رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روایات میں حضرت علی علیہ السلام کو جنت میں جانے والوں کا قائد بیان کیا گیا ہے جیسے پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کا ارشاد گرامی ہے قائد الامۃ الی الجنۃ ، یا دوسری تعبیر ہے کہ معراج کے موقع پر پیغمبراکرم (ص) کو ایک قصر دکھایا گیا اوروحی کی گئی کہ یہ قصر حضرت علی علیہ السلام کاہے کیونکہ ان میں یہ تین صفات پائی جاتی ہیں (انہ سید للمسلمین وامام المتقین و قائد الغرالمحجلین)
اور اس مختصر تحریر میں مراد قیادت کا عمومی معنی حکمرانی اوررہبری ہے اورحکمران بھی، یقینایہ حکمران اوررہبر ایک قسم کا قائد ہے جو پوری قوم کی کشتی کو سعادت اورخوشبختی کے ساحل پر بھی لاسکتا ہے اور قوم کی بدبختی کا سبب بھی بن سکتا ہے اس لیے ہم زیادہ تر رہبر اورحاکم جیسے الفاظ سے استفادہ کریں گے ۔ یعنی ایک کلی معنی کرتے ہوئے رہبر اورقائد وہی حاکم اورپیشوا ہیں اوریہ مترادف الفاظ ہیں ۔
اظہاریہ :
قرآن کے بعد اسلامی کتب میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل کتاب نہج البلاغہ ہے کہ جس کے مطالب زمانے میں رونما ہونے والے حالات کے ساتھ باہمی سازگاری کی وجہ سے آج بھی اتنی تروتازگی اورجذابیت کے حامل ہیں کہ جوتقریبا چودہ سو سال پہلے تھے ۔ ان مطالب کی جاودانی اور جذابیت پرنہ ہی تاریخ میں رونما ہونے والے حالات کے مدوجذر اپنا اثرچھوڑسکے اورنہ ہی دشمنی اورعداوت کے شعلوں کی تمازت نے اثر ڈالا ۔بلکہ اس کے برعکس ان مطالب میں حقانیت پر مبنی اورموجود اخلاقی ،انسانی اورالہی اصولوں کی مہکتی خوشبو نے نہ تنھا اپنے گلستان میں بسنے والوں کو معطر کیا بلکہ کوسوں دوربسنے والوں نے بھی بنی آدم کے لیے بنائے جانے والے قانون کی بنیاد اوراساس اسی کتاب کےایک خط کو قراردیا،کہ جو اس کی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔
مختلف موضوعا ت پر موجود مطالب کے بحرعمیق میں ایک موضوع جس پر مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام نے مختلف زاویوں سے اس کے خدوخال کو واضح کرکے، انسان کو مطالب کے عظیم سمندر کے سامنے لاکھڑا کیا ہے ، وہ ہے معاشرے کی قیادت اوررہبری۔ امام علی علیہ السلام نے اس موضوع سے متعلق مختلف تعبیروں جیسے امامت ، امارت ، حکومت ، ولایت ، قیادت ، خلافت اوران جیسے دوسرے مشتقات کے ذریعے وسیع پیمانے پر بحث کی ہے اوراس موضوع کی اہمیت کو بیان کیا ہے اورایسے سنہری اصول بیان کیے ہیں کہ اگر کوئی معاشرہ ان پر عمل پیراہوجائے تویقینا وہ معاشرہ کسی جنت سے کم نہیں ہوگا ۔
اس مختصر تحریر میں اسی موضوع پر حضرت علی علیہ السلام کے کلام کی روشنی میں مختلف زاویوں سے بحث کی گئی ہے اور حضرت علی علیہ السلام کے کلام پر مشتمل جامع اورکامل کتاب یعنی نہج البلاغہ کو تحقیق کا مرکز دیتے ہوئے اوراس سے استفادہ کرتے ہوئے لکھا گیا ہے ۔
