سیدہ ایمن نقوی
رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حضرت فاطمہ زہرا (س) نے حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام جیسے صالح فرزندوں کی تربیت کی کہ جو رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے فرمان عالیشان کے مطابق جوانان جنت کے سردار ہیں۔
ایام فاطمیہ عصمت کبرٰی حضرت فاطمہ زہرا (س) کى شہادت کے ایام ہیں، وہ پاک اور مقدس ذات جو ام ابیھا بھی ہے اور آئمہ معصومین (علیہم السلام) کى ماں بھی ہے۔ روز فراق زہرا (س)، امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے لئے دائمی غم و اندوہ کا دن ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیھا) کے گوہر وجود سے آشنا ہونا بہت ضروری ہے، ہمیں چاہیئے کہ نہ صرف خود آشنا ہوں بلکہ اور لوگوں کو بھی بی بی دو عالم کی پاک و مطہر زندگانی سے روشناس کروائیں۔
حضرت آیۃ اللہ وحید خراسانی نے فرمایا: "ایام فاطمیہ کی فرصت کو غنیمت سمجھئے، آج کا دن ایام فاطمیہ کی تمہید ہے" فاطمہ کون ہیں؟ ہم نہ سمجھ سکے! ہم پہچان نہ سکے! نہ ہی کوئی کماحقہ معرفت پیدا کر سکتا ہے! روایت میں ہے کہ "لِفاطمةُ تِسعة أسماء عند الله"، اللہ کے نزدیک فاطمہ (س) کے نو نام ہیں۔ عن أبی عبدالله، عن آبائه، قال: قال رسول الله ۔ ۔ ۔ رسول اعظم (ص) نے فرمایا: زمین و آسمان کی خلقت سے قبل، نور فاطمہ زہرا (س) خلق ہوا۔ اس آسمان کی خلقت کو آج ایک طویل عرصہ گزر چکا ہے، لیکن خلقت (حضرت زہرا س) سب پر مقدم ہے۔
تو سوال ہوا، اگر ایسا ہے تو اس کا مطلب فاطمہ (س) انسانوں میں سے نہیں ہیں!! حضرت کا جواب یہ ہے، اس دنیا میں خلقت کا مبداء و منشاء، نور خدا ہے؛ الله نور السماوات والأرض۔ جب آسمان نہ تھے، زمین بھی نہ تھی تو آخر فاطمہ کہاں تھیں؟ فرمایا: عرش رحمان کے نیچے ایک خاص جگہ پر۔ اس کے بعد دریافت کیا گیا: آپ کی غذا کیا تھی؟ فرمایا: التَّسْبِیحُ والتقدیس وَالتَّهْلِیلُ وَالتَّحْمِیدُ۔ اب امام جعفر صادق علیہ السلام کی حدیث انسان کی سمجھ میں آ سکتی ہے: إنما سمیت فاطمة فاطمة لأن الخلق مفطوم ۔ ۔ ۔ فاطمہ اسلئے فاطمہ کہلائیں کیونکہ مخلوقات خدا آپ کی شنخت سے عاجز ہیں۔
فَلَمَّا خَلَقَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ آدَمَ وَ أَخْرَجَنِی مِنْ صُلْبِهِ و أَحَبَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَل أَنْ یُخْرِجَهَا مِنْ صُلْبِی ۔ ۔ ۔ جناب جبرئیل (ع) نے کہا: یہ سیب آپ کی خدمت میں الٰہی تحفہ ہے۔ اجر رسالت کا یہ مقام ہے، میں نے اسے لیا اور سینہ سے لگایا؛ اس کے بعد جبرئیل نے فرمایا: اسے کھا لیجئے۔ جب نبی اکرم (ص) نے اس سیب کو تقسیم کیا، اس سے ایسا نور ساطع ہوا جسے دیکھ کر خود آنحضرت نے گریہ و زاری کی۔ یہ جوہر کون ہے؟ ایسا نور جس کی تابندگی اور درخشش اس حد تک ہو کہ جسے دیکھ کر خاتم النبیین، کل عقل، کل الکمال بھی گریہ وزاری کرنے لگیں!!
بلاشبہ یہ نور اس ذات کا ہے جس کا نام آسمان میں منصورہ ہے، زمین پر جس کا نام فاطمہ ہے۔ یہ روز قیامت کے لئے ذخیرہ ہے۔ وہ دن جب تمام انبیاء فرمائیں گے، وانفســا! وہ دن، جناب زہرائے مرضیہ (س) کی سلطنت کا روز ہوگا، وہ دن وہ ہوگا کہ جب آپ کو لایا جائے گا و یفرح المؤمنون بنصر الله. روایات میں بارہا ذکر ہوا کہ لما سقطت إلی الأرض، جیسے ہی شکم مادر سے آپ نے اس روی زمین پر قدم رکھا، ایک ایسا نور برسا جس سے تمام عالم امکان منور ہوگیا۔ آخر یہ کس گوہر کی بات ہو رہی ہے؟!
