تحریر: حجت الاسلام سید مشاہد عالم رضوی
فلسطین تمام مشہورادیان آ سمانی جیسے اسلام ؛یہودیت ؛ اور عیسائیت کے لیے یکساں طور پرمحترم ومقدس ہےاور آبادی کے تناسب کے لحاظ سے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہیں عیسائی اور یہودی بھی رہتے ہیں ہرچند ان کی تعداد مسلمانوں کے مقابلہ میں کم ہے
فلسطین پر برطانوی سامراجیت کا سایہ
بیسویں صدی عیسوی میں فلسطین برطانیہ یعنی انگلینڈ حکومت کے زیر سرپرستی تھا اوراس وقت یہودی لابی دنیا بھر کے یہودیوں کو جمع کرکے ایک مستقل حکومت قائم کرنے کی فکر میں ملکوں کا جائزہ لینے میں مصروف عمل تھی کہ نظر انتخاب أرض فلسطین پر جاکےٹک گی اس وقت فلسطین برطانوی سامراج کے زیر تسلط تھا چنانچہ ایک گہری سازش کے تحت
یہودیوں نے انگلینڈ حکومت سے ملکرساز باز کیااور دنیا بھر میں منتشر یہودیوں کی ہجرت کے لئے راستہ ہموار کرنا شروع کیااور برطانیہ نے اپنےاستعماری مقاصد کے حصول کے لیے یہودیوں کی سرپرستی کی اورفلسطین کی سرسبز وآباد زمین جس پر مسلمانوں کی اکثریت آباد تھی اور وہی اس کے مالک و مختار تھے صہیونی فکر رکھنے والے یہودیوں نےمنظم سازش اور طےشدہ پلانگ کے تحت فلسطینیوں کودھوکہ وفریب دیکر پہلے تو انکی زمینیں بین الاقوامی دلالوں کے ذریعہ کئی گنا قیمتوں پر خریدنا شروع کیں پھرکاشتکاروں اور کسانوں سے نہایت بربریت وشدت پسندی سے ان زمینوں کوخالی کرا لیااور فلسطینیوں پر ایسے ایسے ظلم وستم ڈھاۓ کہ فلسطینی عوام میں اسرائیلیوں کی دہشت بیٹھ گی یہاں تک کہ وہ اپنے ہی ملک و وطن میں بےگھراور بے وطن ہوگۓ
اسرائیلی فوج کی جارحیت
فلسطینی عوام ابھی صہیونی سازش کو پوری طرح درک بھی نہ کر پائے تھے کہ ہرطرف سے پہلے سے تربیت یافتہ یہودی اسلحہ لیکر ان نہتے فلسطینیوں پر ٹوٹ پڑےاورپھر کچھ ہی عرصے میں صھیونیوں نےخوف ودہشت اور مکر و فریب کے سہارےسرزمین فلسطین پر قبضہ جما لیا
اسرائیلی ریاست کا قیام
سن انیس سو اڑتالیس میں نہایت بیباکی وگستاخی سے وقت کی اقوام متحدہ نے فلسطینیوں کی ستاون فیصد زمین یہودیوں کے حوالے کر دی جبکہ اس سے قبل یہودی محض پانچ فیصد زمین کے ہی مالک تھے
ع۔ ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے
اور برطانیہ ودیگرمغربی طاقتوں کی مدد سے مشرق وسطیٰ میں غاصب صہیونی ریاست کی داغ بیل پڑ گئی جو آج اسرائیل کے نام سے مشہور ہےپھر یہودیوں نے فلسطینیوں کی کثیر تعداد کو آوارہ وطن ہونے پر مجبور کردیا
ڈال ڈال اور پات پات کی سیاست
جبکہ یہ سب کچھ امریکہ برطانیہ اوردیگر مغربی طاقتوں کے ایماءپر ہو رہا تھا اور انسانی حقوق کے علمبردار ادارہ صھیونیوں کے بغل میں کھڑے غاصب اسرائیل کی حمایت میں پیش پیش تھےگویا برطانوی سامراجی ذہنیت امریکہ ومغربی ممالک سے ملکر ڈال ڈال اور پات پات کی شطرنجی بساطِ پر بیٹھ کر سیاست کرنے لگےدر نتیجہ فلسطینی اپنی ہی زمینوں سے بے دخل کردیۓ گۓ اور ناخواندہ مہمان مالک و مختار بن بیٹھا
اس مقام پر قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ خامنہ ای صہیونی سازش سے پردہ اٹھا تے ہوئے فرماتے ہیں
