رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قبروں کی زیارت اور مردوں کے لئے اہمیت کا قائل ہونا انسانی سماج کی وہ صفت ہے جو تاریخ کے ہر دورمیں پائی جاتی رہی ہے اور اس سلسلے میں تحقیق اورجستجو کرنے والا اس بات کو آسانی سے سمجھ سکتاہے کہ یہ عمل کسی دین سماج یا صرف مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ عمل ہر مکتب فکر اور ہرقوم و ملت کے افراد کااجماعی موقف ہے اس کے علاوہ دیگرامور میں ان کے آپسی اختلافات چاہے جتنے بھی ہوں اس عمل کی اہمیت پر سب متفق ہیں۔
بانی اسلام شارع مقدس نے بھی مسلمانوں کو قبروں کی زیارت اور اس کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا ہے آپ نے متعدد مقامات پر اس عمل کی طرف دعوت دی ہے۔ آپ کی طرف سے یہ دعوت بلکہ یہ حکم انسانی سماج کے ان تربیتی اغراض و مقاصدکو پورا کرنے کے لئے دیا گیا ہے جن کا فائدہ ہر فرد بشر اور ہر سماج کے لئے یقینی ہے۔
ہم یہاں خلاصہ کے طور پر ان بہت سے فائدوں میں سے بعض کا تذکرہ کررہے ہیں۔
الف:عبرت اور نصیحت
قبروں کی زیارت عبرت اور نصیحت لینے کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے اس لئے کہ قبروں کو دیکھنے والامحسوس کرتا ہے کہ خود بھی اسی راہ کا مسافر ہے۔ اس کی عمر چاہے جتنی زیادہ ہوجائے اور اس کی موت چاہے جتنی دیر میں آئے آخر انجام یہی ہے وہ انجام چاہے جس صورت میں سامنے آئے انسان کے لئے یہ احساس یا یہ شعور خودہی بہت سی برائیوں کی راہ میں حائل ہوجاتا ہے۔
ب: آخرت کی یاد اور دنیا کے بارے میں زہد و پارسائ
قبروں کی زیارت آخرت اورقیامت پر عقیدے کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اورقیامت کا یہ عقیدہ اصول دین میں سے ایک اصل ہے اگر انسان یہ ایمان رکھتا ہے کہ اس زندگی کے بعد ایک دن آنے والا ہے جس میں اس کے ذریعہ انجام دیئے جانے والے کے کاموں کا حساب لیا جائے گا۔نیز یہ کہ اسے بیکار پیدا نہیں کیا گیا ہے قیامت اورآخرت کے بارے میں یہ گہری سمجھ انسان کو اپنے افعال اور اعمال کی انجام دہی میں دقت کرنے پر آمادہ کرتی ہے اور اسے ہر طرح کی برائی اور فساد سے دور رکھتی ہے اور وہ نیک کاموں کی انجام دہی کی طرف متوجہ رہتا ہے جن کا مقصد اصلاح ہوتا ہے لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ قبروں کی زیارت ایک مسلمان شخص کی تعلیم و تربیت کا اہم ترین ذریعہ ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ اپنے اعمال و کردارمیں اسے سچی اورخالصانہ نیت اور پاکیزہ ارادہ کا حامل بنا دیتی ہے جیسا کہ اس کے نتیجہ میں آخرت پر عقیدہ بھی مضبوط ہوتا ہے اور دنیاوی آرزؤوں اور تمنائوں کے حصول کے لئے حرس و ہوس میں بھی کمی آتی ہے اور اس طرح غیر شرعی راستوں سے پورا کرنے کے لئے انسان کے قدم آگے نہیں بڑھتے ہیں۔
ج:نیکیوں سے محبت کے احساس اور پاکیزہ جذبات کو بیدار کرنا
قبروں کی زیارت انسان کے دل میں نیکیاں انجام دینے اور فضائل و کمالات کو اپنے اندر جگہ دینے کے جذبے کو بیدار کرتی ہے۔
رسول اسلامؐ سے مروی حدیث میں صراحتاً وارد ہوا ہے:
’’فزوروھا فأِنّہ یرق القلب وتدمع العین وتذکّر الآخرۃ ولاتقولوا ھجراً‘‘۔ ۱؎