یہ کوئی اور نہیں ام الحسنین ہیں، اس حسن (ع) کی والدہ جس نے اسلام کو بچانے کے لئے معاویہ کیساتھ مصلحتا صلح جیسے زہر کا گھونٹ پیا، اس عظیم حسین (ع) کی ماں جس نے کربلا میں بھرا کنبہ قربان کر کے اسلام کو بچایا، وہ جس کی عبادت پہ پروردگار نے فخرورزی کی، وہ جسے اس کے باپ نے ام ابیھا جیسا لقب دیا، وہ جو سیدہ دو عالم ہے، جسے نبی نے سبب پیدائش دنیا کہا۔ وہ جو اپنی ذات میں کمال رکھتی ہیں، وہ جس کی پوری زندگانی تسبیح و تمجید پروردگار ہے، وہ جو زینب و ام کلثوم جسی پاکیزہ بیٹیوں کی ماں ہے۔ جناب سیدہ دو عالم کی زندگی بہت مختصر لیکن عظیم اخلاقی اور معنوی درس کی حامل تھی۔ یہ عظیم خاتون اسلام کے ابتدائی دور میں مختلف مراحل میں رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ رہیں۔
آپ نے حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام جیسے صالح فرزندوں کی تربیت کی کہ جو رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے فرمان عالیشان کے مطابق جوانان جنت کے سردار ہیں۔ حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہ کی پیدائش بعثت کے پانچویں سال میں 20 جمادی الثانی کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔
آپ کے والد ماجد حضرت محمد مصطفٰی صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور والدہ ماجدہ حضرت خدیجة الکبریٰ سلام اللہ علیہ ہیں۔ ام المومنین جناب خدیجہ سلام اللہ علیہ وہ عظیم خاتون ہیں جو پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لائیں اور پوری زندگی آپ کا دفاع کرتی رہیں۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی پارہ جگر کا نام فاطمہ اور مشہور لقب زہرا، سیدۃ النساء العالمین، راضیہ، مرضیہ، شافعہ، صدیقہ، طاھرہ، زکیہ، خیر النساء اور بتول ہیں۔
آپ کی مشہور کنیت ام الآئمہ، ام الحسنین، ام السبطین اور امِ ابیہا ہے۔ ان تمام کنیتوں میں سب سے زیادہ حیرت انگیز ام ابیھا ہے، یعنی اپنے باپ کی ماں؛ پس یہ لقب اس بات کا ترجمان ہے کہ آپ اپنے والد بزرگوار کو بےحد چاہتی تھیں اور کمسنی کے باوجود اپنے بابا کی روحانوی اور معنوی پناہگاہ تھیں۔ جس معاشرے میں بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفن کر دینا ایک عام رواج تھا، رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اپنی شہزادی کی تعظیم کے لئے خود کھڑے ہو جاتے تھے۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) نے خواتین کے لئے پردے کی اہمیت کو اس وقت بھی ظاہر کیا جب اپ دنیا سے رخصت ہونے والی تھیں۔ روایت کے مطابق، آپ ایک دن غیر معمولی طور فکرمند نظر آئیں، آپ کی چچی (جعفر طیار رضی اللہ تعالی کی بیوہ) اسماء بنتِ عمیس نے سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے جنازہ کے اٹھانے کا یہ دستور اچھا نہیں لگتا، معلوم ہوتا کہ عورت کی میّت کو بھی تختہ پر اٹھایا جاتا ہے جس سے اس کا قد و قامت نظر آتا ہے۔
اسما رضی اللہ تعالٰی نے کہا کہ میں نے ملک حبشہ میں ایک طریقہ جنازہ اٹھانے کا دیکھا ہے وہ غالباً آپ کو پسند ہو۔ اسکے بعد انہوں نے تابوت کی ایک شکل بنا کر دکھائی اس پر سیّدہ فاطمہ سلام اللہ علیہ بہت خوش ہوئیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد صرف یہی ایک ایسا موقع تھا کہ جب آپ کے لبوں پر مسکان آئی تھی۔ چنانچہ آپ نے وصیّت فرمائی کہ آپ کے جنازے کو اسی طرح کے تابوت میں اٹھایا جائے. مورخین تصریح کرتے ہیں کہ سب سے پہلی لاش جو تابوت میں اٹھی ہے وہ حضرت فاطمہ زہرا (س) کی تھی۔ اسکے علاوہ آپ نے یہ وصیت بھی فرمائی تھی کہ آپ کا جنازہ شب کی تاریکی میں اٹھایا جائے۔
آپ کی شان میں شیعہ سنی منابع میں بہت زیادہ احادیث وارد ہوئی ہیں، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ "ایک فرشتہ جو اس رات سے پہلے کبھی زمین پر نہ اترا تھا اس نے اپنے پروردگار سے اجازت مانگی کہ مجھے سلام کرنے حاضر ہوا اور یہ خوشخبری دی کہ فاطمہ سلام اللہ علیہا اہلِ جنت کی تمام عورتوں کی سردار ہے اور حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ جنت کے تمام جوانوں کے سردار ہیں"۔
