رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق روزہ بہترین عبادت ہے جسے پروردگارنے استعانت کا ذریعہ قرار دیا ہے اور آل محمد نے مشکلات میں اسی ذریعہ سے کام لیا ہے ۔کبھی نماز ادا کی ہے اور کبھی روزہ رکھا ہے ۔یہ روزہ ہی کی برکت تھی کہ جب بیماری کے موقع پر آل محمدﷺ نے روزہ کی نذر کر لی اور وفا ئے نذر میں روزے رکھ لئے تو پروردگار نے پورا سورۂ دہر نازل کر دیا ۔
حجت الاسلام سید تقی عباس رضوی
یاایهاالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَـمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ
اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کردئے گئےجیسے تم سے پہلی امتوں پر فرض تھے تاکہ تم پرہیزگا ر بن جاؤ۔
(سورہ بقرہ ١٨٣)
مذکورہ آیہ مبارکہ اپنے بعد والی آیت کے ہمراہ ہمیں تین اہم موضوع کی طرف متوجہ کرتی ہے :
روزہ ،دعا اور قرآن یہ تینوں آیات آپس میں ایسے منسلک ہیں کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتیں لہذا یہ ماہ منور ایسا بابرکت مہینہ ہے جس میں لوگوں کا رجحان،شوق،جنون اور جذبہ نماز،روزہ،دعا و مناجات ،ایک دوسرے سے محبت و مہربانی پر زیادہ معکوس ہوتا ہے ایثار و قربانی کی طرف رہتا ہے ۔
جس آیہ شریفہ کو بیان کیا گیاہے وہ روزہ کی اہمیت و عظمت پر ایک روشن اور مستحکم دلیل ہے اور’’رمضان ‘‘کا مبارک مہینہ بھی ایمان والوں سےمخصوص ہے اس لئے ہرصاحب ایمان کو ان دنوں اس پر ایک خاص توجہ دینی چاہیئے کیونکہ یہ مہینہ تقوی ،تزکیہ ٔ نفس اورتطہیر قلب اور ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور اچھا برتاؤ کا مہینہ ہے ۔
قرآن مجید کے خطابات کا ایک نرالہ ہی انداز ہے کبھی اس نے ''ياايهاالناس'' کہہ کر لوگوں کو خطاب کیا ہے تو کبھی ''یا اهل الکتاب'' اور کبھی ''يا ايها الذین آمنوا '' ان تمام خطابات میں سب سے لطیف لحن قرآن کا یہ ہے کہ اس نے مومنوں کو بڑے پیارے انداز میں خطاب کیا ہے کہ ''یا ایھا الذین آمنوا''اے ایمان والو!جو سب سے بہترین لحن مانا جا تا ہے ۔
حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرما یا: ''لذّة ما فی النداء ازال تعب العبادة و العناء .'' یعنی :خطاب کی لذت ''يا ايها الذین آمنوا '' عبادت کی سختی و مشقت کو دور کر دیتی ہے ۔(مجمع البیان جلد ٢ صفحہ ٤٩٠)
در حقیقت روز ہ، روزہ داروں کی سختیوں اور پریشانیوں کو دور کر دیتا ہے ،روزہ انسان کے زاد وتوشہ کو تأمین کرتا ہے کیوں کہ انسان دنیا میں مسافر کی حیثیت رکھتا ہے اور مسافروں کو سفر میں زاد و راہ توشہ کی اشد ضرورت پڑتی ہے ۔ ''و تزّودو ا فانّ خیر الزّاد التقویٰٰ۔( سورۂ بقرہ ١٩٦)
روزہ انسانی زندگی میں تقوی پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے کہ یہ عمل صرف خدا کے لئے ہو تا ہے اور اسمیں ریا کا ری کا امکان نہیں ہے ۔روزہ صرف نیت ہے اور نیت کا علم صرف پروردگار کو ہے ۔پھر روزہ قوت ارادی کے استحکام کا بہترین ذریعہ ہے جہاں انسان حکمِ خدا وندی کی خاطر ضروریات زندگی اور لذّات حیات سب کو ترک کر دیتا ہے کہ یہی جذبہ تمام سال باقی رہ جا ئے تو تقوی کی بلند ترین منزل حاصل ہو سکتی ہے ۔
روزہ کی زحمت کے پیش نظر دیگر اقوام کا حوالہ دے کر اطمینان دلا یا گیا ہے اور پھر سفراور مرض میں معافی کا اعلان کیا گیا ہے اور مرض میں شدت یا سفر میں زحمت کی شرط نہیں لگا ئی گئی ہے ۔یہ انسان کی جہالت ہے کہ خدا آ سانی دینا چاہتا ہے اور وہ آج اور کل کے سفر کا مقابلہ کر کے دشواری پیدا کرنا چاہتا ہے اور اس طرح خلاف حکم ِ خدا روزہ رکھ کر بھی تقویٰ سے دور رہنا چاہتا ہے ۔
آیہ کریمہ میں ''لَعلَّکم'' (شاید)کا لفظ علم خدا کی کمزوری کی بنا پر نہیں نفس بشری کی کمزوری کی بنا پر استعمال ہو ا ہے ! اور یہ یاد رہے کہ روزہ صرف روزہ بھی تقویٰ کے لئے کا فی نہیں ہے ۔روزہ کی کیفیت کا تمام زندگی باقی رہنا ضروری ہے اور یہ ضروری ہے کہ سارا وجود روزہ دارہو۔برے خیالات ،گندے افکار ،بد عملی ،بد کر داری وغیرہ زندگی میں داخل نہ ہو نے پا ئیں ۔