قبروں کی زیارت کرو اس سے دل نرم ہوتا ہے آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں آخرت کی یاد تازہ رہتی ہے اسے ہرگز بے کار نہ کہو۔
یہ وہ چند فائدے ہیں جو قبروں کی زیارت کے نتیجہ میں حاصل ہوتے ہیں لیکن یہاں پر ہمارا مقصود صرف قبروں کی زیارت کی شرعی حیثیت کے بارے میں بحث کرنا ہے اور یہ بتانا ہے کہ ہمارے اسلامی عقائد سے اس کاکیا رابطہ ہے اور اس سلسلہ میں علماء اسلام کاکیا موقف ہے اسی لئے اس عمل کی شرعی حیثیت کو چند امور کے ضمن میں پیش کیا جارہا ہے۔
قبروں کی زیارت کے شرعی جواز پر قرآنی دلیلیں
خداوندعالم نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو منافق کے جنازے پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا اور اس کی قبر کے پاس کھڑے ہونے کی بھی مخالفت فرمائی ارشاد ہوتا ہے:
وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِہٖ۰ۭ اِنَّہُمْ كَفَرُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَاتُوْا وَہُمْ فٰسِقُوْنَ.(سورۂ توبہ۔۸۴)
ان میں سے جو مرجاتے اس کے جنازے پر ہرگز نماز نہ پڑھو اوراس کی قبر پر بالکل نہ ٹھہرو وہ لوگ خدا اور اس کے رسول کے سلسلہ میں کافر ہیںاورفسق و فجور کی حالات میں دنیا سے گئے۔
اس آیۂ کریمہ میں منافق کی قبر پر ٹھہر نے اور اس کے لئے دعائے مغفرت کرنے سے منع کیا گیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ مومن کی قبر کی زیارت اور اس کے لئے دعائے خیر کی جا سکتی ہے۔جب عام مومنین کی قبر کی زیارت اور اس پر دعا کی جاسکتی ہے تو نبی اکرمؐ اور ان کی آل پاک کی قبر مطہرہ پر بدرجۂ اولیٰ حاضر ہونا اور اس پر دعا کرنا جائز ہے۔
قبروں کی زیارت احادیث کی روشنی میں
قبروں کی زیارت اوراہل قبرکے لئے دعا اور ان امور کے ذریعہ خداوندعالم سے قربت حاصل کرنے پر تاکید کرنے والی روایات دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہے۔
۱۔جو روایت ابوہریرہ نے رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم سے نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ما من رجل یزور قبر حمیمہ فیسلّم علیہ ویقعد عندہ الّا ردّ علیہ السلام وأنس بہ، حتّیٰ یقوم من عندہ‘‘
(البیان:۵۲۰ رواہ الشیخ الدیلمی، کنزالعمال ۱۳:۶۵۶،ح۴۲۶۰۱)
اگر مومن اپنے مومن دوست کی قبر کی زیارت کرتا ہے اسے سلام کرتا ہے اس کی قبر کے پاس بیٹھتا ہے تو صاحب قبر اس کے سلام کا جواب دیتا ہے اور جب تک وہ وہاں سے اٹھ نہ جائے اس کے ساتھ انسیت محسوس کرتا ہے۔
عائشہ سے روایت کہ پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا: ’’امرنی ربی ان آتی البقیع فاستغفرلھم‘‘۔
مجھے اللہ نے یہ حکم دیا ہے کہ میں بقیع آکر مرحومین کے لئے استغفار کروں۔میں نے پوچھا کیا کہاکروں اے اللہ کے رسول آپ نے فرمایا:
’’السلام علی اھل الدیار من المؤمنین والمسلمین یرحم اللّٰہ المستقدمین منّا والمستأخرین وانّا ان شاء اللّٰہ بکم لاحقون‘‘
( صحیح مسلم۳:۶۴ باب ما یقال عند دخول القبور،والسنن للنسائی۳:۷۶)
سلام ہو تم پر اے اس دیار میںبسنے والے مومنوں اور مسلمانوں خدا ہمارے گذرے ہوئے اورآئیندہ آنے والے لوگوں پر رحم کرے عنقریب ہم بھی تم سے ملحق ہونے والے ہیں۔
زیارت قبور کے تاریخی شواہد
