محمد اسلم خان
رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق تہران سے کشمیریوں کے حق میں طاقتورصدا بلند ہورہی ہے۔یہ روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنائی ہیں جو حق کا علم بلند کرکے اپنے جد امجد حضرت عباس علمدار کی سنت تازہ کررہے تاریخ میں ایرانی حکمت و دانائی اور عزیمت کی نئی تاریخ رقم کررہے ہیں۔
رہبر معظم آیت اللہ خامنہ آئی اپنے پیش رو آیت اللہ خمینی (رہ) کے روشن نقوش پر چل رہے ہیں جنہوں نے اسی طرح صورتحال میں مصلحت یا نام نہاد حکمت کی راہ اپنانے سے انکار کردیا تھا۔
آیت اللہ خامنہ آئی نے بھارت سے وابستہ ایران کے معاشی مفادات کو فراموش کردیا ہے کہ بھارت ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے وہ چاہ بہار کی بندرگاہ کو بھول گئے ہیں جسے گوادر کے مقابل کھڑا کیا گیا تھا۔
کہتے ہیں کہ امام خمینی نے جب گستاخ، ملعون سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ جاری کیا تو علی اکبر ہاشمی رفسنجانی نے امام خمینی کو زمانے کی اونچ نیچ سمجھانے کی کوشش کی تھی اور اس فتویٰ کی وجہ سے ایران کو درپیش خطرات کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کا فتویٰ عالمی اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ ملعون رشدی ایرانی باشندہ نہیں’ برطانوی شہری ہے اسکے قتل کا فتویٰ آپ ایران میں بیٹھ کر دے رہے ہیں جس سے ایران کیلئے مشکلات پیدا ہوں گی لہذا آپ یہ فتویٰ واپس لے لیں یا پھر اسے ذرائع ابلاغ کو جاری نہ کیا جائے، اسے آپکی توضیع مسائل میں لکھ دیا جائے لیکن ریڈیو اور ٹی وی پر نشر نہ ہو۔
امام خمینی نے جواب دیا کیوں؟ تو بتایا گیا کہ ہمیں اس کی بہت بڑی قیمت چکانا پڑیگی۔ امام خمینی نے پوچھا کیا قیمت ہمیں ادا کرنی پڑیگی؟ وہ ہم سے تعلقات توڑ لیں گے ’ امام خمینی نے فرمایا اور کیا کرینگے؟ کہا اور یہ کہ اپنے سفیر واپس بلا لیں گے، اور کیا کرینگے؟ کیا بائیکاٹ کر دینگے، پابندیاں لگا دینگے اور کیا کرینگے؟ کہا شاید ہمارے اوپر حملہ کر دیں، امام خمینی نے کہا اور کیا کرینگے؟ کہا کہ شاید ہمیں ختم ہی کر دیں! ایران شاید ختم ہو جائے گا، تو امام خمینی نے صریحاً فرمایا تھا کہ (بنا نیست کہ ایران بماند، بنا این است کہ اسلام بماند)’’ ہمارا ہدف یہ نہیں ہے کہ ایران بچائیں اور اسلام قربان کر دیں بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ اگر ایران قربان ہوتا ہے تو ہو جائے ہم اسلام کو بچا لیں اور اس نے اسلام پر حملہ کیا ہے اور آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایران پر حملے کے ڈر‘‘ سے میں اسلام پر حملے پر چپ رہوں! میں کیسا فقیہہ ہوں، میں کیسا مرجع تقلید ہوں ، میں کیسا رہبر اسلام ہوں کہ اسلام پر حملہ ہو جائے تو میں چپ ہو جائوں لیکن ایران پر حملہ ہو تو میں بول پڑوں! پھر تو میں فقیہ اسلام نہیں بلکہ فقیہ ایران ہوں۔
یہ تھے امام خمینی (رہ) جنہیں بدبخت ٹرمپ اور اس کے ٹو ڈی گالیاں دے رہے ہیں اور ہماری نئی نسل کو کچھ معلوم نہیں کہ صاحب خلافت و ملوکیت سید ابوالاعلیٰ کون تھے کہ جنہوں نے تحفظ آبروئے رسالت کے جرم میں پھانسی کا پھندا چومنا چاہا کہ مجاہد ملت عبدالستار خان نیازی انکے ہمقدم تھے۔
آبروئے رسالت پر ساری ایرانی قوم کو نچھاور کرنے کا عزم رکھنے والے خمینی کون تھے جو آج بھی بزدل امریکیوں کی نیندیں حرام کئے ہوئے ہیں۔
