13 December 2018 - 17:05
News ID: 438875
فونت
حضرت امیر المؤمنین ؑ کی مبارک زندگی ہر شعبے سے منسلک افراد کے لیے رول ماڈل اوراسوۂ کامل کی حیثیت رکھتی ہے ۔
سید تقی عباس رضوی

حجت الاسلام سید تقی عباس رضوی

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلام شرفِ اِنسانیت کاعلمبردارہے، معاشرہ کے ہر فرد سے حُسنِ معاشرت کی تعلیم دینے والے دین میں ­کوئی ایسا اصول یا ضابطہ روا نہیں رکھا گیا جو شرفِ انسانیت کے منافی ہو۔

خَالِطُوا النَّاسَ مُخَالَطَةً إِنْ مِتُّمْ مَعَهَا بَكَوْا عَلَيْكُمْ، وَإِنْ عِشْتُمْ حَنُّوا إِلَيْكُمْ

لغت کے مطابق لفظِ ’’معاشرت ‘‘کے معنی : رہن سہن اور سماج کے دوسرے افراد کے ساتھ آپس میں مل جل کر زندگی بسر کرنے کے ہیں ۔ اور طرزِ معاشرت کا مطلب طرزِ زندگی (way of living)، یعنی : معاشرے میں فردی اور اجتماعی زندگی گزارنے کے طور طریقے اور شب و روز کے مسائل حل کرنے کے اصول و ضوابط۔ اور ’’معاشرہ ‘‘ یعنی : ایسی اجتماعی زندگی جس میں مختلف طبقوں کے لوگوں سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے ان کے ساتھ برتاؤ ، رہن سہن ، لین دین ، ترقی اور فلاح و بہبود کےمختلف مراحل میں ہمیں کیسے اور کس طرح پیش آنا ہے...

انہی سنہرے اصول و احکام و آداب کو امیرالمؤمنین ؑ نے اپنے عمل، کردار اور گفتار کے ذریعہ بیان فرمایا اور غیروں کے ساتھ پاکیزہ طرزِ معاشرت کو سمجھنے، اپنانے اور اس پرعمل پیرا ہونے کی دعوت بھی دی ہے۔ یقیناً! حضرت امیر المؤمنین ؑ کی مبارک زندگی ہر شعبے سے منسلک افراد کے لیے رول ماڈل اوراسوۂ کامل کی حیثیت رکھتی ہے اگر چہ طوالت کے سبب ­زیرِ نظر مضمون میں­غیروں کے ساتھ آنحضرت ؑ کی مکمل پاکیزہ طرز معاشرت کی تفصیلات بیان نہیں کی جاسکتی مگر بقول شاعر:

آب دريا را اگر نتوان کشيد هم به قدر تشنگي بايد چشيد

آج کی­ متمدن اور ترقی یافتہ دُنیا کے ٹھیکدار اپنے مؤثر اور طاقتور میڈیا کے ذریعے اسلامی اقدار و آدابِ معاشرت کو پست اور خود کو اقوام عالم سے زیادہ مہذب و متمدن جانتے ہوئے احترامِ انسانیت، حقوق بشر اور انسانی مساوات کے کھوکھلے نعروں کے ذریعے اذہان عالم پر حکومت کر رہے ہیں ۔ ان کی یہ طرزِ معاشرت اور سیاست اک آوارہ مزاجی اور خیال آرائی کے سوا کچھ نہیں ہے۔اسلام شرفِ اِنسانیت کاعلمبردارہے، معاشرہ کے ہر فرد سے حُسنِ معاشرت کی تعلیم دینے والے دین میں ­کوئی ایسا اصول یا ضابطہ روا نہیں رکھا گیا جو شرفِ انسانیت کے منافی ہو۔

عالمی سطح پراسلام اوراسلام کی مقدس ہستیوں کےخلاف عالمی میڈیا پر اپنی ذہنی غلاظت کا اظہار کرنے والے ملکی اور غیر ملکی عناصر اگر اسلامی طرزِمعاشرت کےاصول و آداب خاص طورپرامام المتقین،حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام  کا غیروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور طرزِ معاشرت کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو اسلام اور امیر المؤمنین ؑ کی حقانیت کا کلمہ پڑھے بغیرنہیں رہ سکتے ۔۔۔!