پیغمبر اسلامؐ کی وفات سے پہلے یا وفات کے بعد کے حالات نیز مسلمانوں کی سیرت اور ان کے اخلاق و کردار کے بارے میں تحقیق و جستجو کرنے والے افراد اس بات سے آگاہ ہیں کہ قبروں کی زیارت کے لئے جانا مسلمانوں کی سیرت اور ان کا طریقۂ کار رہا ہے جس کے بہت سے تاریخی شواہد ہیں یہاں پر ان میں سے بعض کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔
۱۔ایک دن مروان نے دیکھا کہ ایک شخص قبر پر اپنا منھ رکھے ہوئے ہے اس نے ایسا کرنے والے کو گردن پکڑ کر اٹھایا اور کہا کہ تو جانتا ہے کہ کیا کررہا ہے؟اس نے کہا ہاں اس نے ان کی طرف غور سے دیکھا تو وہ صحابی رسول ابو ایوب انصاری تھے انہوں نے کہا کہ میں اللہ کے رسول کے پاس حاضر ہوااور پتھر کے پاس نہیں گیادیکھا کہ رسول اسلامؐ فرما رہے ہیں: ’’لا تبکو علی الدین اذا ولیہ اھلہ، ولکن ابکوا علیہ اذا ولیہ غیر أھلہ‘‘
(رواہ الحاکم فی المستدرک ۴:۵۱۵)
دین پر گریہ نہ کرو اگر اس کے اہل سے ملے لیکن اگر غیر اہل سے ملو تو اس پر آنسو بہاؤ۔
۲۔جناب فاطمہ زہر اؐ پیغمبر اسلام کی قبر مطہر کے پاس تشریف لائیں اورآپ کی قبرمبارک سے خاک اٹھا کر اپنی آنکھوں میں لگائی اورگریہ فرمایا۔
۳۔ایک اعرابی نبی اکرمؐ کی قبر مطہر کے پاس آیا اور آپ کی قبر کی خاک اٹھا کر اپنے سر پر ڈالی اور حضور اکرمؐ سے مخاطب ہوکر کہا آپ پر نازل ہونے والے قرآن مجیدمیں ہے: ’’ولو انھم اذ ظلموا أنفسھم جاؤک۔۔۔‘‘
اگر وہ لوگ جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کیا آپ کے پاس آئیں۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے اور میں آپ کے پاس آیا ہوں آپ سے درخواست ہے کہ آپ میرے لئے استغفار فرمائیں قبر مبارک سے آواز آئی خداوندعالم نے تیری مغفرت کردی یہ واقعہ امیرالمومنین حضرت علیؑ کی نگاہوں کے سامنے رونما ہوا۔
۴۔جناب بلال قبر نبی اکرمؐ کے پاس آئے اور آکر گریہ کرنے لگے وہ اپنا چہرہ آپ کی قبر مطہر پررگڑرہے تھے اتنے میں امام حسن اور امام حسین علیہم السلام وہاں تشریف لے آئے بلال نے دونوں کو اپنی آغوش میں لیا اور دونوں کو چومنے لگے۔
۵۔عبداللہ ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے کہ ایک دن عائشہ قبرستان سے آئیں میں نے ان سے کہاکہ اے ام المومنین آپ کہاں سے آرہی ہیں انہوں نے کہا میں اپنے بھائی عبدالرحمن کی قبر کے پاس سے آرہی ہوں میں نے پوچھا کیا پیغمبر اسلامؐ نے قبروں کی زیارت کرنے سے منع نہیں فرمایا ہے انہوں نے کہا ہاں آپ قبروں کی زیارت سے منع کرتے تھے لیکن بعد میں اس کا حکم دے دیا تھا۔
۶۔ابن تیمیہ نے ابوبکراورعمرابن خطاب کی قبروں کی زیارت کے شرعی جواز پر ابن عمر کے ذریعہ ان دونوں کی زیارت کے عمل کو دلیل قرار دیا ہے ابن عمر یہ کہہ کر ان دونوں کی زیارت کرتے تھے ابوبکر صدیق اور عمر ابن خطاب کی قبر پر تمام دیگر قبروں کی طرف سے سلام ہو۔
ابن عمر سفر سے واپسی پر پیغمبر اسلامؐ اور ان کے پہلو میں مدفون دونوں اصحاب کی قبر پر سلام کرتے تھے اور کہتے تھے ’’السلام علیک یا رسول اللّٰہ السلام علیک یا ابابکر السلام علیک یاربہ‘‘
اس کے بعد واپس آتے تھے اسی لئے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ صحابہ کرام کے اتباع اور ان کی اقتداء کی بنیاد پرایک جائز عمل ہے۔ لہٰذا جب قرآن مجید اوراحادیث نبوی کی رو سے نیز مسلمانوں کی عام سیرت کی روشنی میں یہ ثابت ہوگیا کہ صاحبان ایمان کی قبروں کی زیارت کرنا شرعاً جائز ہے۔
