تحریر: سید قمر رضوی
رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق میرے تمام بزرگ اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں اپنی اپنی زندگیوں میں نہ صرف امام خُمینی کا دور دیکھنے کو ملا، بلکہ کچھ خوش نصیب ایسے بھی ہیں، جنہیں امام ِ راحل کی قدم بوسی کا شرف بھی حاصل ہوا۔ میری اس ناقص تحریر کا مدعا عمومی طور پر میرے نوجوان دوست ہی ہیں، مگر اگلی چند سطور خصوصی طور پر ان نوجوان دوستوں کے لئے ہیں، جنہیں وہ سنہرا دور تو میسر نہ آیا مگر آج اس دور کی قربانیوں کے ثمرات سے وہ بہرہ مند ضرور ہو رہے ہیں۔ آیئے بیسویں صدی کی نابغہِ روزگار شخصیت آیت اللہ العظمٰی سید روح اللہ مصطفوی الموسوی الخُمینی کا ایک ہلکا سا تعارف حاصل کرتے ہیں۔
آسمان ِامامت کے ساتویں تاجدار کاظم ِآل محمدؑ کی پاکیزہ نسل سے جاری امام خُمینی (رہ) کا تمام خاندان ہی خدمت ِدین ِالٰہی میں اپنی مثال آپ تھا، مگر کسے خبر تھی کہ 17 مئی 1902ء کو قم المقدسہ سے 130 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع قصبہ "خُمین" کے مقام پر آیت اللہ سید مصطفٰی موسوی اور حاجیہ آغا خانم کے گھر میں پیدا ہونے والا یہ بچہ رہتی دنیا تک اس زمین پر اپنے ان مٹ نقوش چھوڑ جائیگا۔۔۔۔
بیشک خدا ہی علیم و حکیم ہے۔ ویسے تو خُمینی خاندان کا اصل تعلق نیشاپور سے تھا، مگر اٹھارہویں صدی کے اواخر میں یہ لوگ نیشاپور سے ہجرت کرکے ہندوستان کی اثناء عشری اکثریت والی ریاست اوَدھ کے دارالخلافہ لکھنؤ کے نزدیک ایک چھوٹے سے گاؤں کنتور ہجرت فرما گئے۔
یہیں امام خُمینی کے دادا سید احمد موسوی الہندی متولد ہوئے۔ آپ آیت اللہ سید میر حامد حسین موسوی کے رشتہ دار تھے۔ بعد ازاں یہ خاندان یہاں سے ہجرت فرما کر کشمیر چلا گیا۔ امام خُمینی کے چند مکتوبات اس بات کی سند ہیں کہ آپکے بزرگوں کا تعلق کشمیر سے بھی رہا۔
1830ء میں یہ خاندان زیارات کی غرض سے نجف ِ اشرف عراق کی جانب چلا اور پھر کبھی لوٹ کر ہندوستان نہ آیا۔ نجف ِاشرف میں خُمین کی ایک مقتدر شخصیت یوسف خان صاحب سے دوستی ہوئی۔ یوسف صاحب اس خاندان کی دینداری اور وقار سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور انکو خُمین میں سکونت اختیار کرنے کی دعوت دے ڈالی۔ جسے سید احمد ہندی صاحب نے قبول فرمایا اور تبلیغ دین اور رہائش کے لئے خُمین کا انتخاب کیا۔ بعد ازاں یوسف صاحب کی ایک دختر کو موسوی خاندان کی بہو بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ یعنی جہاں سے پرکھوں نے آغاز سفر کیا تھا، اولاد واپس اسی دیار کو لوٹی۔ مگر "ہندی" کا لاحقہ اس خاندان کے افراد کے ناموں کا حصہ ضرور رہا۔
یہاں تک کہ امام خُمینی نے اپنے کچھ اشعار میں اس نسبت کو اپنا تخلص بھی قرار دیا ہے۔ یہ مضحکہ خیز بات بھی اب تاریخ کا ایک حصہ ہے کہ جب ایران میں انقلابِ اسلامی اپنے عروج پر تھا اور شاہ کی حکومت کی چولیں ہل رہی تھیں تو اس نے امام خُمینی کی ہند والی نسبت کے بارے میں انکا ہندوستانی، یعنی غیر ملکی ہونے کا پروپیگینڈا بھی کیا گیا۔
