عراق میں رهبر معظم انقلاب اسلامی کے نمائندہ اور مجلس خبرگان رھبر کے نمائندہ آیت الله سید مجتبی حسینی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عالم اسلام میں تفسیر قران کریم کی اہمیت کی جانب اشارہ کیا اور کہا: اس سلسلہ میں کوئی شک و شبھہ نہیں کہ تفسیر بہت ضروری ہے اور ہمارے درس کی اساس و بنیاد کتاب الھی اور سنت اہل بیت علیھم السلام ہے ۔
حوزات علمیه، دینی و قرآنی مسائل کے عھدہ دار ہیں
عراق میں رهبر معظم انقلاب اسلامی کے نمائندہ نے مزید کہا: کتاب قرآن ثِقْل اکبر ہے ، اس کے معنی یہ ہے کہ یہ کتاب ، خداوند متعال کا کلام ہے اور اس میں کسی قسم کے شک و شبھہ کی گنجائش نہیں ہے ، لہذا حوزات علمیہ دینی مسائل کے ذمہ دار ہونے کے ناطے قرانی بنیادوں پر استوار رہیں ۔
انہوں نے روایت «کل ما خالف قول ربنا لم نقله» کی جانب اشارہ کیا اور کہا: ائمہ معصومین علیھم السلام کا ارشاد ہے کہ ہم نے کلام الھی کے خلاف کوئی بھی بات نہیں کہی ، یعنی اس طرح کی باتیں سب کی سب جھوٹ اور بہتان ہیں ، یہ وہ چیز ہے جو علم تفسیر کی اہمیت کو بڑھا دیتی ہے ۔
آیت الله حسینی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ دروس تفسیر ماضی میں بھی ہوا کرتے تھے اور بہت سارے علمائے کرام تفسیر کا دیا کرتے تھے کہا: محققین کے بیان کے مطابق ۲ ہزار ۵۰۰ سو سے زیادہ شیعہ مفسرین نے صدر اسلام سے لیکر آج تک تفسیر کا درس دیا ہے اس کے باوجود دور حاضر میں بھی درس تفسیر کی شدید ضرورت ہے ۔
علمائے قم کی جانب سے دروس تفسیر کا اھتمام
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ شھر قم میں 500 سے زیادہ تفسیر قران کریم کے دروس ہوتے ہیں کہا: قم ، پورے ایران کے شھروں میں موجود حوزات علمیہ کا اسوہ اور آئڈیل ہونے کی وجہ سے تفسیر پر خصوصی توجہ رکھتا ہے ۔
عراق میں رهبر معظم انقلاب اسلامی کے نمائندہ نے مزید کہا: نجف اشرف میں بھی تمام علمائے کرام دروس تفسیر کے موافق ہیں البتہ بنیادی طور سے دروس تفسیر کی مخالفت نہیں کی جاسکتی کیوں کہ فقہ میں جس کتاب کو دلیل کے عنوان سے پیش کیا جاتا ہے وہ پہلی کتاب قران کریم ہے ، اس کے بعد آیات و روایات کو یکجا کیا جاتا ہے اور پھر انہیں عقلوں پر پرکھا جاتا ہے ۔
حکومت بعث کے بعد حوزہ علمیہ نجف اشرف میں رونما ہونے والی تبدیلی
آیت الله حسینی نے یاد دہانی کی: بعثی حکومت اور صدام حسین کے دور حکومت میں صدام حسین کی پوری کوشش یہ تھی کہ وہ تمام حوزات علمیہ کو بند کردے ، جس کے نتیجہ میں حوزات علمیہ کی تعدادوں میں کمی آتی چلی گئی البتہ صدام حسین کے کی حکومت بعد بھی کچھ دشمنوں نے اس سرزمین سے حوزات علمیہ کو مٹانے کی کوشش کی تھی مگر کامیاب نہ ہوسکے ۔
انہوں نے مزید کہا: در حال حاضر حوزه علمیہ نجف دن بہ دن ترقی کی راہوں پر گامزن ہے ، آج 12 هزار طلاب اس حوزہ علمیہ میں زیر تعلیم ہیں اور بہت سارے علمائے کرام عراق کے دیگر شھروں میں تبلیغ میں مصروف ہیں ۔
عراق میں رهبر معظم انقلاب اسلامی کے نمائنده نے بیان کیا: نجف اشرف ، کربلائے معلی اور دیگر شھروں میں بھی حوزات علمیہ اور دینی مدارس کی بنیادیں رکھی جارہی ہیں ، اور بہت سارے اساتذہ دروس تفسیر کو اہمیت دے رہے ہیں ، وہ روزانہ یا ھفتہ وار تفسیر قران کریم کے درس دیتے ہیں ۔
آیت الله سید مجتبی حسینی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ علمائے نجف کو حوزہ علمیہ نجف اشرف میں کافی مقدار میں تفسیر قران کریم کے دروس نہ ہونے کا اعتراف ہے کہا: قران کریم کے حقیقی مفسر حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی قبر مطھر کے شھر میں موجود حوزه علمیہ میں تفسیر قران کریم کے دروس کی تعداد بہت کم ہے لہذا ان کی تعدادوں میں اضافہ ضروری ہے ۔ /۹۸۸/ ن۹۷۰