باب اول
(۱):قیادت ورہبری کا معنی
قیادت عربی زبان کا لفظ ہے جو قود سے لیا گیا ہے یعنی کسی کے آگے چلنا ،رہبری اور راہنمائی کرنا وغیرہ، جیسے کہا جاتاہے، قیادۃ الجیش یعنی لشکر کی کمانڈاوررہبری کرنا یا قائد الجیش یعنی آرمی کمانڈروغیرہ جو ایک آرمی کا کمانڈر،راہنما اوررہبرہوتا ہے ۔
روایات میں حضرت علی علیہ السلام کو جنت میں جانے والوں کا قائد بیان کیا گیا ہے جیسے پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کا ارشاد گرامی ہے قائد الامۃ الی الجنۃ ، یا دوسری تعبیر ہے کہ معراج کے موقع پر پیغمبراکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کو ایک قصر دکھایا گیا اوروحی کی گئی کہ یہ قصر حضرت علی علیہ السلام کاہے کیونکہ ان میں یہ تین صفات پائی جاتی ہیں (انہ سید للمسلمین وامام المتقین و قائد الغرالمحجلین )[1]
اوراس مختصر تحریر میں مراد قیادت کا عمومی معنی حکمرانی اوررہبری ہے اورحکمران بھی، یقینایہ حکمران اوررہبر ایک قسم کا قائد ہے جو پوری قوم کی کشتی کو سعادت اورخوشبختی کے ساحل پر بھی لاسکتا ہے اور قوم کی بدبختی کا سبب بھی بن سکتا ہے اس لیے ہم زیادہ تر رہبر اورحاکم جیسے الفاظ سے استفادہ کریں گے ۔یعنی ایک کلی معنی کرتے ہوئے رہبر اورقائد وہی حاکم اورپیشوا ہیں اوریہ مترادف الفاظ ہیں ۔
(۲):قیادت ورہبری کی اہمیت امام علی علیہ السلام کی نگاہ میں
قیادت ورہبری کی ضرورت اتنی واضح اورآشکارہے کہ جس کا کوئی عقل مند انسان انکار نہیں کرسکتا ۔قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے کہ انما انت منذر ولکلّ قوم ھاد۔[2]تم صرف ڈرانے والاہو اورہرقوم کے لیے ایک ہادی اوررہبرہے ۔
اسی طرح قرآن ناطق نے بھی نہج البلاغہ میں اس کی ضرورت اوراہمیت کو تقریبا ۶۹مقامات پر واشگاف الفاظ میں بیان کیا ہے ،حضرت علی علیہ السلام انسانی معاشرے میں صالح رہبر ی اورقیادت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتےہیں: انہ لابدللناس من امیر بر او فاجر یعمل فی امرتہ المومن ویستمتع فیھا الکافر ویبلغ اللہ فیھا الاجل ویجمع بہ الفی ء ویقاتل بہ العدو وتامن بہ السبل ویؤخذبہ للضعیف من القوی حتی یستریح بر ویستراح من فاجر ۔[3]
حالانکہ کھلی ہوئی بات ہے کہ نظام انسانیت کے لیے ایک حاکم کا ہونا بہرحال ضروری ہے چاہے نیک کردارہویا فاسق کہ حکومت کے زیرسایہ ہی مومن کو کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے اورکافر بھی مزے اڑا سکتا ہے اور اللہ ہر چیز کو اس کی آخری حد تک پہنچا دیتا ہے اورمال غنیمت وخراج وغیرہ جمع کیا جاتا ہے اوردشمنوں سے جنگ کی جاتی ہے اورراستوں کومحفوظ کیا جاتاہے ،طاقتور سے کمزور کا حق لیاجاتاہے تاکہ نیک کردار انسان کو راحت ملے اوربدکردار انسان سے آسایش میں ہوں ۔[4]