1902ء میں امام خُمینی کی ولادت خُمین ہی میں ہوئی۔ آپ فقط پانچ ماہ کے تھے کہ آپکے والد کا وقتِ شہادت آن پہنچا اور یوں انکا کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ آپکی پرورش آپکی والدہ، پھوپی اور برادر ِبزرگ آیت اللہ سید مرتضٰی پسندیدہ نے کمال ِجاں فشانی سے کی۔ چھ برس کی عمر میں آپ کو علاقے کے ایک مکتب میں ملا عبد القاسم اور شیخ جعفر کی زیر نگرانی داخل کروا دیا گیا، جہاں آپ نے قرآن کی تعلیم حاصل کرنا شروع کی اور محض ایک سال کے عرصے میں حافظ ِ قرآن کے منصب پر فائز ہوگئے۔
آپ کی تعلیم، تربیت اور بالیدگی کا سلسلہ یونہی جاری رہا، یہاں تک کہ پندرہ سال کے سن (1918ء) میں آپکی والدہ بھی داغ ِ مفارقت دے گئیں۔ اس دور ِمحرومی میں آپ کے بڑے بھائی کا سایہ والدین کی مانند آپ کے سر پر رہا۔ آیت اللہ پسندیدہ نے نہ صرف آپک ی پرورش کی، بلکہ آپکے استاد کا فریضہ بھی ادا کیا۔
آپ نے اٹھارہویں برس میں قدم رکھا تو آپ کی اعلٰی تعلیم کا بندوبست حوزہِ علمیہ اصفہان میں کیا گیا۔ مگر آپ آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری یزدی کی شخصیت سے زیادہ متاثر تھے، جنکا مقام ِتدریس اراک تھا۔ سو 1921ء میں اراک کی جانب کوچ کیا اور آیت اللہ حائری کے حوزہِ علمیہ میں داخل ہوگئے۔
اگلے ہی برس آیت اللہ حائری نے اس حوزہ کو اراک سے قم ِمقدسہ میں منتقل کر دیا، جو اس وقت سے لیکر آج تک علوم و عقائد ِآل محمؑد کی ترویج کا دنیا کا سب سے عظیم مرکز ہے۔ اپنی درسگاہ کی قم میں منتقلی کے ساتھ آپ بھی اسی شہر میں تشریف فرما ہوئے۔
قم میں تعلیم کا زینہ عبور کرتے کرتے متون ِسطوح ِعالیہ کے درجہ پر فائز ہوئے اور اسلامی فلسفہ اور منطق کے مضامین میں اپنے ہی اساتید کے معاون بن گئے۔ اس کے علاوہ آپ شریعۃ، فقہ، اخلاق اور عرفان جیسے عمیق مضامین میں بھی تشنگان ِعلم کی سیرابی فرماتے رہے۔ انہی اور دیگر موضوعات پر آپ کی تصینف شدہ کتب آج بھی طالبان ِعلم کے لئے مشعل ِراہ ہیں۔
جب آپ 25 برس کے ہوئے تو آپ کا نکاح آپ کے والدِ گرامی کے ایک قریبی دوست اور تہران کے عالم کی دخترَ ِنیک اختر جناب خدیجہ ثقفی سے انجام پایا۔ آپ کی پہلی تین اولادیں اپنی ولادت کے بعد ہی اللہ تعالٰی نے واپس بلا لیں۔ اس کے بعد خدا نے آپکو دو فرزند اور تین دختران عطا فرمائیں۔ آپکے بڑے بیٹے مصطفٰی خُمینی کو 1977ء میں ساواک کے کارندوں نے نجف ِاشرف میں شہید کر ڈالا جبکہ دوسرے فرزند احمد خُمینی آپ کے معتمد کے طور پر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔
1995ء میں احمد خُمینی کا بھی انتقال ہوگیا۔ امام خُمینی کو اپنے فرزند احمد کے بیٹے سید حسن خُمینی سے دلی لگاؤ تھا۔ آپ اس بچے کو اکثر اوقات اپنے ساتھ رکھتے۔ آج حجۃ الاسلام سید حسن خُمینی ایک عالمِ دین بھی ہیں اور اپنے دادا کے مزار کے متولی بھی۔