دنیا کی ترقی یافتہ قومیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی کے اعتبار سے بام عروج پر پہنچنے کے بعد بھی اپنے فردی اور معاشرتی فرسودہ تہذیب و ثقافت اور اخلاق باختہ  کلچر کے ناپاک مسائل میں گم  نظرآتی ہیں! حالانکہ آج سے چودہ سو سال پہلے ہی اسلام  اور محافظانِ اسلام نے عالمِ انسانیت کو مذہبی، اخلاقی، معاشی، معاشرتی، تعلیمی  اور سیاسی شعبہ ہائے زندگی کے وہ سنہرے اصول دئیے ہیں جو زمان و مکان، ذات و پات، دین و دھرم کے حدود سے ماورا ہیں۔ جس پرکار بند ہو جانے سے معاشرہ بدحالی سےخوشحالی، بدامنی سے محبت و امن، تنزلی سے ترقی، بے سکونی سے راحت اور بےحسی سے احساس کی طرف گامزن ہوتا ہے۔

آج کی جدید و مہذب دنیا! قومی یکجہتی اور پُر امن بقائے باہمی، کے لیے ہزارجتن کر رہی ہے لیکن قرآنی تعلیمات اور سیرتِ مولائے متقیان ؑ پرعمل کیے بغیریہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیرنہیں ہوسکتا۔

حضرت علی بن ابی طالب ؑ ، منصب وصایت، ولایت، امامت ،خلافت اور تختِ سلطنتِ اسلامی اور مسندِ حکومت  پر ہوتے ہوئے اپنی  پوری حیات طیبہ انسانی معاشرہ میں ایک عام انسان کی طرح گزار کر سماجی اور معاشرتی زندگی اور لوگوں سے حسن اخلاق و معاشرت  کا جو نمونہ پیش کیا جس میں ہر سطح کے لوگوں کے لیے رہتی دنیا تک رشد و ہدایت کا سامان موجود ہے۔

دوسروں کے ساتھ ہمدردانہ و دوستانہ تعلقات:

انسانی زندگی رشتوں سے مزین ہوتی ہے۔ ایک انسان اپنی زندگی میں بہت سے رشتوں اورتعلقات سے جڑا ہوتا ہے، تعلقات انسانی زندگی کو سنوارنے اور بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ فردی، اجتماعی اور معاشرتی تعلقات کو مؤثر طریقے سے نبھانے کے لئے گھر، خاندان، سماج اور قوموں کے درمیان دوستانہ تعلقات کو بہتر بنا کرہی اپنی فردی اور معاشرتی زندگی کو زیادہ مفید اور خوشگوار طریقے سے گزار سکتا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے : لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ... خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ بھلائی کرتے رہنا اور لوگوں سے اچھی باتیں کہنا، اور نماز پڑھتے اور زکوٰة دیتے رہنا۔

وَاعْبُدُوا اللّـٰهَ وَلَا تُشْـرِكُوْا بِهٖ شَيْئًا ۖ وَّبِالْوَالِـدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِى الْقُرْبٰى وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَاكِيْنِ وَالْجَارِ ذِى الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا۔

اور اللہ کی بندگی کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ کرو ، اور ماں باپ کے ساتھ  نیکی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں  اور مسکینوں اور قریبی  ہمسایہ اور اجنبی ہمسایہ اور  پاس بیٹھنے والے اور مسافر اور اپنے غلاموں کے ساتھ  بھی (نیکی کرو)،  بے شک اللہ  پسند نہیں کرتا اِترانے والے بڑائی  کرنے والے شخص کو۔

وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ۔

اور جو لوگ تم میں صاحب فضل (اورصاحب) وسعت  ہیں، وہ اس  بات کی قسم نہ کھائیں  کہ رشتہ داروں اور محتاجوں  اور وطن چھوڑ جانے والوں کو کچھ خرچ نہیں دیں گے۔ ان  کو چاہیئے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں۔ کیا  تم  پسند  نہیں  کرتے کہ خدا تم کو بخش دے؟ اور خدا تو  بخشنے والا مہربان  ہے۔ 

