رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق شب قدر ماہ رمضان کی آخری دس راتوں میں ایک رات ہے جو کہ روایات کے مطابق ۱۹ وں ۲۱ویں یا ۲۳ویں کی راتوں میں سے ایک ہے۔ اسی رات میں قرآن نازل ہوا۔ یہ رات انسانوں کی زندگی اور موت, خیر و شر اور اُمور معنوی و مادی کے مقدار کے تعین کی رات ہے۔ یعنی دنیوی اور اخروی تقدیر کا تعین آج کی رات میں ہوتا ہے۔
در اصل لفظ "قدر" پیمانہ ، اندازہ اور حَجم کے تعین کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلا "کِس قدر یا اِس قدر" کے جملوں سے بات واضح ہو جاتی ہے۔ امام رضا علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ "قدر"کے کیا معنی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: "تقدیرِ شئی" یعنی کسی چیز کا مُقدَٓر۔
"شب قدر" یعنی انسان کے معنوی و مادی زندگی کے بساط کے پیمائش کی رات۔ اسکے مقدر کے تعین کی رات، اس کے قسمت کے فیصلہ کی رات۔
۱_ اس رات میں آئیندہ سال تک انسان کی زندگی، اسکے دنیاوی اور آخرت کی زندگی کی روزی ، برکتوں اور دیگر امور کا تعین ہو تا ہے۔ اس بات کا بھی تعین ہوتا ہے کہ سال آئیندہ تک انسان کون سے حادثات دوچار ہونے والا ہے۔
۲_ اسی رات میں ولی امر حجت ابن حسن العسکری علیہ السلام کی خدمت میں انسانوں کے سر نوشت کی فہرست پیش کی جاتی ہے۔ اور امام اس کی انجام دہی پر معمور ہوتے ہیں۔
۳_ اسی رات میں قرآن کریم کا قلب مطہر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نزول ہوا ہے۔
۴_ قرآن کریم بیان کرتا ہے کہ یہ شب ھزار راتوں سے بہتر ہے۔
۵_ اسی شب میں روح القدس (جبرئیل) ملائکہ اور فرشتہ اپنے پروردگار کے حکم سے تمام امور کی بجا آوری کے لئے زمین پر نازل ہوتے ہیں۔
قرآن کریم میں ارشاد ربالعزت ہوتا یے: "وما ادراک ما لیلۃ القدر " تمھیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟
شب قدر کی فضیلت "ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے " اس کے علاوہ بھی اس کی دیگر فضیلتیں ہیں جن میں سے چند فضیلتیں مندرجہ ذیل ہیں :
جیسا کہ قرآن گواہی دیتا ہے:
شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن " ۱ ماہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ لیکن رمضان کی کس شب میں قرآن نازل ہوا ؟ اس کا بیان دوسری آیت میں ہے:
"انا انزلناہ فی لیلۃ مبارکۃ " ۲۔ "بیشک! ہم نے قرآن کو بابرکت رات میں نازل کیا ) اور سورہ قدر میں اس بابرکت رات کو اس طرح بیان کیا:
"انا انزلناہ فی لیلۃ القدر "۳ (بیشک! ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ) شب قدر بذات خود بڑی عظمتوں کی رات ہے اور قرآن کے نزول نے بھی اس شب کی عظمت میں اضافہ کردیا ہے۔ قران کے نزول کے مختلف مدارج ہیں:
۱۔ قران کے نزول کے تین درجہ ہیں۔
۱ ۔ مقام لدنی(لوح محفوظ) ۲ ۔ دفعی نزول ۳ ۔ تدریجی نزول
۱ ۔ "مقام لدنی" یہ ساتویں آسمان پر وہ مقام ہے جسکے بارے میں سوائے ذاتِ اقدس کے اور کسی کو اسکی خبر نہیں ہے۔ قران کریم اپنے ابتدائی مرحلوں میں کئی ھزار سال تک اسی مقام پر "لوح محفوظ" "بَلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ" ۴. میں بحیثیت "کتاب مکنون " لکھا ہوا، رکھا رہا۔ ( لوح محفوظ ایک صفحہ یا تختی ہے جس پر سارے عالم کی تقدیر لکھی ہوئی ہے۔ "لوح محفوظ" کو ھی "اُمٓ الکتاب" اور "کتاب مکنون" بھی کہتے ہیں ۔ سوره واقعه میں ارشاد ربالعزت ہوتا ہے:
"إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ ٬ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ"۵ ۔ (کہ یہ بڑے رُتبے کا قرآن ہے۔ (جو) کتاب محفوظ میں (لکھا ھوا ہے).