امام خُمینی اگرچہ اپنے تعلیم و تدریس کے دور میں سیاست سے قطعاً منقطع تھے، مگر آپ کے مکتوبات کے تجزیئے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ہمیشہ سیاست میں دین کے دخل کو ضروری جانتے تھے۔ آپ سیاست، مذہب، اخلاقیات، فلسفہ اور معاشرت کے مابین کھینچے گئے مصنوعی خطوط کے بالکل بھی قائل نہ تھے۔
1940ء میں آپ نے اس دور میں جاری سیکیولرازم کی وبا کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ اس دور میں ایران کے مشہور علماء مخالف مؤرخ احمد کسروی کی لکھی گئی کتاب "اسرار ِہزار سالہ" کا "کشف الاسرار" نامی کتاب لکھ کر منہ توڑ جواب بھی دیا۔ آپ کے انہی نظریات نے آگے چل کر ملکی اور بین الاقوامی سیاست کے اسلوب ہی تبدیل کر ڈالے۔
یہ 1963 کی بات ہے کہ جب آپ تہران میں قید و بند کے دور سے گزر رہے تھے تو ایک شاہی کارندے نے آپ سے ملاقات کی اور کہا کہ آپ مذہبی شخصیت ہیں، اپنے کام سے کام رکھیں۔ سیاست میں دینی شخصیات کا کیا کام! ساتھ ہی دلیل بازی بھی کی کہ سیاست جھوٹ، فریب، دغابازی، لین دین اور ریاکاری کا دوسرا نام ہے، اس لئے سیاست کو اہل ِ قصر کے لئے چھوڑ دیں۔
آپ نے اطمینان سے اس کی تمام باتیں سنیں اور فرمایا، "تمہارا بتایا گیا طرز ِسیاست بے دین لوگوں کی سیاست ہے، جبکہ اسلامی سیاست قطعاً دین سے جدا نہیں۔ اسلامی سیاست عدالت و صداقت کے ساتھ خدا، رسول ﷺ اور آل رسول ؑکی غیر مشروط مؤدت و اطاعت پر مبنی ہوتی ہے۔"
جدا ہو دیں سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔۔۔۔
آپ نے الٹا اس سے سوال کر ڈالا کہ محمد و آل محمد ؑ، جن کی محبت کا ہم دم بھرتے ہیں، کیا وہ خود سیاست سے دور رہے اور صرف خدا کا پیغام پہنچا کر گوشہ نشین ہوگئے؟ نہیں، بلکہ اللہ تعالٰی نے انہیں ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کا حکم دیا، جو تمام برائیوں سے پاک اور احکامات ِخداوندی کا پابند ہو۔ اس معاشرے کے قیام کے لئے انہوں نے ہرچند جدوجہد کی۔ اس عظیم ذمہ داری کو انہوں نے اہل ِقصر کے رحم و کرم پر نہ چھوڑا بلکہ خود عملی اقدامات کئے۔ سو اسی اسوہ کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے آج ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ کارزار سیاست میں قدم رکھیں اور علوی سیاست سے اس سرزمین کا نقشہ تبدیل کریں۔
پھر 1963ء ہی میں آیت اللہ العظمٰی سید حسین بروجردی کے انتقال کے بعد آپ مرجع ِ تقلید کے عہدے پر فائز ہوئے۔ آپ کی تصنیف کردہ فقہی کتب اور توضیح المسائل کو گھر گھر مقبولیت حاصل ہوئی۔ 1920ء میں عنان ِاقتدار سنبھالتے ہی رضا شاہ پہلوی نے علماء کے خلاف ایک محاذ کھول لیا تھا، جس نے ایران کے مذہبی طبقے کے لئے خاصی مشکلات پیدا کیں۔
