رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق گفتگوئے ادیان اور امام رضا (ع) کے عنوان سے منعقدہ پہلی عالمی کانفرنس مشہد مقدس میں امام رضا علیہ السلام کے روضہ مبارک میں منعقدہ ہوئی جس میں پہلے روز آیت اللہ صافی گلپایگانی کی طرف سے ارسال کیا گیا پیغام پڑھا گیا ۔
آیت اللہ صافی گلپایگانی کے پیغام کا خلاصہ :
اس نورانی اور قدسی محفل میں حاضر ہونے والے تمام دانشوروں اور محققین کی خدمت میں خالصانہ اور صمیمانہ سلام عرض کرتا ہوں اور اس باعظمت و باشکوہ کانفرنس کو منعقد کرنے والے معززّین کی قدر دانی کرتے ہوئے چند کلمہ آپ بزرگان کے حضور تقدیم کرتا ہوں:
وہ عظیم شخصیت جو اعظم آیات اور حجج الہی ہیں اگرچہ بہت سارے توانا دانشوروں، نامور مصنّفوں اور دنیا میں علم و دانش کے قابل افراد نے آپ کی عظیم شخصیت کے بارے میں بہت کچھ کہا اور تحریر فرمایا لیکن پھر بھی آپ کے فضائل و مناقب میں بلاغت، تألیف، تصنیف اور گفتگو کا باب دانشوروں پر کھلا ہے اور جو بھی اس وسیع و عریض باغ میں داخل ہوتا ہے اپنے لئے تازے میوہ چنتا ہے: كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُها ثابِتٌ وَ فَرْعُها فِي السَّماءِ تُؤْتِي أُكُلَها كُلَّ حِينٍ بِإِذْنِ رَبِّها
انسانی معاشرے کے لئے خاص طور پر دینی معاشرے کے لئے کوئی چیز بھی خداوند متعال کی حجتوں اور خدائی پیشواؤں کے مکتب اور سیرت سے آشنائی سے زیادہ مفید و مؤثر واقع نہیں ہو سکتی اور ضروری ہے کہ اسے ایک عالمی علم کے طور پر متعارف کروایا جائے جو درحقیقت انسان کو اعلیٰ افکار اور پاک وپاکیزہ رفتار و کردار کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور بشرکی زندگی کے تمام مادّی و معنوی پہلوؤں کو شامل ہوتا ہے۔
ان الہی پیشواؤں کی عظمت نہ فقط پورے عالم اسلام میں بلکہ شرق سے غرب تک پھیلی ہوئی ہے اور دوسرے ادیان کے پیروکاروں اور ماننے والوں کے دل بھی اس عظیم اور ممتاز شخصیت یعنی حضرت علی بن موسیٰ الرضا علیہم السلام کی طرف متوجہ ہیں۔
ایسی شخصیت جو مختلف پہلوؤں سے دانشوروں اور محققین کے لئے قابل توجہ ہے،اگر چاہتے ہیں کہ اس عظیم شخصیت کے ہر ہر پہلو کی عظمت کے بارے میں گفتگو کریں توکئی گھنٹے اور کئی دن چاہئیں تب جا کر اس بحر بیکراں سے ایک قطرہ حاصل کر سکتے ہیں۔
آپ کے وجود بابرکت کا اہم پہلو آپ کا علم الہیٰ ہے ؛اور اسی وجہ سے آپ حضرت(ع) عالم آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لقب سے ملقّب ہیں۔ایسا علم جس نے تمام اسلامی فرقوں اور مختلف ادیان کے دانشوروں کو تحسین و وداد دینے پر مجبور اور متعجب کیا ہے۔
عزیز و محترم محققین و دانشوران مثال کے طور پر ؛ آپ امام ہشتم علیہ السلام کے سفرنامہِ خراسان کا مطالعہ فرمائیں تو دیکھیں گے اس سفر کے دوران حجّت خدا نے کس طرح سے الہی عقائد اور معارف وحی کو زندہ و تجدید کیا ہے ۔
حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے الہی معارف کو محفوظ رکھنے کے لئے اورہر قسم کے شبہ و شک کو دور کرنے کے لئے اور ساتھ میں علماء کی راہنمائی و ہدایت کرنے کے لئے بہت زیادہ کاوشیں فرمائیں۔
امام رضا علیہ السلام نے بذات خود مختلف ادیان کے بزرگ دانشوروں سے مباحثہ و مناظرہ کئے اور انہیں مجاب کیا۔ تمام وہ مباحثہ اور مناظرہ تاریخی و حدیثی کتب میں ثبت و ضبط ہیں اور آج کے دور میں فن مناظرہ اور احتجاج و استدلال کے لئے اہم علمی ذخائر جانے جاتے ہیں ۔
علمائے اہلسنت کے تمام بزرگان اور مشائخ بھی حضرت سے خاص ارادت و محبت رکھتے تھے اور آپ کو خدا کا بہت بڑی ولی سمجھتے تھے اور اسی لئے انہوں نے آپ کی مدح و ثنا میں بہت سارے قصائد و اشعار پڑھے ہیں۔
دوسرے ادیان کے علماء بھی جب آنحضرت سے رو برو ہوتے تو آپ کو الہی علوم و معارف کا سرچشمہ پاتے اور آپ کے سامنے تواضع سے پیش آتے اور اپنی زبان کو آپ کی مدح و ثنا میں کھولتے اور جہاں تک ممکن ہوتا اپنے پیاسے وجود کو بے بدیل اور بے مثال چشمہ معارف سے سیراب فرماتے۔ امام رضا علیہ السلام کی شخصیت کے بارے میں سیمینارز اور کانفرنسیں منعقد کی جائیں تا کہ حجت الہی سے حاصل ہونے والے معارف کے بارے میں تحقیقات انجام دی جائیں تاکہ بشر سعادت و نجات حاصل کر سکے۔ /۹۸۹/ف۹۷۰/