رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جموں و کشمیر تحریک کاروان شاہ ہمدان (رہ) کے سربراہ پیر سید اشفاق بخاری نے اپنے بیان میں ملت اسلامیہ کو اختلافات سے پرھیز اور اتحاد اسلامی کی دعوت دی ۔
انہوں ںے کہا: تعلیم سے دوری کیساتھ ساتھ مسلمانوں نے رسول اکرم (ص) کا دامن بھی ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے، جسکی وجہ سے ذلت و رسوائی مسلمانوں کا مقدر بن گئی ہے، ہم فروعی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، اہم یہ ہے کہ اسلامی قوانین، اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے گا، سیرت رسول (ص) کو اپنایا جائے گا، آپسی خلش سے بچا جائے گا، ہمیں اس وقت متحد ہونے اور حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کی اشد ضروت ہے، ہمیں فروعی مسائل کو بالائے طاق رکھکر اپنے مشترکات پر مل بیٹھنا چاہئے، ہمارے درمیان علمی اختلاف ہوسکتا ہے، علمی اختلاف باعث رحمت ہے، لیکن یہ اختلافات تفرقے میں نہیں بدلنے چاہئے۔
پیر سید اشفاق بخاری شافعی نے کشمیر کے مسئلہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: ریاست جموں و کشمیر کے لوگ گذشتہ ستر برسوں سے اپنے سیاسی حقوق کی بازیابی کے لئے برابر جدوجہد کر رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ اس مسئلہ کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے ہی نکالا جائے اور اگر خدانخواستہ کسی وجہ سے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کیا جا سکتا تو اس مسئلے کو سہ فریقی مذاکرات، جس میں ھندوستان، پاکستان اور کشمیر کے حقیقی نمائندے شامل ہوں، کے ذریعے سے اس مسئلے کا حل نکالا جائے اور یہ حل کشمیریوں کی خواہشات کے عین مطابق ہونا چاہئے، ہم سمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کے لٹکنے سے برصغیر کے کروڑوں عوام کی ترقی کی راہیں بند ہیں اور برصغیر میں قیامِ امن تب تک خواب ہی رہے گا، جب تک نہ اس مسئلہ کا حل نکالا جائے۔
انہوں نے مسئلہ جموں و کشمیر کو ایک روشن حقیقت بتایا اور کہا: اس کے حل کئے بغیر برصغیر میں حقیقی امن، استحکام، تعمیر و ترقی ناممکن ہے، اس لئے بھارت اور پاکستان کے قائدین پر لازم ہے کہ وہ اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے کشمیریوں کی مالکانہ حیثیت قبول کریں اور مذاکراتی عمل میں کشمیریوں کو فریق اول کی حیثیت سے شامل کرکے اس مسئلے کا دائمی اور پائیدار حل نکالنے کی سعی کریں، جموں و کشمیر کے لوگوں نے ہمیشہ مذاکرات کا خیر مقدم کیا ہے۔
جموں و کشمیر ضلع کے بڈگام کے اہل سنت عالم دین نے عالمی سطح پر مسلمانوں کی موجودہ پسماندگی و زبوں حالی سے نکلنے کیلئے تعلیم کے کردار کو اہم جانا اور کہا: انسان یا حالت خوف میں زندہ ہے یا حالت احساس میں اور انسان کے سامنے جب سماجی، سیاسی، اعتقادی، مذہبی و عقائد کے مسائل سامنے آتے ہیں اور انسان جب ان مسائل کی بررسی و تحقیق کرتا ہے، اس تحقیق میں جب وہ منطقی و سینٹفک اینالسز نہیں کرتا ہے تو نتیجتاً توہم پرستی، فریب کاری اور استحصالی عناصر کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں وہ دنیا بھر کے مکار، فریب کار و خود غرض عناصر کا شکار ہو جاتا ہے اور وہ اس کا جی بھر کر استعمال و استحصال کرتے ہیں، وہ عناصر چاہے مذہبی لبادہ اوڑھے ہوئے ہی کیوں نہ ہوں، مذہب کو ہتھیار بنا کر سیدھے سادھے، سادہ لوح انسان کو فریب دے کر استحصال کرتے ہیں۔ دوسری طرف سیکولرازم کا نعرہ بلند کرنے والے مذہب سے دور یا اپنے آپ کو ماڈل و ترقی یافتہ کہنے والوں کو اپنے دامن فریب میں جگہ دیتے ہیں، ایسا تاریخ کے ہر موڑ پر ہوا ہے اور آج بھی ایسا استحصال جاری ہے۔
انہوں نے کہا: مسلمانوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہے، دونوں طبقوں نے مسلمانوں کا استحصال کیا ہے اور ان کی سادگی سے فائدہ اٹھایا ہے، ایسا اس لئے بھی ہوا کہ مسلمان تعلیم سے دور رہے اور اسلام ناب کے چشمے سے سیراب نہ ہوسکے، تعلیم ہی ہے جو مسلمانوں کو پسماندگی، جہالت، تنگ نظریہ، آپسی تضاد و منافرت اور افلاس کی زنجیروں سے آزاد کرسکتی ہے اور فریب کار عناصر کا حاصلہ توڑ سکتی ہے۔ تعلیم سے دوری کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے رسول اکرم (ص) کا دامن بھی ہاتھ سے چھوڑ دیا ہے، جس کی وجہ سے ذلت و رسوائی مسلمانوں کا مقدر بن گئی ہے، ہم فروعی مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، اہم یہ ہے کہ اسلامی قوانین، اسلامی تعلیمات پر عمل کیا جائے، سیرت رسول (ص) کو اپنایا جائے، آپسی خلش سے بچا جائے، ہمیں اس وقت متحد ہونے اور حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کی اشد ضروت ہے، ہمیں فروعی مسائل کو بالائے طاق رکھکر اپنے مشترکات پر مل بیٹھنا چاہیئے، ہمارے درمیان علمی اختلاف ہوسکتا ہے، علمی اختلاف باعث رحمت ہے، لیکن یہ اختلافات تفرقے میں نہیں بدلنے چاہئے، غرض یہ کہ تعلیم اور اتحاد اسلامی کے بغیر مسلمانوں کی سربلندی ممکن نہیں ہے۔ /۹۸۸/ ن