اسی حکمت عملی کو اس کے بیٹے محمد رضا شاہ نے خوب پروان چڑھایا۔ بالآخر 1960ء میں اپنی طاقت کے نشے میں اس نے علماء کو بے بس کرنے کی نیت سے "سفید انقلاب" کے نام سے ایک باقاعدہ مہم کا آغاز کیا۔ سفید انقلاب دراصل مغرب سے درآمد شدہ ایک لائحہِ عمل تھا، جس میں سرکاری املاک کی فروخت، زمینی اصلاحات، عورتوں کے حقوق، جنگلات کا قومیانہ اور سرکاری تعلیمی اداروں میں جہالت کے خلاف جہاد جیسے اقدامات تھے۔ بظاہر تو یہ سب احسن اقدامات تھے، مگر علماء اس مغربی سازش کو بھانپ گئے تھے۔ اس نام نہاد انقلاب میں چھپے تباہی کے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے امام خُمینی نے باقاعدہ عملی سیاست میں قدم رنجا فرمانے کا فیصلہ کیا۔
1963ء میں امریکہ کے حمایت یافتہ اس سفید انقلاب کو لاگو کرنے کی خاطر شاہ نے عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے ملک گیر استصواب ِرائے کروانے کا منصوبہ بنایا۔ دوسری جانب طاغوت کے اس حملے سے نمٹنے کی خاطر امام خُمینی نے قم میں موجود جید علماءِ کرام کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا اور شاہ کی آمرانہ اور مکروہ حکمت ہائے عملی کا پردو فاش کرتے ہوئے اس نام نہاد ریفرنڈم کے مقاطعہ کا اعلان کیا۔ جواباً شاہ نے قم کی جانب دھاوا بولا اور شدید الفاظ میں امام خُمینی اور دیگر علماءِ کرام کی سرزنش کی۔ امام کے اوپر اس کی کسی دھونس کا کوئی اثر نہ ہوا اور وہ انتہائی دلجمعی سے ملت ِایران کو اس مصیبت سے چھٹکارا دلانے کے لئے مصروف عمل رہے۔
آٹھ بزرگ ترین علماء کے دستخطوں کے ساتھ امام ِراحل نے ایک منشور جاری کیا، جس میں شاہ کی سیاہ کاریوں، آئین کی خلاف ورزی، ملک میں جاری بے حیائی کی لہر، حکومتی سرپرستی میں جاری اخلاق باختگی اور شاہ کی امریکہ و اسرائیل کی غلامی کی کھلے الفاظ میں مذمت کی گئی تھی۔ صرف یہی نہیں، حکومت کے خلاف اعلان ِاحتجاج کے طور پر 21 مارچ 1963ء کا نوروز بھی نہ منانے کا اعلان کیا گیا۔ ایک عام آدمی کی عقل حیران ہو جاتی ہے کہ زندگی کے کس کس گوشے پر اس غیر معمولی بصیرت رکھنے والے شخص کی نظر تھی، جس سے فائدہ اٹھا کر ملت کو منفعت بخشی جا سکتی تھی۔ عجب مظاہرہ تھا کہ جس دن ایران کی سڑکوں اور گلیوں میں جشن منانے والوں کی وجہ سے تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی تھی، اس دن پورے ایران میں ہُو کا عالم تھا۔
شاہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ بظاہر اتنی طاقت رکھنے کے باوجود اس کا ہر ہر حربہ ناکام ہوتا جائیگا۔ شاہ کا سفید انقلاب تو اپنی موت آپ مر ہی رہا تھا، جس کے تابوت میں امام خُمینی برابر کیلیں ٹھونکتے جا رہے تھے۔ بات یہیں پر ختم نہ ہوئی۔ 3 جون 1963ء کو یوم ِعاشور کی مجلس سے خطاب کرتے ہوئے مدرسہِ فیضیہ قم میں امام خُمینی نے یزید اور شاہ کا موازنہ پیش کیا اور دونوں کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا۔ ساتھ ہی آپ نے شاہ کو خبردار بھی کیا کہ یا تو اپنے آپ کو سدھار لو، ورنہ اس ملک سے کوچ کے لئے تیار ہو جاؤ۔ بس پھر کیا تھا، یزید جیسی مکروہ شخصیت سے نفرت کا عالم اور عین یوم ِعاشور پر اسی کا نمائندہ اپنی ہی سرزمین پر جیتا جاگتا نظر آجائے تو اس قوم کے غم و غصے کا کیا عالم ہوگا!
