رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سرزمین ھندوستان کی عظیم شخصیت اور بزرگ تعلیمی مرکز تنظیم المکاتب کے جنرل سکریٹری حجت الاسلام و المسلمین صفی حیدر صاحب اپنے صادر کردہ بیان میں ھندوستان لاک ڈاون پر غریبوں کی امداد کی خصوصی اپیل کی۔
انہوں نے کپا: اللہ ہماری قوم و ملت کو ہمارے ملک کو آفات و بلیات سے محفوظ رکھے۔ ہم لوگوں کی غلطیوں پر رحم کرے اور ہمارے گناہوں کو معاف کرے۔ ہمارے لئے اس مصیبت کو سبق قرار دے۔ہم قیامت سے خوفزدہ ہوں۔
حجت الاسلام و المسلمین صفی حیدر نے تاکید کی: آج وہی حال بہت سے ملکوں میں ہے جو قرآن مجید میں قیامت کے لئے بتایا گیا ہے کہ"اولاد ما ں باپ سے انسان بیوی،بچے سے بھائی بھائی سے بھاگے گا۔وہی حال اس بیماری میں ہے کہ جنازہ کے قریب آنا تو دور کی بات باپ بیمار ہے ڈاکٹر ہے اسے معلوم ہے میری موت ہونے والی ہے۔فیملی سے ملنے آیا تو دور سے خدا حافظ کرکے چلا گیا۔تو یہ کیفیت ہے اب تو قیامت کو ہم یاد کریں،اپنے گناہوں کی مغفرت چاہیں۔دوسروں کا خیال کریں تاکہ کل اللہ ہمیرے اُوپر رحم کرے۔
ماہ شعبان ہے۔
انہوں نے شعبان کے اعمال میں دو باتوں کی طرف ہمیں متوجہ کیا گیا ہے:
تنظیم المکاتب کے جنرل سکریٹری نے کہا: ایک رخ ہے اپنے گناہوں پر توبہ اور استغفار اور اللہ کی طرف واپسی۔اَستَغفِرُ اللہ رَبِّی وَاَتُوبُ اِلَیہ کہہ کر کم سے کم ستّر بار ماضی پر شرمندگی اور آئندہ اللہ کی اطاعت پر چلنے کے وعدے کو سکھایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا: دوسری بات یہ ہے کہ ہم کو اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں ان نعمتوں کے ہوتے ہوۓ بھی ہم ان سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ہمارے پاس کھانا ہوتا ہے اور ہم بیمار ہونے کی وجہ سے نہیں کھا پاتے۔آج ہم لوگوں میں بہت سے لوگوں نے حرص میں بہت بڑی بڑی خریداری کرکے مال بھر لیا ہے اور بازار میں سامان نہیں مل رہا ہے جو روز کے روز خریدار تھے وہ بھوکے ہیں۔
حجت الاسلام و المسلمین صفی حیدر نے فرمایا: میں نے اس سے پہلے بھی اپیل کی تھی کہ آپ حضرات اپنے علاقوں میں دیکھیں کوئی بھوکا ہو تو اسے بھوکا نہ رہنے دیں۔ اسی ماہ شعبان کی دعاؤں میں ایک صلواتِ شعبانیہ ہے اس میں پرودگار عالم نے ہمیں ادب سکھایا ہے کہ دعا کرو کہ پروردگار تونے جو ہمیں روزی میں وسعت عنایت فرمائ ہے اس وسعت کے بدلے میں ہمیں یہ توفیق دے کہ جو تنگدستی کے شکار ہیں ان تک ہم اس روزی کو پہونچا سکیں۔
انہوں نے کہا: میں نے اس سے پہلے اپیل کی تھی کہ اپنے پڑوس کو دیکھئے،نہ پہنچا سکیں آپ تو اس حقیر کو باخبر کریں۔ میرے ذاتی وسائل تو مختصر سے ہیں لیکن قوم پر بھروسہ ہے۔امامِ زمانہؑ کی قوم ہے۔ کربلاکے مجاہدین کی قوم ہے،ان کی ماننے والی قوم ہے جو سامنے سے افطار دے دیتے تھے۔ تین دن پانی پر گزارا کرکے روزہ رکھ لیتے تھے ۔ مجھے امید ہے کہ آپکو اپنے سامنے کی روزی ہٹاکے نہیں دینا پڑے گی (اگرچہ مذہب تو یہی سکھاتا ہے) لیکن اپنی روزی سے تھوڑا سا حصہ ان تک پہونچائیں جن کے گھر کھانے کو نہیں۔ اندازہ یہ ہورہا ہے کہ بازار خالی ہے ،لوگوں کے گھروں میں کھانا نہیں ہے ۔