اگرچہ امیرالمومنین کا یہ بیان ظاہرا خوارج کے اس پوچ عقیدہ کی نفی کے لیے بیان کیا گیا جو ان کے ذہن میں تھا کہ لاحکم الا للہ ۔لیکن حقیت یہ ہے کہ علی علیہ السلام نے اس مختصر عبارت میں رہبری اورقیادت کی اہمیت کوواضح کرنے کے لیے ایک سنہری اصول دیا ہے کہ انسان ایک معاشرتی اوراجتماعی موجود ہے جورہبری اورقیادت کے بغیر نہیں جی سکتا ہاں حکمرانوں اوررہبروں میں فرق ہے کبھی رہبر اورحاکم صالح افراد ہوتے ہیں اورکبھی فاسق اورفاجر ۔حضرت علی علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں :
اماالامرۃ البرۃ فیعمل فیھا التقی واماالامرۃ الفاجرۃ فیتمتع فیھا الشقی[5] صالح اورنیک قیادت کے سائے میں نیک لوگ اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے پوری کرتے ہیں اورفاجر اورفاسق قیادت میں شقی اوربدبخت لوگ استفادہ کرتےہیں ۔
مذکورہ بالامطالب کا مطلب یہ ہے کہ انسانی معاشرہ میں رہبری اورقیادت ایک ضروری امر ہے اگر ایک صالح اورظلم وستم سے پاکیزہ قیادت میسر نہ ہوتو یقینا ایک فاسد حکومت قائم ہوجائے گی جس طرح کہ خود خوارج نے امام علی علیہ السلام کی قیادت اوررہبری کو ٹھکرایا اورذوالثدیہ کی حکمرانی کے چنگل میں پھنس کر برحق امام کے خلاف شورش کردی اوربعد میں بھی کسی رہبر اورحکمران کے بغیر نہ رہ سکے جو قیادت اوررہبری کی اہمیت کی روشن مثال ہے ۔
قیادت ورہبری کی اہمیت واضح کرنے کے لیے مولائے متقیان کے یہ بیانات کافی ہیں البتہ اس نکتہ کی طرف توجہ کرنا بھی فایدہ سے خالی نہیں ہے کہ عصرحاضر میں بعض مغربی مفکرین جیسے مارکس وبر،نے حکومت اورسیاسی نظام کے ایک پہلو کی طرف توجہ کرنے کی وجہ سے واضح غلطی کا شکارہواہےاور حکومت اورسیاسی نظام کو سرمایہ داروں کا آلہ اورطبقاتی کشمکش کا سبب جانا ہے[6] درحالانکہ خود یہی لوگ صاحب قدرت اورحکومت رہے ہیں ۔اور دوسری بات یہ کہ اگر مارکس کی بات عمومی ہے تو ان کی حکومتیں بھی اس میں شامل ہیں اورتیسری بات یہ کہ خداپرست اورالہی لوگ جیسے حضرت علی علیہ السلام جنہوں نےواشگاف الفاظ میں تمام مسائل کی طرف اشارہ کیا ہے ،جہاں حکومت کی ضرورت اوراہمیت کو بیان کیا ہے وہاں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ حکومت اورحکمرانی صالح اورظلم وستم سے پاک بھی ہوسکتی ہے اورفاسد بھی ،ایک صالح حکمران اوررہبر کی صفات کیاہے اوراس کے برعکس ایک فاسد اورفاجر حکمران کی خصوصیات کیا ہیں درحالانکہ دوسروں کی باتیں ان مطالب سے عار ی ہیں ۔
حواله جات:
1شیخ طوسی ،الامالی ،ج۱،ص۲۱۵،ح۳۲۸[1]
2سورہ رعد،آیت ۷[2]
3نھج البلاغہ ،خطبہ ۴۰[3]
4ترجمہ ،سید ذیشان حیدرجوادی ،ص ۹۳[4]
5نھج البلاغہ ،خطبہ ۴۰[5]
6ارسنجانی ،حسن۔حاکمیت دولتھا، ص۶۳[6]
/۹۸۹/ف۹۵۵/