روزہ برائیوں سے پر ہیز اور محرمات سے اجتناب کی ایک ریاضت ہے ۔روزہ بھوک ،پیاس اورمحنت و مشقت کا نام نہیں ہے،روزہ دار کے ذہن اور دل و دماغ کو غلط تصورات و خیالات سے ویسے ہی پاک و پاکیزہ ہو نا چائیے جس طرح اس کا شکم کھانے اور پینے سے خالی اور صاف رہتا ہے ۔
روزہ بھوک و پیاس کی مشق کے لئے واجب نہیں کیا گیا بلکہ محرمات اور گناہوں سے پرہیز کا عادی بنانے کے لئے واجب کیا گیا ہے ۔
شہزادی کو نین دختر نبی اکرمﷺ حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام نے فرمایا : ''وہ روزہ دار جو اپنی زبان ، اپنے کان، اپنی آنکھوں اور اپنے جوارح کو گناہ سے محفوظ نہ کرسکے تو اسکا روزہ روزہ نہیں ہے۔''
امیر المو منین علیہ السلام نے فرمایا:قلب کاروزہ زبان کے روزہ سے بہتر ہے اور زبان کا روزہ شکم کے روزہ سے افضل ہے ۔
کتنی اچھی اور قابل غور بات علامہ ذیشان حیدر جوادی مرحوم نے کہی ہے کہ :روزہ ترک لذّات کا نام ہے تیاری ٔ لذّات کا نہیں ۔'' مگر افسوس آج مسلمان معاشرہ کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ مسلمان کا وقت ،روزہ کے زمانے میں بھی زیادہ حصہ کھانے کی تیاری پر صرف ہو جا تا ہے ۔
عورتیں دو پہر کے بعد مستقل باورچی خانہ کی نذر ہو جاتی ہیں اور انواع و اقسام کے کھانے کی تیاری میں مشغول رہتی ہیں ایسا معلوم ہو تا ہے کہ روزہ بھوک و پیاس کے ذریعہ عبرت اور اصلاح نفس کی تحریک نہیں ہے بلکہ بہترین کھانوں کی تحریک ہے ۔
آپ دیکھیں گے کہ مسلمان معاشروں میں ماہ مبارک رمضان میں کھانے کا بجٹ عام زمانوں سے زیادہ ہو تا ہے اور مسلمانوں کی توجہ کھانے کے انواع و اقسام پر سال بھر سے زیادہ ہو تی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ روزہ ترک لذات اور ریاضت کا ذریعہ نہیں بلکہ بھوکے رہ کر کھانوں سے لذت اندوزی کا ذریعہ ہے ! ''
روزہ بہترین عبادت ہے جسے پروردگارنے استعانت کا ذریعہ قرار دیا ہے اور آل محمد نے مشکلات میں اسی ذریعہ سے کام لیا ہے ۔کبھی نماز ادا کی ہے اور کبھی روزہ رکھا ہے ۔یہ روزہ ہی کی برکت تھی کہ جب بیماری کے موقع پر آل محمدﷺ نے روزہ کی نذر کر لی اور وفا ئے نذر میں روزے رکھ لئے تو پروردگار نے پورا سورۂ دہر نازل کر دیا ۔
آل محمد کے ماننے والے اور سورہ ٔ دہر کی آیات پر وجد کرنے والے کسی حال میں روزے سے غافل نہیں ہو سکتے اور صرف ماہ مبارک رمضان میں نہیں بلکہ جملہ مشکلات میں روزہ کو سہارا بنا ئیں گے ۔ کیونکہ یہ مہنیہ تمام مہینوں کا سردار ہے اس ماہ مبارک میں تمام چیزیں یکجا ہو جا یا کرتی ہیں جتنی فضیلت اس مہینہ کو حاصل ہے کسی اور مہینہ کو نہیں حاصل ہے اس ماہ میں روزہ داروں کا ہر ہر لمحہ کبھی قرآن مجید کی تلاوت ،کبھی دعا اور کبھی نماز واجبہ کے ہمراہ نماز مستحبی پڑھنے میں گذرتا ہے ۔ اس ماہ میں نزول قرآن کے سبب اس کی عظمتوں میں اور چار چاند لگ گیا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ معصوم نے فرمایا ہے کہ ''مَنْ قَرَأَ فِیْ شهررِ رَمْضَانَ ٰآیَةً مِنْ کِتٰابِ الله کَانَ کَمَنْ خَتَمَ اَلْقُرْٰانَ فِیْ غَیْرِه مِنَ اَلْشهوْرِ۔'''< یعنی امام رضا فرماتے ہیں کہ:جو بھی ماہ رمضان میں کتاب اللہ کی ایک آیت کی تلاوت کریگا تووہ اس شخص کے مانند ہے جو بقیہ مہینوں میں پورے قرآن کی تلاوت کرے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا ''یہ جان لو کہ جو بھی قرآن کو سیکھے اور اسکے بعد دوسروں کی اس کی تعلیم دے اوراس پر عمل کرے تو میں جنت کی طرف اس کی رہنمائی کرنے والا ہوں۔''نیز آپ ﷺ نے فرمایا کہ ''اے میرے بیٹا! قرآن پڑھنے سے غافل نہ رہو ،کیونکہ قرآن دل کو زندہ کرتا اور فحشاء و گناہ سے دور رکھتا ہے ۔
[سلسلہ جاری ہے]