مرجع خلائق کے منصب عالی شان پر فائز آیت اللہْ خامنہ آئی اپنے روحانی پیشوا امام خمینی (رہ) کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ انہوں نے مصلحت سے بے نیازہوکر مظلوم کشمیریوں کے حق میں نعرہ مستانہ بلند کرکے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا اور سفارتی محاذ پر زلزلہ برپا ہوچکا ہے۔ یہ آنیوالے زمانوں کی نئی صف بندی ہے جو تیزی سے جاری ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر اور روحانی پیشواخامنہ آئی نے کہا کہ ’’ہم کشمیر میں مسلمانوں کی صورتحال پر تشویش میں مبتلا ہیں۔ ہمارے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن ہمیں توقع ہے کہ بھارتی حکومت کشمیر کے معزز لوگوں کے بارے میں منصفانہ پالیسی اختیار کریگی اورانہیں دبانے اور خطے میں مسلمانوں کو ستانے سے باز رہے گی۔‘‘
آیت اللہ خامنائی کے ٹویٹ کے دوسرے حصے میں کہاگیا کہ ’’کشمیر کی موجودہ صورتحال اور پاک بھارت تنازعات برطانوی حکومت کے برصغیر چھوڑتے وقت دانستہ شیطانی وسفاکانہ اقدامات کا نتیجہ ہیں۔ برطانیہ جان بوجھ کر خطے میں یہ رستاہوا ناسور چھوڑ گیاتھا تاکہ جنوبی ایشیا میں جھگڑے جاری رہیں۔‘‘
اس بیان کی اہمیت اور وقت کا تعین نہایت اہم ہے۔ یہ محض بیان نہیں، آنیوالے وقت کا ابتدائیہ ہے۔ یہ بیان ایرانی صدر حسن روحانی اور کابینہ کے ارکان سے ملاقات کے حوالے سے جاری ہوا ہے جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس بیان کی اہمیت کیا ہے۔
آیت اللہ علی خامنائی ایرانی نظام میں حرف آخر کی حیثیت رکھتے ہیں عظیم قائد اور روحانی پیشوا کے مقام پر فائز ہیں دراصل ایران کی روح آیت اللہ علی خامنائی کے منصب میں ہے جو انکے الفاظ کی صورت بولتی ہے۔ یہ ایک سوچ، ایک فکر اور نظریہ کے امین کا منصب ہے۔ یہ بیان نہیں دراصل بدلتے موسموں کا بیان ہے۔ سمجھ رکھنے والے اس بیان کی نزاکتوں کو خوب سمجھ گئے ہیں۔اس بیان سے بھارت میں کیا آگ لگی ہے اور رہی سہی کسر ان کا میڈیا جلتی پر تیل کی صورت نکال رہا ہے۔
بھارتی میڈیا میں ایرانی سپریم لیڈر کے بیان کے لفظ لفظ کو تولا جارہا ہے، پرت پرت کو سمجھاجارہا ہے اور بھارتی کس قدر اس سے سلگ رہے ہیں، انکے الفاظ اور تجزیہ اس کا بیان کرنے کو کافی ہیں۔ اتنی تکلیف ابھی تک کسی بیان سے بھارتیوں کو نہیں جس قدر آیت اللہ علی خامنائی کے الفاظ سے ہوئی ہے۔
بھارتی میڈیا چیخ و پکار کر رہا ہے۔ ایرانی پارلیمان پاکستان کے بعد دوسری پارلیمان ہے جس نے کشمیر میں بھارتی مظالم اور درندگی کیخلاف قرارداد منظور کی ہے۔ علی خامنہ ای اس جرأت اظہار پر بجا طورپر پاکستان کے اعلیٰ ترین سول اعزاز کے حقدار ہیں۔ ’’جب ایرانی سپریم لیڈر کی زبان حرکت کرتی ہے تو بہت کچھ ہوتا ہے۔ ایرانی سپریم لیڈر کی زبان ان دنوں حرکت میں ہے۔ انہوں نے جو کہا وہ ہمیں سننا اور سمجھنا چاہئے۔
