین کو کم ارزش گردانے کے مسائل ہوں۔ "افضل و مفضول" کے مسائل ہوں۔ یا "ظہور و ولادت" کے مسا ئل ہوں "ذالک الکتاب لاریب فیہ ھدی اللمتقین" سے انحراف اور اس پر عمل نہیں کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔
اگرہم نے قرآن کریم سے ھدایت لی ہوتی، اور اصول فقہ و اجتہاد پر عمل کیا ہوتا تو یہ مسائل ہی پیدا نہیں ہوتے۔
معاشرے میں بے راہ روی، بے دینی مادہ گرائی اور حرص و ہوس کا دار دورہ ہونے کی دوسری اہم وجہ نا اہل اور خود بین مفاد پرست اہل علم حضرات ہیں جنہوں نے اپنے دنیاوی مفاد کے دفاع میں حق کی زبان کھولنے سے اجتناب کیایے اور بازاروں میں حق کی پا مالی کا تماشہ اپنی مصلحت و منفعت پسندی کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔
ہم گیہوں لگا کر جو کے پیدا ہونے کی امید نہیں رکھ سکتے ہیں۔ جو سے جو اور گیہوں سے گیہوں ہی پیدا ہوئینگے۔
جب تک ہم اپنے اندر چھپی ہوئی غلطیوں کی نشاندہی نہین کرینگے اور ان مسائل کے جڑوں سے واقف نہیں ہونگے، ہم دوسروں کے بنائے ہوے راستوں پر چلتے رہینگے جو دوسروں نے ہمارے لئے طے کئے ہیں اور ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔
ہمارے پاس ان مسائل کا حل ہے لیکن ہمارا دشمن جانتا ہے کہ ہمارے پاس حقیقی اصول اخلاق اور تہذیب نفس کی کمی ہے جسکی ضرورت ہمکو ان مسائل کا حل تلاش کرنے میں پڑتی ہے۔
ہمیں سخت محنت، جانفشانی اور خلوص نیت سے دین کی پیشرفت کے لئے کام کرنا ہوگا۔ اور ان منابع کو جنھیں ہم نے نظر انداز کر دیا ہے، ان سے استفادہ اور راھنمائی حاصل کرنی ہوگی، یہ ہماری سطحی فکر جھالت، اور خام خیالی کے نتائج ہیں کہ ہم خود سے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی فکر میں خود سے لگے ہوئے ہیں۔ اور ہم نے منابع ھائے اسلامی صرف منفعت پسندی کی رو سے سامنے رکھا ھوا ہے وگرنہ در حقیقت ان کو نظر انداز کر دیا ہے۔/۹۸۹/ف۹۵۵/
ڈاکٹر سید محمد ابوطالب زیدی