رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، مفسر عصر حضرت آیت الله عبد اللہ جوادی آملی نے اپنے درس اخلاق کی نشست میں نهج البلاغۃ کے 68 ویں کلمات قصار کی تشریح کرتے ہوئے کہا: حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا کہ «الْعَفَافُ زِینَةُ الْفَقْرِ وَ الشُّكْرُ زِینَةُ الْغِنَى» عفیف ہونا اور عفت فقط عورت ہی کے لئے نہیں ہے بلکہ عفت ایک ایسی فضلیت ہے جو مرد و زن دونوں ہی کے لئے ہے ، حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی بعض تعبیرات میں آیا ہے کہ عفت ایک آسمانی اور ملکوتی ملکہ اور صلاحیت ہے اور عفیف انسان فرشتوں میں سے ہے ، اس مقام پر حضرت نے فرمایا کہ اگر کوئی فقیر ہو تو یہ عفت ، قناعت اور دست درازی سے پرھیز اس کے لئے زینت شمار کی جاتی ہے کہ جیسے بے نیازی اور شکر زینت شمار کی جاتی ہے۔
انہوں نے تاکید کی: نعمتوں کا شکر یہ ہے کہ انسان نعمتوں کا اپنی جگہ پر اور اس کا صحیح استعمال کرے اور دوسروں کی دست رسی کرے، فقراء کی امداد اسلام کا عالمی پروگرام ہے کہ جو فقط مسلمانوں ہی سے مخصوص نہیں ہے، امداد فقط خمس و زکات ہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ انسان کے پاس جتنی توانائی موجود ہو وہ فقیروں کی مدد کرے ، قیامت میں جب بعض افراد سے یہ سوال کیا جائے گا کہ کیوں جہنم میں ڈال دئے گئے ؟ تو وہ مختلف وجوہات بیان کریں گے کہ ان میں سے ایک یہ ہے کہ کہیں گے ﴿لَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكینَ﴾ ہم نے فقیروں کی مدد نہیں کی تھی ، دیکھئے قیامت میں کہا جائے گا کہ کافر تھے کوئی بات نہیں مگر فقیروں کی مدد انسانی وظیفہ تھا۔
مفسر قرآن کریم نے نهج البلاغۃ کے 69 ویں کلمات قصار کی تشریح کرتے بیان کیا: حضرت نے فرمایا کہ «إِذَا لَمْ یكُنْ مَا تُرِیدُ فَلَا تُبَلْ مَا كُنْتَ» ہم ارادہ رکھتے ہیں مگر قضا و قدر الھی ہمارے ارادہ کا تابع نہیں ہے بلکہ عام مصلحتوں کا تابع ہے، اگر کسی وقت مرضی کے مطابق کوئی چیز انجام نہیں پائی تو ہمیں تشویش نہیں ہونی چاہئے اور یہ نہیں کہنا چاہئے کہ ارے ہم تو اس مقام کے مالک ہیں پھر کیوں نہیں ہوا ؟ کیوں کہ قضا و قدر الھی میں «کیوں» کا دخل نہیں ہے ، حضرت نے فرمایا کہ کبھی امتحان الھی ہوتا ہے تو کبھی گذشتہ نعمتوں کا شکر تو کبھی نئی مصیبتوں پر صبر ۔ فرمایا کہ «إِذَا لَمْ یكُنْ مَا تُرِیدُ» یہ نہ کہئے کہ کیوں ہمارے ساتھ ؟ بلکہ بہت سارے افراد اپ سے بہتر تھے مگر اپنے مادی مقصد تک نہ پہونچ سکے۔
انہوں نے نهج البلاغۃ کے 70 ویں کلمات قصار کی تشریح کرتے ہوئے عقل کو انسان کی زنیت بیان کیا اور کہا: حضرت نے فرمایا کہ «لَا تَرَی الْجَاهِلَ إِلَّا مُفْرِطاً أَوْ مُفَرِّطاً» ہمیشہ انسان کی زنیت عقل ہے کیوں کہ جب انسان عاقل ہوجاتا ہے تو اس کے کام کاج پروگرامینگ کے تحت انجام پاتے ہیں ، کیوں کہ شدت پسندی اور انحراف کی بنیاد جہل ہے ، علم کے مقابل جہل قابل درمان ہے، مگرعقل کے مقابل جہالت قابل درمان نہیں ہے، حضرت امیرالمومنین علی سلام الله علیہ کے نورانی بیان میں موجود ہے کہ اگر داخلی جنگ میں عقل پیروز ہوگئی تو اپنے تمام دشمنوں کو معتدل کر لے گی یعنی وھم و خیال کو اپنی جگہ پر رکھ دے گی ، اور اگر وھم وخیال پیروز ہوگئے تو عقل کو زنجیروں میں جکڑ کر زندان میں ڈال دیں گے ۔ / ۹۸۸/ ن