۲ ۔ دفعی نزول = یکبارگی نزول
قران کا دفعی نزول، جس میں قرآن کریم کو "مقام لَدُنِٓی" یعنی "لوح محفوظ" سے اتار کر "بیت المعمور" پر لایا گیا۔ یعنی مکمل قرآن کو چوتھے آسمان "بیت المعمور" پر منتقل کیا گیا۔ اہل تسنن کے نزدیک یہ مقام "بیت العزہ" تھا جہاں قرآن منتقل کیا گیا۔( بیت المعمور چوتھے آسمان پر ٹھیک خانہ کعبہ کے اوپر خانہ کعبہ کے مانند ایک چوکور گھر ہے جسکے اطراف ہر وقت ستر ھزار فرشتہ اترتے، طواف کر تے اور واپس لوٹ جاتے ہیں۔ پھر ایک نیا گروہ آتا ہے اور یہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اسے اہل تسنن کی روایات میں "بیت العُزہ" کے نام سے بھی یاد کیا گیا ہے۔) قران کریم میں وہ آیات جو قرآن کے ماہ رمضان میں نازل ہو نے کی طرف اشارہ کر رہی ہیں قرآن کے قلب پیغمبر پر دفعی نزول کی طرف دلالت ہے۔
۳ ۔ تدریجی نزول۔درجہ بہ درجہ نزول
قران کا تیسرا اور آخری نزول کا مرحلہ تدریجی یعنی آہستہ آہستہ مسلسل تیئیس سال تک موقع اور مناسبت کے اعتبار سے پیامبر اکرم حضرت محمد مصطفےصلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر الھام کے طور پر یا جبرئیل امین علیہ السلام وحی کے طور پر آیات کا لیکر نازل ہوتے رہنا ہے۔
علامہ طباطبائی معتقد ہیں کہ مکمل قرآن کا نزول یکبارگی لوح محفوظ سے قلب پیغمبر پر ہوا تھا۔ اور یہی وجہ تھی کہ قران کے تدریجی دور میں جب قرآن آیت بہ آیت پیامبر اکرم پر نازل ہورہا تھا تو آیت نازل ہوئی کہ اے پیامبر آپ آیات کے نزول سے پہلے اسے نہ پڑھا کریں۔ جو اس بات کی طرف دلالت ہے کہ پیامبر اکرم ص نازل ہونے والی آیت سے قبل از نزول بھی واقف رہا کرتے تھے۔
"فَتَعَالَى اللَّهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَىٰ إِلَيْكَ وَحْيُهُ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا"۔۶۔
"تو خدا جو سچا بادشاہ ہے عالی قدر ہے۔ اور قرآن کی وحی جو تمہاری طرف بھیجی جاتی ہے اس کے پورا ہونے سے پہلے قرآن کے (پڑھنے کے) لئے جلدی نہ کیا کرو اور دعا کرو کہ میرا پروردگار مجھے اور زیادہ علم دے۔"
جیسا کہ اس شب کو "لیلۃ القدر" کہنے کی وجہ کے بارے میں اوپر بیان کیا جاچکا ہے۔
یہ رات با برکت و با عظمت ہے " لیلۃ العظمۃ"۷ اور قرآن مجید میں لفظ "قدر" عظمت و منزلت کے لئے بھی استعمال ہوا ہے جیسا کہ آیت میں ہے:
"ما قدروا اللہ حق قدرہ " ۸. (انھوں نے اللہ کی عظمت کو اس طرح نہ پہچانا جس طرح پہچاننا چاہئے. )
امام صادق علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں: "التقدیر فی لیلۃ القدر تسعۃ عشر والابرام فی لیلۃ احدیٰ و عشرین والامضاء فی لیلۃ ثلاث و عشرین " ۹ ۔
رمضان المبارک کی انیسویں شب میں تقدیر لکھی جاتی ہے ،اکیسویں شب میں اس کی دوبارہ تائید کی جاتی ہے اور تیئیسویں شب میں اس پر مہر اور دستخط لگائی جاتی ہے ۔ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں :
"یقدر فیھا ما یکون فی السنۃ من خیر او شر او مضرۃ او منفعۃ او رزق او اجل و لذالک سمیت لیلۃ القدر" ۱۰۔
( شب قدر میں جو بھی سال میں رونما ہونے والا ہے سب کچھ لکھ دیا جاتا ہے۔نیکی، برائی نفع و نقصان ،رزق اور موت، اسی لئے اس رات کو لیلۃ القدر( مقدر کی رات ) کہا جاتا ہے )
۱ ۔ "لیلۃ القدر" امامت کی دلیل ہے۔
شب قدر امامت اور اس کی بقاء پر سب سے بڑی دلیل ہے ، مختلف روایات میں وارد ہوا ہے کہ شب قدر ہر زمانے میں امام کے وجود پر دلیل ہے اس لئے "سورہ قدر" کو اہلبیت(ع) کی شناخت کہا جاتا ہے ،جیسا کہ بعض روایات میں وارد ہوا ہے ۔
امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ مولا امیرالمومنین علی علیه السلام اکثر فرمایا کرتے تھے:
جب بھی ابوبکر و عمر پیغمبر اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک ساتھ آتے تو پیغمبر اکرم ان کے سامنے سورہ انا انزلناہ کی تلاوت بڑے خضوع کے ساتھ فرماتے اور گریہ کرتے تھے، تو وہ پوچھتے تھے کہ آپ پر اتنی رقت کیوں طاری ہوتی ہے؟ تو آپ رسول اکرم (ص) فرمایا کرتے کہ ان باتوں کی وجہ سے جنہیں ہماری آنکھوں نے دیکھا اور میرے دل نے سمجھا ہے اور اس بات کی وجہ سے جسے یہ (علی علیہ السلام ) ہمارے بعد دیکھیں گے، وہ پوچھتے کہ آپ نے کیا دیکھا ہے اور یہ کیا دیکھیں گے ؟
پیغمبر (ص) نے انھیں لکھ کر دیا " تنزل الملائکۃ والروح فیھا باذن ربھم من کل امر "
"ملائک اور روح (جبرئیل اور فرشتہ) اس رات میں خداوند عالم کے اذن سے ہر کام کی تقدیر کے لئے نازل ہوتے ہیں".
پھر پیغمبر اکرم (ص) پوچھا کرتے تھے کہ کیا "کل امر" (ہر کام) کے بعد کوئی کام باقی رہ جاتا ہے ؟ وہ کہتے تھے نہیں ، پھر حضرت رسول اکرم فرماتے تھے : کیا تمہیں معلوم ہے کہ جس پر تمام امور نازل ہوتے ہیں وہ کون ہے ؟ وہ کہتے کہ ، جی ہاں ! آپ ہیں یا رسول اللہ!
پھر رسول (ص) سوال کرتے کہ کیا میرے بعد شب قدر رہے گی یا نہیں ؟ وہ کہتے تھے ، ہاں ! رہیگی یا رسول اللہ !
رسول (ص) پوچھتے کہ کیا میرے بعد بھی یہ امر نازل ہوں گے ؟ وہ کہتے تھے ہاں !
پھر رسول پوچھتے کہ کس پر نازل ہوں گے ؟ وہ کہتے کہ ہم نہیں جانتے یا رسول الله ۔۔۔۔۔۔ پھر پیامبر اکرم ص میرا (علی) سر پکڑتے اور میرے سر پر اپنا ہاتھ رکھ کر فرماتے : اگر نہیں جانتے تو جان لو ! وہ شخص یہ"علی" ہے۔
پھر مولائے متقیان نے فرمایا: یہ دونوں پیغمبر اکرم(ص) کے بعد شب قدر میں خوفزدہ رہا کرتے تھے اور شب قدر کی اس منزلت کو جانتے تھے ۔۱۱
مولا علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حقیقت میں شب قدر ہر سال آتی ہے اور امر خدا ہر سال نازل ہوتا ہے اور اس امر کے لئے صاحب الامر بھی موجود ہیں ۔
جب آپ سے دریافت کیا گیا کہ وہ صاحب الامر کون ہے تو آپ (ع) نے فرمایا :
" انا و احد عشر من صلبی ائمۃ محدثون "۱۲