قرآنی تعلیمات اور محمد و آلِ محمد علیہم السلام کی پاکیزہ سیرت و کرادر سے دوسروں کے ساتھ آدابِ معاشرت کا جو مفہوم ہمیں ملتا ہے، کچھ اس طرح ہے : ارشاد الہی ہے : آؤ ہم تمہیں وہ باتیں بتائیں جو تمہارے لیے پروردگار نے تم پر حرام  کی ہیں اللہ کا کسی کو  شریک نہ بناؤ، والدین سے نیکی کرو، بچوں کو غربت و افلاس سے قتل نہ کرو، کیونکہ خدا تمہیں روزی دیتا ہے۔ لغویات کے قریب نہ جاؤ، خواہ اعلانیہ ہو یا خفیہ، جس جان کو خدا نے محترم کیا ہے اسے حق کے علاوہ قتل نہ کرو، یہ باتیں ہیں، جس کی نصیحت کی جاتی ہے یقین ہے کہ ان باتوں کو سمجھو گے اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر بہتری کے لیے یہاں تک کہ بالغ ہو، ناپ تول میں کمی نہ کرو، ہم کسی کو اس کی گنجائش سے زیادہ بات کا پابند نہیں کرتے، جب بولو تو انصاف سے خواہ تمہارا عزیز ہی کیوں نہ ہو اللہ کا عہد پورا کرو یہ وہ باتیں ہیں جن کی طرف تمہیں راہنمائی کی گئی ہے شاید تم یاد رکھو یہی میرا سیدھا راستہ ہے اس کی پیروی کرو، مختلف راستوں پر نہ چلو ، ورنہ راہ صحیح سے بھٹک جاؤ گے، انہی باتوں کا تمہیں مشورہ دیا جاتا ہے یقین ہے کہ تم پرہیز گار بن جاؤ  گے۔

مالک  بن حارث جو مالک اشتر نخعی کے نام سے مشہور ہیں امام علیؑ کے خاص اصحاب اور آپ ؑ کے لشکر کے کمانڈروں میں سے تھے۔ مصر کی گونری پر منصوب کرنے کے بعد انہیں حکمرانی کے آداب  و  اصول کی طرف متوجہ  کرتے ہوئے تحریر فرمایا  ہے۔ اس عہد نامہ میں امیر المؤمنین حضرت علی  ؑفرماتے ہیں : تمہارے اوپر لازم ہے کہ گذشتہ زمانوں  کی چیزوں کو یاد رکھو  خواہ کسی عادل حکومت کا طریقہ کار ہو یا کوئی اچھا عمل در آمد ہو یا  رسولﷺ کی کوئی حدیث ہو، یا کتاب اللہ میں درج شدہ کوئی فریضہ ہو، تو ان چیزوں کی پیروی کرو جن پر عمل کرتے ہوئے ہمیں دیکھا ہے اور ان ہدایات پر عمل کرتے رہنا جو میں نے اس عہد نامہ میں درج کی ہیں اور ان کے ذریعہ  سے میں نے اپنی حجت تم پر قائم  کر دی ہے تاکہ تمہارا نفس اپنی خواہشات کی طرف بڑھے تو تمہارے پاس کوئی عذر نہ ہو ۔
  
دیکھو! خود پسندی سے بچتے رہنا اور اپنی جو باتیں اچھی معلوم ہوں اُن پر اِترانا نہیں اور نہ لوگوں کے بڑھا چڑھا کر سراہنے کو  پسند  کرنا ۔کیونکہ  شیطان  کو  جو  مواقع  ملا کرتے  ہیں ان میں یہ سب سے زیادہ اس کے نزدیک بھروسے کا  ایک ذریعہ ہے کہ وہ اس طرح  نیکو کاروں کی نیکیوں پر پانی پھیر دے ۔