اسرائیل کے غاصبانہ قبضہ کے تین رکن ہیں
الف ۔حیلہ وفریب سے عربوں کے کھیتوں اور زمینوں کی خریداری اور انکے ساتھ سنگ دلی وقساوت قلبی کے ساتھ سرزمین فلسطین سے اھل فلسطین کو بیدخل کرنا
ب ۔ذرائع ابلاغ اور میڈیا کے ذریعہ منظم اکاذیب اور بڑے بڑے جھوٹ پھیلا کر افکار عامہ گمراہ کر کےاپنی طرف موڑنا اور مظلوم نمائی کرکےاپنی حمایت میں دنیا بھر کے سرمایہ داروں کی حمایت حاصل کرنا تاکہ وہ صہیونی لابی کی امداد کریں
ج ۔مذاکرہ اورگفتگو یعنی اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کھبی کسی سیاست دان سے مذاکرات کے فریبانہ جلسے تو کبھی کسی شاعروفنکار سے گفتگو اور کبھی کسی بااثر وبانفوذ شخصیت کے ساتھ بیٹھک کرناتاکہ لوگ مشغول رہیں اور میڈیا میں نئی نئی خبریں آتی رہیں اور
خاموشی کے ساتھ ارض فلسطین پر موجود صہیونی ریاست کی توسیع ہوتی رہے
خطبۂ جمعہ آیت اللہ العظمی خامنہ ای سن دوہزار سترہ
عرب حکمرانوں کی بے حسی
فلسطین اور اھل فلسطین کو نظر انداز کر کے صھیونیوں کے ساتھ عرب حکمرانوں کی مخفیانہ سازش کی کہانی درد انگیز ہےجسمیں عرب حکمرانوں کی بےغیرتی وبے حسی اور ملت فلسطین سے خیانت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے فلسطینی عربی عصبیت کے مارے عرب حکمرانوں کے تئیں ابتدا سے دھوکہ میں رہے اس خیال میں چونکہ یہ سب عرب ہیں اس لئےضرور مسئلہ فلسطین کے بارے میں جلد ہی سرجوڑ کر عرب سربراہان مملکت منصفانہ حل نکالیں گے مگر زمانہ گزرتا گیا اور مسئلہ کا حل نہیں نکالا گیا حالانکہ عرب ممالک کے حکمران شروع ہی سے اگر متحد ہو کر اسرائیل کے مقابلے میں آجاتے اور مغربی آقاؤں پر بھروسہ کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتے تونہ آج خطہ میں اسرائیل کا نام ونشان باقی رہتانہ ہی لاکھوں فلسطینی آوارہ وطن ہوتے نہ ہی قید و بند ہوتے اور نہ ہی فلسطینی جوانوں نوجوانوں اور بچوں کی خونخوار اسرائیلی فوجیوں کے ذریعہ جان جاتی مگر۔۔۔
ع۔ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کےچراغ سے
مزاحمتی تحریک انتفاضہ
صہیونی اور سامراجی طاقتیں قیام اسرائیل کے بعد سے اپنی منظم پالیسی کے تحت مشرق وسطی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امن وسکون سے قابض رہنا چاہتی تھیں کہ حالات نے نیا رخ لیا اور انتفاضہ ؛جو داخل فلسطین سے شروع ہوا) نے صھیونیوں کی نید حرام کردی یہاں تک کہ اسرائیلی بربریت کا مسلسل نشانہ بنے والے فلسطینی جوان سر سے کفن باندھ کراسرائیلیوں پر حملہ آور ہونے لگے اور پھر غاصب اسرائیل کو داخلی طور پر امن وچین کی شدید ضرورت نے صلح کے لیے مجبور کردیا اور پھر فلسطینیوں کے خلاف پٹھو حکومت کی شکل میں ایک نئی سازش رچی گی جس کے بعدارض فلسطین کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا اور بیک وقت گویاتین حکومتیں ایک ہی خطہ پر قائم ہوگئیں جس کی بدولت فلسطینیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا رہا جس نےآزادی فلسطین کی راہ میں بڑی رکاوٹ پیدا کی اور صھیونیوں کے لئے راحت رسانی کا سامان بہم پہنچانے میں مدد کی