شاہ کی مذمت میں چلائی گئی امام خُمینی کی عوامی تحریک نے اس کا دماغی توازن بگاڑ دیا اور وہ اوچھی حرکتوں پر اتر آیا۔ محو ِاحتجاج ایرانی عوام پر سڑکوں پر تشدد کیا گیا اور تین دن کے اندر اندر چار سو غیرتمند جوانوں نے اپنے خون کا نذرانہ پیش کیا۔ 5 جون 1963ء کو امام خُمینی کو حکومت کی جانب سے گرفتار کیا گیا اور آٹھ ماہ کی قید کے بعد 1964ء میں رہا کیا گیا۔ یہ دور یوں بھی اہل ِتشیع کے لئے سیاسی طور پر ایک اہم موڑ ثابت ہوا کہ شیعہ علماء نے صفوی دور سے لیکر اب تک ہمیشہ شیعہ سلطنتوں کے قیام کو خیر سگالی کی نگاہ سے دیکھا تھا۔ ہر دور میں علماء کا تقاضا فقط اتنا رہا کہ ملک میں فقہ ِجعفری کی روشنی میں امورِ حیات انجام پاتے رہیں۔ جواباً بادشاہتیں بھی چلتی رہیں اور ان کی جانب سے مذہبی طبقے پر کسی قسم کی قدغن دیکھنے میں نہ آئی۔
مگر اب دور وہ آگیا تھا کہ شاہ کی حکومت ایک آمرانہ طرزِ عمل اختیار کرتی جا رہی تھی، جس میں نام نہاد جدیدیت کے نام پر اسلامی اقدار کو پس ِپشت جبکہ آزادی کے نام ہر فحاشی، عریانی اور اخلاق باختگی کو پروان چڑھایا جا رہا تھا۔ نتیجتاً امام خُمینی نے اس شیطانی چکر کے خلاف اعلان ِجہاد کیا اور اس آمرانہ حکومت کے مقابلے میں ایک اسلامی حکومت کے قیام کا اعادہ کیا۔ نومبر 1964ء میں امام خُمینی کو ایک بار پھر گرفتار کیا گیا، جب آپ نے ایرانی حکومت اور امریکہ کو سرزمین ِایران پر امریکی فوجیوں کو سفارتی استثناء عطا کرنے پر سخت الفاظ میں اپنی مذمت کا نشانہ بنایا۔ اب صرف گرفتاری اور نظر بندی سے کام چلتا نظر نہ آیا تو آپ کو ملک بدر کر دیا گیا۔ 4 نومبر 1964ء کو آپکو تہران سے ترکی کے سرحدی شہر بُرسا بھیج دیا گیا، جہاں آپ ایک سال سے بھی کم عرصہ تک قیام پذیر رہے۔
اکتوبر 1965ء میں آپ کو عراق جانے کی اجازت مل گئی اور آپ نجف ِاشرف میں اپنی انقلابی زندگی کے شب و روز گزارنے لگے۔ مگر یہاں بھی طاغوتی گماشتے عراق کے نائب صدر صدام نے آپ کو رہنے نہ دیا اور عراق چھوڑ جانیکا حکم صادر کیا۔ 1978ء میں آپ نے سرزمین ِانبیاء ؑ کو خیر باد کہا اور نوفل لا شیتو، فرانس کی جانب پرواز کرگئے۔ اس طرح مجموعی طور پر آپ نے 14 سال جلا وطنی کی زندگی گزاری۔ نجف ِاشرف میں اپنے قیام کے دوران ستّر کی دہائی کے اوائل میں آپ نے اسلامی نظام ِحکومت کے موضوع پر دروس کا ایک سلسلہ شروع کیا، جسے بعد ازاں کتابی صورت میں "ولایتِ فقیہ" کے عنوان سے شائع بھی کیا گیا۔ یہ اس دور کی حکومت سازی کے موضوع پر مقبول ترین اور مؤثر تصینف ثابت ہوئی۔