ایرانی سپریم لیڈر نے ایک ہفتے میں دو مرتبہ کشمیر کا ذکر کیا ہے۔ جس سے ماحول میں بدمزگی پیدا ہوئی ہے۔‘‘اپنی روایتی کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فورا ہی بھارتی میڈیا کا پینترا بدلا اور دہن بھی بگڑ گیا کہاکہ ’’بھارت ایران سے تیل خریدنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ اقوام متحدہ اور امریکہ کی جانب سے ایران پر پابندیوں کے باوجود بھارت نے اس سے تجارتی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر میں بھارت اور ایران کا مشترکہ مفاد ہے۔ ثقافت اور فلم کے شعبے میں دونوں کا تعاون ہے۔‘‘پھر پینترا بدلا اور یوں کہاکہ’’ کوئی صدر ایران کے روحانی پیشوا کیخلاف نہیں جاسکتا۔ خامنائی کا کہا ہوا ہی ایران میں حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔ خامنائی نے اسلامی دنیا سے کہا ہے کہ وہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کریں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کشمیری مسلمان جبرواستبداد کا سامنا کررہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سب کو کھل کر کشمیریوں کی حمایت کرنی چاہئے۔‘‘ یہ سب بیان کرکے یہ ایران کیخلاف وہی زبان اپنالی جو شیطان صہیونی اوران کے کارندے استعمال کرتے ہیں کہ ’’وہ (خامنائی) اسلام کے نام پر بحرین، یمن، میانمار اور اب کشمیر میں بدامنی کے بیج بو رہے ہیں۔‘‘
بھارتی میڈیا میں یہ بھی ’’چرچا‘‘ جاری ہے کہ ’’بہت لوگ یہ سوال پوچھیں گے کہ ایران بھارت سے کیوں منہ موڑ رہا ہے؟ بات واضح ہے اور یہ کوئی راز نہیں کہ ایران اسرائیل کا دوست نہیں۔ مودی نے اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملا لئے ہیں۔ اور یہی وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے تہران نے یہ موقف اپنایا ہے۔‘‘ایرانی سپریم لیڈر نے جب پوری دنیا کے مسلمانوں کو اپیل کی کہ وہ تحریک آزادی جموں وکشمیر کی حمایت کریں۔ تو نئی دہلی میں خطرے کی گھنٹیاں بجنا شروع ہوگئیں۔ انہیں اس بیان سے اتنی تکلیف ہوئی کہ بھارت میں ایرانی سفیر کو وزارت خارجہ طلب کیاگیا اور اس بیان پر باضابطہ احتجاج کیاگیا۔
22 مئی 2016ء کو مودی نے ایران کا سرکاری دورہ کیاتھا۔ پھر ہوا کا رْخ بدلا۔ مودی کا رْخ فلسطینیوں کے قاتل کی طرف ہوا۔ جولائی 2017ء میں مودی نے اسرائیل کا پہلا دورہ کیا۔ مودی کے اس دورے سے قبل ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنائی نے کشمیر کے مسلمانوں پر زوردیا کہ وہ جابروں کے سامنے ڈٹ کر کھڑے رہیں۔ ایران یومیہ چار لاکھ پچیس ہزار بیرل خام تیل بھارت کو فراہم کرتا ہے۔ بھارت ایران کی تیل وگیس کی صنعت میں دوسرا بڑا غیرملکی سرمایہ کار ہے۔ 2011ء میں ایران اور بھارت کے درمیان 12 ارب ڈالر سالانہ تجارت ایران پر شدید اقتصادی پابندیوں کی بناء پر رْک گئی تھی۔ یہ ادائیگیاں بھارتی وزارت تیل نے ترکی کی معرفت بنکاری نظام کے ذریعے کی تھیں۔ بھارت نے ایران کے جوہری پروگرام کی شدید مخالفت کی۔
بھارت افغانستان میں نیٹو افواج رکھنے کے بھی حق میں ہے جبکہ ایران اس کا حامی نہیں۔ ایران نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی بھی پیشکش کی تھی۔ ایران نے بھارت مخالفت قراردادوں کی اوآئی سی اور انسانی حقوق کمشن میں تیاری پر اکثر اعتراض کیا۔ بھارت میں پونے اور بنگلور میں ایرانی طالبعلموں کے بھارتی یونیورسٹیوں میں داخلوں میں خاطرخواہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اہل تشیع لکھنوؤ میں اکثریت میں بتائے جاتے ہیں۔لکھنوؤ برصغیر میں فارسی اور شیعہ ثقافت کا سب سے بڑا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ بھارت نے محرم کو قومی تعطیل قرار دے رکھا ہے۔