تنظیم المکاتب کے جنرل سکریٹری نے گزارش کی: کمیٹی بنائیں جوان اُٹھیں اپنے محلوں میں گاؤں میں کمیٹی بنائیں خبر گیری کریں۔ صاحبان حیثیت ہی نہیں ہر آدمی جو کھا رہا ہے بھوکا نہیں ہے طے کرے ایک خوراک دو خوراک دس خوراک کسی مستحق تک پہونچانا ہے ۔ہم نے ابھی جو اسٹمیٹ کیا تھا ایک انسان کیلۓ ایک مہینے کے کھانے کا انتظام ایک ہزار روپے کے آس پاس تھا جس میں آٹا،چاول،دالیں ، مسالے،چاۓ کی پتی شکر دودھ پاؤڈر صابن ایک عام انسان کی زندگی کی ضرورت جو بغیر سبزی اور گوشت کے دال روٹی پر بسر کرتا ہے اسکے لئے ۔لیکن ابھی دیکھتے دیکھتے دو دن کے اندر ایک ہزار میں جو چیز ہم بلکہ نو سو میں لے رہے تھے تیرہ چودہ سو کے ریٹ میں لکھنئو پہونچ گئی ہے ۔ یہی حالات دوسرے شہروں میں دھیرے دھیرے ہورہے ہیں ۔مہم چلائیں محلے میں کمیٹیاں بنائیں جو خبر گیری کریں۔جو بھی بھوکا ہے بھوکا نہ رہیں ۔اللہ کی مخلوق سب ہیں ۔اس میں نہ ہندو مسلمان دیکھا جاۓ نہ سنی شیعہ دیکھا جاۓ ۔ اس میں صرف یہ دیکھا جائے کہ اللہ کی مخلوق ہے اور بھوکی ہے ۔اللہ خالق ہے ،مہربان ہے،رحیم ہے ۔ہم اس کی مخلوق کے ساتھ رحمت کا برتاؤ کر یں۔رحمة للعالمینؐ کے چاہنے والے ہیں جن کے شان میں سورہ دہر نازل ہوا تھا انھیں کا واسطہ ہے کہ اپنے پیٹ کے حصہ سے تھوڈا سا کم کردیں آپ کو بھوکا نہیں رہنا پڑے گا انشاء اللہ ۔کمیٹیاں بناکے خبر گیری کر یں،نہ ہوسکے تو پھر اس ناچیز کو اطلاع کریں میں اسی مخیر قوم کے ذریعہ ان تک جو بھوکے ہیں کھانا پہونچانے کی کوشش کروں گا۔
انہوں ںے کہا: پروردگار ہم سب کو توفیق دے اس ماہ مبارک شعبان میں۔ایک طرف ہم اسکی بارگاہ میں بیٹھ کے استغفار کرسکیں ۔روایت کے مطابق امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ کم سے کم ستّر بار روزانہ رسول اللہؐ کی سیرت بھی ہے کہو *اَسْتغْفِرُ اﷲ وَ اَسْئَلُہُ التَّوْبَۃَ*(میں اللہ کی بارگاہ میں استغفار کرتا ہوں ،اپنے گناہوں کی معافی چاہتا ہوں اور اس سے مانگتا ہوں کہ مجھے اسکی طرف واپسی کی توفیق مل جاۓ یعنی جو میں گناہوں کی راہ پر بہک کے ہٹ گیا ہوں دوبارہ اس کی طرف واپس آجاؤں ۔دوسری جگہ حکم ہے ۔ أسْتَغْفِرُ اللهََ الَّذِي لاَ إلَهَ إلاَّ هُوَ،اَلرَّحمٰنُ الرَّحِیم، الحَيُّ القَيُّومُ، وَأتُوبُ إلَيه یہاں اللہ ۔ کے کچھ صفات کا تذکرہ ہے کہ وہ اکیلا ہے کو اس کے علاوہ نہیں مگر وہ رحمٰن ہے وہ رحیم ہے۔اسکی رحمتیں اسکو ماننے والے اور نہ ماننے والے سب کیلۓ ہیں۔ اسکی رحمتیں دنیا اور آخرت سب کیلۓ ہیں۔اور وہی حی و قیوم ہے سب فنا ہونے والا ہے اسکے علاوہ۔کوئ باقی نہیں رہنے والا اسکے علاوہ۔ لہذا میں اسکی بارگاہ میں گناہوں کی معافی چاہتا ہوں۔
سیــد صــفی حــیدر
سکریٹری تنظیم المکاتب لکھنئو
28-03-2020