امام خُمینی اپنے متعین کردہ راستے پر بہت محتاط انداز میں چل رہے تھے اور اپنے حلقہِ اثر کے باہر اپنے خیالات و نظریات کی تشہیر سے احتیاط برتتے تھے۔ اپنے تئیں تو شاہ نے آپ کو جلا وطن کرکے قصہ تمام کر ڈالا تھا، مگر اسلامی انقلابی تحریک ِامام کے مکتوبات اور تقاریر کیسٹوں کی صورت میں ایران کے گھر گھر میں پڑھے اور سنے جاتے تھے۔ ان تقاریر میں شاہ کو واضح طور پر استعماری ایجنٹ، امریکہ کا پروردہ سانپ کہا جاتا اور اس کا سر کچلنے کے اقدامات کے لئے قوم کو گرمایا جاتا۔ امام کی یہی باتیں شاہ کی بظاہر طاقتور حکومت کے غبارے سے ہوا نکالنے کا سبب ثابت ہوئیں۔
1975ء میں ایک اور افسوسناک واقعہ پیش آیا، جب صیہونی قوتوں نے ایران کے اسلامی اصلاح پسند انقلابی مفکر، معلم، ادیب، ماہِر معاشیات اور فلسفی ڈاکٹر علی شریعتی کو شہید کر ڈالا۔ ڈاکٹر شریعتی کے بیشمار کارناموں میں سے ایک کارنامہ ایران کے جوان تعلیم یافتہ طبقے میں احیاءِ اسلامی کی روح پھونکنا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی شہادت کے بعد امام خُمینی شاہ کے مقابل ایرانیوں کے سب سے محبوب اور واحد روحانی پیشوا کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے۔ جوں جوں بغاوت بڑھتی گئی، آپکی مقبولیت اور اہمیت مزید اجاگر ہوتی گئی۔ جلاوطنی کے آخری ایام میں آپ کے گرد صحافیوں، آپ کے حامیوں اور مقتدر شخصیات کا تانتا بندھا رہتا، جو آپ سے اعلان ِانقلاب سننے کو بیتاب رہتے۔
پردیس میں بیٹھ کر جاری رہنے والی تحریک کے اثرات نے شاہ کے گرد اپنا گھیرا تنگ کر دیا اور اسے فرار کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ بالآخر وہ 16 جنوری 1979ء کو دم دبا کر بھاگ گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب یہ تحریک اپنے عروج کو پہنچی اور امام خُمینی نے اپنی وطن واپسی کی تاریخ کا اعلان کیا۔ اب سب سے بڑا مسئلہ آپ کی واپسی کے لئے طیارے کا انتظام کرنا تھا۔ خدا نے ایک ثروتمند تاجر کے ذریعے اس رکاوٹ کو بھی دور کر دیا اور آپ کی واپسی کے لئے تین ملین ڈالر کرائے کے عوض ائیر فرانس سے طیارہ حاصل کیا گیا۔ شاہ کے فرار کے ٹھیک دو ہفتے بعد یکم فروری 1979ء بروز جمعرات امام خُمینی اپنی سرزمین پر ایک فاتح کی مانند وارد ہوئے۔
مگر یہ کیسا فاتح تھا، جس کی نظریں طویل جنگ جیت جانے کے بعد بھی جھکی ہوئی تھیں۔ انبساط نہ فخر۔ کم و بیش تیس لاکھ افراد اس وقت آپ کے استقبال کے لئے ہوائی اڈے پر موجود تھے۔ پورا تہران اللہ اکبر اور خُمینی زندہ باد کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ عورت، مرد، بزرگ، جوان، بچہ ہر جنس کا فرد آپ کی ایک جھلک دیکھنے کو تڑپ رہا تھا اور آپ کے اطمنان اور عاجزی کا یہ عالم تھا کہ چہرے پر کامیابی کی خوشی کے آثار تک نہ تھے۔ ایک صحافی، پیٹر جیننگز نے جو پوچھا کہ اس وقت آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ جواب آیا، "ہیچ"، یعنی "کچھ بھی نہیں!!!" اپنی آمد پر آپ نے عوام کے اس ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے خطاب کرتے ہوئے شاہ پور بختیار کی حکومت کی معزولی کا اعلان کیا اور سخت الفاظ میں کہا کہ اس حکومت کی دندان شکنی کی جائیگی۔