پیغمبر اسلامؐ کی قبر مطہر ودیگر قبور کی زیارت کے جواز پر اجماع
پیغمبر اسلامؐ کی قبر مطہر کی زیارت کے شرعی جواز پر تمام مسلمانوں کا اجماع ان کے قول اور عمل دونوں سے ثابت ہے بلکہ تمام انبیاء اور صالحین نیز تمام مومنین کی قبروں کی زیارت کا استحباب ثابت ہے اور اس زیارت کا شرعی ہونا مسلمانوں کے نزدیک اجماع اور سیرت مسلمین کے ذریعے ثابت ہونے سے بڑھ کر ضروریات دین میں شمار ہوتا ہے سمہودی نے سبکی سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ عیاض کے بیان سے پیغمبر اسلامؐ کی قبر مطہر کی زیارت مسلمانوں کی سیرت اور سنت ہے جس پر مسلمانوں کا اجماع ہے اور اس کی فضیلت کی بنیاد پر اسے ترجیح حاصل ہے۔
سبکی کا کہناہے علماء نے مردوں کی قبروں کی زیارت کے مستحب ہونے پر اجماع کیا ہے جیسا کہ نووی نے حکایت کی ہے بلکہ ظاہر یہ کے بعض پیروی کرنے والوں نے اسے واجب قرار دیا ہے البتہ عورتوں کے لئے اختلاف ہے لیکن پیغمبر اسلامؐ کی قبر مطہر اپنے خاص دلائل کی بنیاد پر بہرحال ممتاز ہے لہٰذا اس کی زیارت کے لئے عورتوں اور مردوں کے درمیان حکم کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے ۔
زیارت قبور کے جواز پر علماء کے اقوال و نظریات
یہاں پر بعض علماء کے اقوال پیش کئے جارہے ہیں جن میں قبروں کی زیارت اور عام علماء مسلمین کے نزدیک اس کے استحباب کی صراحت اور وضاحت موجود ہے۔
۱۔امام ابو عبداللہ محمد ابن ادریس شافعی کا کہنا ہے قبروں کی زیارت میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان کے پاس بیہودہ اور بے مقصد باتیں نہیں کرنا چاہییٔ جیسے بے جا اور بے مقصد آہ و واویلا۔گلہ آمیز گریہ و زاری اور بین۔ بلکہ جب زیارت کرے تو میت کے لئے طلب مغفرت کرو اور تمہارا دل نرم ہو۔
۲۔حاکم نیشاپوری کہتے ہیں میں نے جستجو کی اور تلاش کیا قبروں کی زیارت کے لئے مجھے صرف ترغیب و تشویق ہی ملی لہٰذا اسے گناہ سمجھنے والویہ جان لو کہ قبروں کی زیارت سنت مسنونہ ہے۔
۳۔شیخ زین الدین جو ابن تمیم مصری کے نام سے مشہور ہیں ان کا کہنا ہے قبروں کی زیارت اور مردوں کے لئے دعاکرنے میں کوئی حرج نہیں ہے انھوں نےاپنی کتاب ’’مجتبیٰ‘‘میں اس بات کی صراحت کی ہے کہ یہ زیارت مستحب ہے اور کہا گیا ہے کہ عورتوں کے لئے زیارت قبور حرام ہے لیکن زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ عورت اور مرددونوں کے لئے زیارت کا جواز اور اس کی اجازت ثابت ہے۔
۴۔منصور علی کا کہنا ہے زیارت قبور تمام مسلمانوں کے نزدیک مستحب ہے۔
۵۔ابن حزم کہتے ہیں قبروں کی زیارت مستحب بلکہ فرض ہے چاہے ایک ہی مرتبہ کیوں نہ ام المومنین ابن عمر اور دوسروں کے حوالہ سے صحیح آداب کے ذریعہ قبروں کی زیارت کو صحیح قرار دیا گیا ہے اورعمر سے قبروں کی زیارت کے بارے میں جونہی کی روایت کی گئی ہے وی صحیح نہیں ہے۔
۶۔ابو حامد الغزالی کا کہنا ہے قبروں کی زیارت سب کے لئے مستحب ہے اس لئے کہ اس سے موت کی یاد آتی ہے اور عبرت حاصل ہوتی ہے اور صالحین کی قبروں کی زیارت مستحب ہے اس لئے کہ اس سے نصیحت کے ساتھ ساتھ عبرت بھی حاصل ہوتی ہے۔
تحریر : حجت الاسلام سید حمید الحسن زیدی