دیکھو !ناحق خون ریزیوں سے دامن بچائے رکھنا۔ کیونکہ عذاب الہی سے قریب اور پاداش کے لحاظ سے سخت اور نعمتوں کے سلب ہونے اور عمر کے خاتمہ کا سبب نا حق خون ریزی سے زیادہ کوئی شئےنہیں ہے اور قیامت کے دن اللہ سبحانہ سب سے پہلے جو فیصلہ کرے گا وہ انہیں خونوں کا جو بندگانِ خدا نے ایک دوسرے کے بہائے ہیں لہذا نا حق خون بہا کر اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کبھی کوشش نہ کرنا کیونکہ یہ چیز اقتدار کو کمزور اور کھوکھلاکر دینے والی ہوتی ہے ،بلکہ اس کو بنیادوں سے ہلاکر دوسروں کو سونپ دینے والی، اور جان بوجھ کر قتل کےجرم میں اللہ کےسامنے تمہارا کوئی عذر چل سکے گا ،نہ میرے سامنے، کیونکہ اس میں قصاص ضروری ہے ۔اور اگر غلطی سے تم اس کے مرتکب ہو جاؤ اورسزا دینے میں تمہارا کوڑا یا تلوار یا ہاتھ حد سے بڑھ جا ئے اس لئے کہ کبھی گھونسا اور اس سے بھی چھوٹی ضرب ہلاکت کا سبب ہو جایا کرتی ہے تو ایسی صورت میں اقتدار کے نشہ میں بےخود ہو کر مقتول کا خون بہا اس کے وارثوّں تک پہنچانے میں کوتاہی نہ کرنا ۔ پھر تمہارے نزدیک لوگوں میں زیادہ ترجیح ان لوگوں کو ہونا چاہئے کہ جو حق کی کڑوی باتیں تم سے کھل کرکہنے والے ہوں اور ان چیزوں میں جنہیں اللہ اپنے مخصوص بندوں کے لئے ناپسند کرتا ہے تمہاری بہت کم مدد کرنے والے ہوں چاہئے وہ تمہاری خواہشوں سے کتنی ہی میل کھاتی ہوں۔ پرہیزگاروں اور راستبازوں سے اپنے کو وابستہ رکھنا ۔پھر انہیں اس کا عادی بنا نا کہ وہ تمہارے کسی کارنامے کے بغیر تمہاری تعریف کرکے تمہیں خوش نہ کریں ۔کیونکہ زیادہ مدح سرائی غرور پیدا کرتی ہے اور سرکشی کی منزل سے قریب کر دیتی ہے ۔ 

سماجی طرزِ زندگی کے اصول و  آداب کے پیش نظر مولائے کائنات ؑ نے حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے نام جو وصیت فرمائی ہے وہ ہر محب علی ؑ کے لئے  قابل غور ہے ۔
آپؑ فرماتے ہیں : یابُنَیَّ، اِجْعَلْ نَفْسَكَ مِیزَاناً فِیمَا بَینَكَ وَبَینَ غَیرِكَ، فَأَحْبِبْ لِغَیرِكَ مَا تُحِبُّ لِنَفْسِكَ، وَاکْرَهْ لَهُ مَا تَکْرَهُ لَهَا، وَلاَ تَظْلِمْ كَمَا لاتُحِبُّ أَنْ تُظْلَمَ، وَأَحْسِنْ كَمَا تُحِبُّ أَنْ یحْسَنَ إِلَیكَ،وَاسْتَقْبِحْ مِنْ نَفْسِكَ مَا تَسْتَقْبِحُهُ مِنْ غَیرِكَ، وَارْضَ مِنَ النَّاسِ بِمَا تَرْضَاهُ لَهُمْ مِنْ نَفْسِكَ.بیٹا! دیکھو اپنے اور غیر کے درمیان میزان اپنے نفس کو قرار دو اور دوسرے کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو اور اس کے لئے بھی وہ بات ناپسند کرو جو اپنے لئے پسند نہیں کرتے ہو۔ کسی پر ظلم نہ کرنا کہ اپنے اوپر ظلم پسند نہیں کرتے ہو اور ہر ایک کے ساتھ نیکی کرنا جس طرح چاہتے ہو کہ سب تمہارے ساتھ نیک برتاؤ کریں اور جس چیز کو دوسرے سے برا سمجھتے ہو اسے اپنے لئے بھی برا ہی تصور کرنا۔لوگوں کی اس بات سے راضی ہو جانا جس سے اپنی بات سے لوگوں کو راضی کرنا چاہتے ہو۔ نیز آپ ؑ نے فرمایا: وكَفَى أَدَباً لِنَفْسِكَ تَجَنُّبُكَ مَا كَرِهْتَه لِغَيْرِكَ. تمہارے نفس کےادب کے لئےاتنا ہی کافی ہے کہ جس چیز کو دوسروں کے لئے نا پسند کرتے ہو اس سے خود بھی پرہیز کرو۔ /۹۸۹/ف۹۵۴/

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