18 January 2020 - 07:35
News ID: 441949
فونت
ابومہدی المہندس سمجھ بوجھ اور ذہانت میں اپنے ہم عمر بچوں سے کہیں آگےتھے، بچپن ہی سے ان کے اندر وہ انہماک اور استغراق موجود تھاجو بڑے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔

تحریر: حجت الاسلام سید تقی عباس رضوی کلکتوی
المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی-دہلی برانچ

شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مال غنیمت،نہ کشورکشائی!

شہید اسلام، شہید مدافع کربلا، قدس و نجف، حزب اللہ کے فوجی دستہ کے سربراہ، عراقی پاپولر موبائلائزیشن فورس کے ڈپٹی کمانڈر جمال جعفر معروف بہ ابومہدی المہندس ۱۹۵۴عراق کے شہر بصرہ میں پیدا ہوئے جو صرف ایک کمانڈر ہی نہیں بلکہ ایک بہترین انجینئر بھی تھے جنہوں نے 1977 ٹیلی مواصلات انجینئرنگ کے شعبے میں اعلیٰ ڈگری حاصل کی؛ یہ اس گھرانے سے تعلق رکھتے تھےجو عرصہ دراز سے عراق و ایران کے مضبوط مذہبی اور ثقافتی رشتوں میں منسلک رہاہے ۔

عراق ان کا دادیہال ہے اور ایران نانیہال ہے جو پوری دنیا میں اپنی تہذیب و ثقافت، سیاست و تمدن اور علوم و فنون کے اعتبار سے مشہور و معروف ہے۔

انسانیت سے خیر خواہی، ظلم سے نفرت و بیزاری، وطن سے محبت، اس پر مٹنے اور جان نچھاور کرنے کا جذبہ تو خیر انکے گھر کا ورثہ ہے مگر ابومہدی کی تربیت نے اس جذبے کوا یک علمی اور عملی سمت دی۔

ابومہدی المہندس سمجھ بوجھ اور ذہانت میں اپنے ہم عمر بچوں سے کہیں آگےتھے۔ بچپن ہی سے ان کے اندر وہ انہماک اور استغراق موجود تھاجو بڑے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہےکہ ابومہدی المہندس دل میں شہادت کی خواہش لئے’’حزب الدعوۃ‘‘ نامی تنظیم میں شامل ہونے کے بعد عازم  ایران ہوئے جس کی بنیاد 1957ء میں شہید باقر الصدرؒ نے رکھی تھی تاکہ بعث پارٹی کی جانب سے عراق میں ظلم و زیادتی اور لادینیت کے فروغ کو روکا جا سکے اور اسلامی افکارات کا احیاء کیا جا سکے، اسی مستحسن جذبہ کو اپنے دل میں لئے ایران کے شہر اہواز میں کچھ دن رہے اور پھر وہاں سے کویت آگئے اور وہاں جابریہ نامی علاقے میں رہ کر عراق میں مسلط صدام کے بعثی دہشت گردوں کے تشدد و بربریت کے خلاف پر امن سیاسی و سلامتی امور میں فعّال و متحرک رہے مگر دشمن (امریکیوں) نے انہیں وہاں بھی چین سے رہنے نہیں دیا اور انہیں کویت میں موجود امریکا و فرانس کی ایمبسی پر حملہ کے جرم میں انہیں پھانسی کی سزا سنا دی اسی اثنا میں وہ وہاں سے کسی طرح ایران آ گئے اور 2003 میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعد عراق لوٹ آئے اور عراق کے وزیر اعظم ابراہیم جعفری کے سلامتی کونسل کے مشیر اعلیٰ بن کر اپنی کارکردگی کو جاری رکھا ۔

احساس فرض، شجاعت، بلند ہمتی اور غیر متزلزل جذبہ حب الوطنی‘ کے سہارے سال 2005 میں پارلیمانی انتخابات میں کھڑے ہوئے اور صوبۂ بابل کے نمائندہ منتخب ہوئے۔ اور جب 2007 میں امریکیوں کو ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور کارکردگی کا پتہ چلا تو وہ ان کے خلاف منصوبہ بندی کرنے لگے۔

ابومہدی وہاں سے دوبارہ ایران آگئے اور عراق سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد عراق آئے اور وہاں کی عوام کو متحرک کرنا شروع کیا اور اس تحریک کے وائس چیئرمین ہونے کے بعد اپنے پیارے مشفق و مہربان دوست میجر قاسم سلیمانی شہید کے ساتھ ملکر اپنے درینہ دشمن امریکا، اسرائیل اور انکے زیر سر پرستی بننے والی تنظیم داعش کے لئے موت کا سایہ بن کر پورے خطے میں منڈلانے لگے اور زندہ رہنے تک ان دونوں نے ملکر خطے میں امریکہ، اسرائیل اور داعش کی اینٹ سے اینٹ بجا کر اسلام دشمن عناصر داعش کے دہشتگردوں کو اپنے ملک و علاقے سے بھاگنے پر مجبور کردیا ۔

جب امریکہ نے مشرق وسطی میں اپنے مفادات کو خطرے میں محسوس کرتے ہوئےخاص عراق سے اپنے پاؤں اکھڑتا دیکھ ان کے قتل کا درپئے ہوگیا اور ان پر مختلف حملے کروائے لیکن عراق کے اس عظیم مجاہد ابومہدی المہندس نے ہر حملہ کا یہ کہہ کر جواب دیا کہ :

جان جب تک نہ ہو بدن سے جدا کوئی دشمن نہ ہو وطن سے ہَوا

بالآخروہ دن بھی آہی گیا جس کے لئے انونں نے سالہا محنت کی تھی اور 3 جنوری 2020ء بروز جمعہ بغداد کے بیں الاقوامی ہوائی اڈے کی قریب امریکی ڈرون حملے میں میجر جنرل قاسم سلیمانی کے ہمراہ شہید ہو گئے۔

امریکی ڈرون حملے کی دھمک ایسی تھی جو صرف بغداد تک ہی محدود نہ رہ سکی بلکہ پوری دنیا اور ہر انصاف پسند کے دل تک پہنچی اور ہر آنکھ ان کے لئے روئی کمال کی شخصیت تھے۔

با اخلاق، مہذب، مؤدب، کشادہ دل، خندہ رو، پاکیزہ سرشت، متقی و پرہیزگار اور اپنے نرم لب و لہجہ کے ذریعے ہر دل میں گھر کر جانے والے جیسے عظیم المرتبت شہید کی تعریف میں الفاظ نہیں! بس یہی کہہ کر اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ :
کڑے سفر کا تھکا مسافر تھکا ہے ایسا کہ سو گیا ہے
خود اپنی آنکھیں تو بند کرلیں
ہزاروں آنکھیں بھگو گیا ہے

یہ وہ ہستی تھی جس کے لئے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اﷲ العظمیٰ خامنہ ای دام ظلہ العالی فرمایا کرتے تھے : اے ابو مہدی! میں آپ کو آپ کے نام سے ہر نماز شب میں یاد کرتا ہوں۔ لہذا ہم سب کا بھی فرض ہے کہ ہم اپنے شہدا اور ان کے لواحقین کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھیں۔

خداوند عالم شہدائے اسلام خاص اس شہید کے درجات بلند فرمائے۔ آمین

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