(میں اور میرے صلب سے گیارہ دیگر ائمہ جو محدث ہیں ) (محدِّث یعنی ملائکہ کو آنکھوں سے نہیں دیکھتے لیکن ان کی آواز سنتے ہیں ۔)
۲ ۔ گناہوں کی آمرزش
شب قدر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس شب میں گناہگاروں کی بخشش ہوتی ہے رسول اکرم کا ارشاد گرامی ہے : "من ادرک لیلۃ القدر فلم یغفر لہ فابعدہ اللہ" ۱۳ جو شخص شب قدر کو درک کرے اور اس کے گناہ نہ بخشے جائیں اسے خداوند عالم اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے۔
ایک دوسری روایت میں اس طرح وارد ہوا ہے:
" من حرمھا فقد حرم الخیر کلہ ولا یحرم خیرھا الا محروم " ۱۴
"جو بھی شب قدر کے فیض سے محروم رہ جائے وہ تمام نیکیوں سے محروم ہے" اس شب کے فیض سے وہی محروم ہوتا ہے جو خود کو رحمت خدا سے محروم کر لے ۔
بحارالانوار کی ایک روایت میں پیغمبر اکرم (ص) سے منقول ہے:
"من صلّیٰ لیلۃ القدر ایماناً و احتساباً غفر اللہ ما تقدم من ذنبہ " ۱۵
"جوشخص بھی اس رات میں ایمان و اخلاص کے ساتھ نماز پڑھے گا خداوند رحمٰن اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف کر دے گا"۔ آمین
"مَنْ اَحْیا لَیْلَةَ الْقَدْرِ حُوِّلَ عَنْهُ الْعَذابُ اِلَى السَّنَةِ الْقابِلَةِ." ۱۶
"جس کسی نے شب قدر کو آباد رکھا تا سال آئندہ عذاب سے دور رہے گا۔"
جوشخص بھی اس رات میں ایمان و اخلاص کے ساتھ نماز پڑھے گا خداوند رحمٰن اس کے گزشتہ گناہوں کو معاف کر دے گا ۔ آمین
اس شب میں جس قدر ہو سکے شب بیداری کرے۔ روایات میں وارد ھوا ہے کہ سیدہ کونین دن میں بچوں کو سلا دیا کرتی تھیں تاکہ رات کو وہ بیدار رہ سکیں۔ اس شب میں سورھائ عنکبوت، دخان اور روم پڑھنے کا بہت ثواب ہے۔ روایت میں وارد ھوا ہے کہ بد بخت ہے وہ شخص جس نے بغیر کسی معقول عذر کے شب قدر کے اعمال چھوڑ دئے۔
ماہ رمضان خدا کے جودو سخا اسکے کرم اور رحمتوں کا مہینہ ہے۔ جسے بھی خدا نے اس ماہ میں بخش دیا تا ابد عذا ب سے بچا رہیگا اگر اس نے دوبار گناہ نہیں کئے ھوں۔ اس ماہ میں خدا وند کریم اپنے عبادت گزار بندوں کے لئے بہشت کو حکم دیتا ہے کہ اس شخص کے لئے سج جائے اور استغفار کرے ۔ یہاں تک کہ آخر شب رمضان جب آتی ہے تو خدا وند کریم اپنے عبادت گزار بندوں کے تمام گناہ بخش دیتا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر سید ابوطالب زیدی
_______
حوالہ جات:
۱۔ سورہ بقرہ ،آیت / ۱۸۵
۲۔ سورہ دخان ، آیت/ ۳
۳۔ سورہ قدر ،آیت / ۱
۴. سورہ بروج ۲۲۱
۵۔ سورہ واقعہ ۷۷/۷۸
۶. سورہ طہ: ۱۱۴
۷۔ مجمع البیان ،ج/۱، ص/۵۱۸
۸۔ سورہ حج ،آیت/ ۷۴
۹۔ وسائل الشیعہ ، ج/۷،ص/۲۵۹
۱۰ ۔ عیون اخبار الرضا، ج/۲، ص/۱۱۶
۱۱۔ اصول کافی ،ج/۱ص/۳۶۳،۳۶۴ ترجمہ سید جواد مصطفوی
۱۲۔ اثبات الھداۃ ، ج/۲، ص/۲۵۶
۱۳۔ بحارالانوار ،ج/۹۴ ص/۸۰ حدیث نمبر ۴۷
۱۴۔ کنز العمال متقی ہندی ، ج/۸ص/۵۳۴
حدیث نمبر ،۲۸ و ۲۴
۱۵۔ بحارالانوار ،ج/۹۳ ،ص/۳۶۶ ، حدیث ۴۲ ۱۶۔ بحار الانوار، ج ۹۵، ص ۱۴۵