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا، فاطمہ میری جان کا حصہ ہے پس جس نے اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بے شک فاطمہ سلام اللہ علیہا میری جان کا حصہ ہے۔ اسے تکلیف دینے والی چیز مجھے تکلیف دیتی ہے اور اسے مشقت میں ڈالنے والا مجھے مشقت میں ڈالتا ہے۔ حضرت ابو حنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: بےشک فاطمہ سلام اللہ علیہا میری جان کا حصہ ہے۔
جس نے اسے ستایا اس نے مجھے ستایا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنے اہل و عیال میں سے سب کے بعد جس سے گفتگو فرما کر سفر پر روانہ ہوتے وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہوتیں اور سفر سے واپسی پر سب سے پہلے جس کے پاس تشریف لاتے وہ بھی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہوتیں۔
ایک اور مشہور حدیث (جو حدیث کساء کے نام سے معروف ہے) کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک یمنی چادر کے نیچے حضرت فاطمہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ و حسن رضی اللہ عنہ و حسین رضی اللہ عنہ کو اکٹھا کیا اور فرمایا کہ بے شک اللہ چاہتا ہے کہ اے میرے اہلبیت تجھ سے رجس کو دور کرے اور ایسے پاک کرے جیسا پاک کرنے کا حق ہے۔
تاہم صد افسوس کہ وہ جگر پارہ رسول سلام اللہ علیہ جنکی تعظیم کو نبی اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو جاتے تھے، بعدِ رسول صلی الله علیہ وآلہ وسلم اہل زمانہ کا رخ ان کی طرف سے پھر گیا۔ ان پر طرح طرح کے ظلم ہونے لگے اور انتہا تو یہ کہ شہزادی کونین سلام اللہ علیہا کے گھر پر لکڑیاں جمع کر کے آگ لگا دی گئی۔ اس وقت آپ کو وہ جسمانی صدمہ پہنچا، جسے آپ برداشت نہ کر سکیں اور وہی آپ کی شہادت کا سبب بنا۔ ان صدموں اور مصیبتوں کا اندازہ سیّدہ فاطمہ (س) کی زبان پر جاری ہونے والے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے کہ "صُبَّت علیَّ مصائبُ لو انھّا صبّت علی الایّام صرن لیالیا" بابا جان آپ کے جانے کے بعد مجھ پر اتنی مصیبتیں پڑیں کہ اگر روشن دِنوں پر پڑتیں تو وہ تاریک راتوں میں تبدیل ہو جاتے۔ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ نے اپنے والد بزرگوار رسولِ خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے 3مہینہ بعد تین جمادی الثانی سن 11 ہجری قمری میں شہادت پائی۔
آپ کی وصیّت کے مطابق آپ کا جنازہ رات کو اٹھایا گیا۔ حضرت علی علیہ السّلام نے تجہیز و تکفین کا انتظام کیا اور صرف بنی ہاشم اور سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی، مقداد رضی اللہ تعالٰی اور عمار رضی اللہ تعالٰی جیسے مخلص و وفادار اصحاب کے ساتھ نماز جنازہ پڑھ کر خاموشی کے ساتھ دفن کردیا۔ جنت البقیع میں جو آپ کا روضہ تھا وہ بھی باقی نہیں رہا۔ اس مبارک روضہ کو 8 شوال سن 1344ھجری قمری میں آل سعود نے دوسرے مقابر اہلیبیت علیہ السّلام کے ساتھ شہید کرا دیا۔
روز فراق زہرا (س)، امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے لئے دائمی غم و اندوہ کا دن ہے، اس ذات کو آپ کی معرفت حاصل ہوئی، وہ ذات جسے دیکھنے جنگ احد میں پیغمبر اعظم شریف لائے، جیسے ہی نگاہ پیغمبر جسم پر پڑی، کیا دیکھا کہ بدن میں جگہ جگہ زخم موجود ہیں، دیکھتے ہی نبی اکرم (ص) نے گریہ کیا۔ لیکن خود آپ (ع) نے فرمایا: یا رسول الله! کیا خدا مجھ سے راضی ہے؟ انیسویں کی صبح میں ایسی شمشیر آپ کے سر اقدس پر لگی کہ جسے ہزار درہم میں خریدا گیا تھا، جو زہر سے بجھی ہوئی تھی۔
اس موقع جبرئیل امین(ع) نے زمین و آسمان کے درمیان آواز بلند کی: تهدمت والله أرکان الهدی، لیکن خود آپ نے فرمایا: فزت و رب الکعبة؛ لیکن جس وقت اس مرد خدا نے جنازہ فاطمہ زہرا (س) کو اٹھایا اور پیغمبر (ص) کے حوالہ کرنا چاہا فرمایا: یا رسول اللَّه! اب میری راتوں کی نیند ختم ہو جائے گی، یہ غم و اندوہ میرے لئے ہمیشہ باقی رہنے والا ہے۔ یا رسول اللَّه! فاطمہ کی خبرگیری کیجئے! معلوم ہوتا ہے کہ بی بی (س) نے پڑنے والی مصیبتوں کو علی (ع) سے بیان نہیں کیا۔ مولا (ع) نے فرمایا: رسول الله! استخبرها الحال..۔