پس یہی اسلامی انقلابی حکومت کا نقطہء آغاز تھا، جب آپ نے 11 فروری 1979ء کو عوامی حمایت سے مہدی بازرگان کو عبوری حکومت کا وزیراعظم مقرر کیا۔ یہی وہ دن ہے، جسے اب ملت ِایران اپنے قومی دن کے طور پر مناتی ہے۔ ساتھ ہی اس حکومت کو خدا کی حکومت اور مہدی بازرگان کی حکم عدولی کو خدا سے بغاوت کے مترادف قرار دیا۔ امام خُمینی کی آغاز کردہ اس اسلامی تحریک نے زبردست پذیرائی حاصل کی اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلح افواج کے سپاہی اور افسران بھی اپنے اپنے ہتھیار چھوڑ کر اس تحریک میں شامل ہونے لگے۔ 30 اور 31 مارچ 1979ء کو بادشاہت کے باقاعدہ خاتمے کے لئے عوامی استصواب ِرائے کا انعقاد کیا گیا۔ اس ریفرنڈم میں سولہ سال یا اس سے زائد عمر کے مرد و عورت کو ووٹ ڈالنے کی آزادی تھی۔ دنیا نے یہ منظر دیکھا کہ کس طرح ایرانی نوجوانان نے بڑھ چڑھ کر اس انقلاب کی حمایت کی اور اس ریفرنڈم کو 98% ووٹوں سے کامیاب بنایا۔
پرانا آئین منسوخ ہوا اور امام خُمینی اور ان کے حامی علماء و مفکرین کا مرتب کردہ آئین منظور کر لیا گیا اور یوں نومبر 1979ء میں امام خُمینی جمہوری اسلامی ایران کے رہبر انقلاب بنے اور سرکاری سطح پر رہبرِ ِمعظم انقلاب ِاسلامی کے عہدے پر فائز ہوئے۔
اتنی بڑی تحریک کا بانی و راہنما، جس کے چاہنے والے کروڑوں میں تھے، خود سادگی کا وہ پیکر تھا کہ سنّت بھی فخر کرے۔ آپ نے تمام عمر محمد و آل محمد ؑ کی صادق پیروی میں گزاری۔ ہمیشہ فرش پر چٹائی بچھا کر سوئے۔ کھانا پینا بھی انتہائی سادہ۔ زیادہ بات نہ فضول گفتگو۔ تین کمروں کے چھوٹے سے مکان میں زندگی گزاری۔ انہی تین کمروں میں سے ایک کمرہ وہ تھا، جس میں نیلے رنگ کا قالین بچھا ہوا تھا اور دنیا جہاں کی مقتدر ترین شخصیات اسی قالین پر بیٹھ کر امام خُمینی سے ملاقات کا شرف حاصل کرتی تھیں۔
آپ ایک مذہبی و سیاسی رہنما کے علاوہ ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ آپ کی بیشمار علمی کتب کے علاوہ آپ کی شاعری کے دیوان بھی شائع ہوچکے ہیں۔ امام خُمینی نے مثنوی مولانا رو م کی شہرہ ِآفاق نظم "بشنو از نی" کی بحر میں بھی شعر گوئی کی، جس کا ایک شعر ذاتی طور پر مجھے بہت پسند ہے۔ فرماتے ہیں کہ
نی چو سوزد تلّ خاکستر شود
و دل چو سوزد خانہِ دلبر شود
یعنی بانسری جل جائے تو راکھ کا ڈھیر ہو جاتی ہے، جبکہ دل جل جائے تو خانہِ خدا بن جاتا ہے۔
اسلامی انقلاب کی شاندار کامیابی کو امام کی دوراندیش شخصیت نے محض ایران کی سرحدوں تک مقید نہ رہنے دیا، بلکہ اسلام ناب کی اصل صورت کو دیگر ممالک تک پہنچانے کا اعادہ بھی کیا۔ آپ کا اولین پیغام اتحاد بین المسلمین تھا۔ آپکی بابصیرت آنکھ دیکھ رہی تھی کہ چودہ صدیوں سے مسلمانوں کے زوال کا واحد سبب فرقہ بندی اور عدم ِاتفاق ہے۔ مسلمانوں کے عقائد اور فروعات مختلف سہی، مگر تمام مسلمانوں کا رسول محمد ﷺ تو مشترک ہے۔ اسی نقطہِ اشتراک کو نقطہِ اتحاد بناتے ہوئے آپ نے ہر سال 12 تا 17 ربیع الاول کے میلاد ِرسول ِ گرامی قدر کے مبارک موقع کو دنیا کے طول و عرض میں ہفتہِ وحدت کے طور پر اور رمضان المبارک کے جمعۃ الوداع کو فلسطینی مظلومین کی حمایت کے طور پر یوم القدس کے عنوان سے منانے کا اعلان کیا۔
مگر افسوس کہ دیگر اسلامی ممالک کو شاید یہ پیغام ِاخوت پسند نہ آیا اور انقلاب کے ایک سال بعد شیطان ِبزرگ کی جانب سے صدام کے ذریعے مسلط کی گئی جنگ میں اکثر نام نہاد مسلم ریاستوں نے ظاہراً صدام اور اصلاً امریکہ کا ہی ساتھ دیا۔ اس جنگ کا مقصد انقلاب ِاسلامی کو اس کے بچپنے میں ہی ختم کرکے ایران کو عالمی سطح پر ایک تنہا اور مفلوج ریاست کے طور پر چھوڑ دینا تھا۔ اس مقصد کے لئے ایران کے پڑوس عراق پر قابض اپنے ایک گماشتے صدام کا انتخاب کیا گیا، جس نے پہلے مرحلے میں تیل کی دولت سے مالا مال صوبہ خوزستان پر چڑھائی کی، جو بعد ازاں تمام ایران میں دراندازی کی صورت میں باقاعدہ جنگ کی صورت اختیار کر گئی۔ یہ صبر آزما جنگ آٹھ سال تک مسلسل جاری رہی، جس میں املاک کا جو نقصان ہوا سو ہوا، ساڑھے نو لاکھ قیمتی انسانی جانوں کا نقصان ایران کو برداشت کرنا پڑا۔ اس جنگ میں تمام اصول و قواعد کو پاؤں تلے روند ڈالا گیا اور عراق کی جانب سے کھلے عام کیمیائی ہتھیار استعمال کئے گئے۔
بچپن کی یتیمی، لڑکپن کی جاں سوز مشقتیں، نگر نگر کے سفر، حصول ِعلم کی ریاضتیں، کار زارِ سیاست کے خار زار میں گل پاشی، قید و بند کی صعوبتیں، طویل جلا وطنی، پردیس کے دکھ، درس و تدریس، مسلط کردہ جنگ، تبلیغِ دین اور رہبریِ امت کے جان لیوا فرائض کی ادائیگی نے اس مرد ِدرویش کی صحت کو رو بہ زوال کرنا شروع کر دیا۔ محض گیارہ روز ہسپتال میں گزارنے کے بعد 3 جون 1989ء کو 86 برس کی عمر میں یہ خورشیدِ انقلاب اپنی دائمی منزل کی جانب روانہ ہوگیا۔ آپ کو تہران کے نزدیک دفن کیا گیا، جہاں تین روز تک متواتر ایک کروڑ عاشقان کا تانتا بندھا رہا۔ آج اس سانحے کو بیتے تیس سال گزر گئے، لیکن امام خُمینی آج بھی اپنے عاشقان کے سینوں میں زندہ ہیں اور تا ابد جاوید رہیں گے۔ان شاء اللہ