انقلاب اسلامی کی دھمک
سن انیس سو اٹھہتر میں حضرت امام خمینی رہ کی قیادت میں انقلاب اسلامی ایران کامیاب ہوا اور امام خمینی رہ نے مسئلہ فلسطین کو عربی مسلہ قرار دینے کے بجائے اسے اسلامی مسئلہ قرار دیتے ہوئےآزادی فلسطین کے لئے دنیا بھر کے مسلمانوں کو متوجہ کیااور فرمایا ۔ اگر دنیا کے تمام مسلمان ملکر اسرائیل کی طرف ایک ایک بالٹی پانی پھینک دیں تو اسرائیل اس کے بہاؤ میں بہہ جائے گا
اور پھر امام خمینی رہ کی یہ درد مندانہ اپیل غاصب اسرائیل کے حق میں زہرھلاھل سے کم نہیں تھی جس کی وجہ سےدنیا بھر کے مسلمان فلسطین کی آزادی کی طرف متوجہ ہوگئے اور چشم زدن میں یہ ایک عالمی اسلامی مسئلہ بنکرابھرا
یوم قدس کی یاد تازہ
مزید یہ کہ امام خمینی رہ نے مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب اسرائیل کی جارحیت سے فلسطینیوں کی آزادی اور بیت المقدس کی رہائی کے لئے ماہ رمضان کے آخری جمعہ کو روز قدس قرار دیکر مسئلہ فلسطین کو زندہ کردیا اورانہوں نے اپنے اس حکیمانہ و شجاعانہ اعلان کے ذریعہ جہاں دنیا بھر میں انٹرنیشنل حقوق انسانی کی دعوے دار عالمی تنظیموں کے ضمیر پر سوال اٹھایا وہیں مسلمانوں خصوصاً عرب حکمرانوں کی غیرت و حمیت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا جس سے فلسطینیوں کے دل میں روح تازہ پیدا ہوئی اور انکا اعتماد بحال ہوگیا ہر چند امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے جانب سے ایران اسلامی کو صھیونیوں کی مخالفت کی بناء پر سخت اقتصادی واجتماعی بایکاٹ کا سامنا کرنا پڑا مگر پھر بھی فلسطینیوں کی حمایت میں ایران اسلامی اسی طرح ثابت قدم رہا جس طرح سے وہ امام خمینی رہ کے زمانہ میں تھا
انتفاضہ میں نئی روح
چنانچہ انقلاب اسلامی ایران نے فلسطینی انتفاضہ میں نئی جان ڈال دی اور عزت الدین قسام شیخ یاسین وڈاکٹر فتحی شقاقی جیسے مخلص فلسطینی رہنما ؤں کے خواب کو شرمندہ تعبیر کردیا نوبت یہ آن پہونچی ہےکہ اب اسرائیل نیل تافرات والا نعرہ بوکھلاہٹ میں بھول گیا یا پھر مصلحتاً بھول بیٹھا اوراتنا ضرور ہے کہ آج اسرائیل غاصب اپنے تمام وسائل وامکانات اور بین الاقوامی تنظیموں کی جنبہ داری اورعالمی میڈیا پرکنڑول رکھنے کے باوجود پوری دنیا میں سازشی ذہنیت ؛ظلم وبربریت اور بچوں کے قاتل کے نام سے جانا جارہاہے جو کسی بڑے طوفان کی علامت ہے ایک ایسا طوفان جس کی تیز وتند ہوائیں اسرائیل کواڑاکر نیست ونابود کردیں گی اور ساتھ ہی شیطان بزرگ امریکہ جو اس کا ہرطرح سے حامی و مدد گار ہے وہ بھی اپنے کیفر کردار کو پہنچے گا کہ دھیرے دھیرے اس کی نشانیاں آنکھوں کے سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں
اور اب وہ دن دور نہیں جب مظلوم فلسطینی مسلمانوں کا خون رنگ لائے گا اور مسجد اقصیٰ میں دنیا بھر کے مسلمان نماز شکرانہ ادا کر یں گے
اورغاصب اسرائیل کو اس کے انسانیت سوز جرائم کا بدلہ ملے گا اور اگر یہاں سزا نہ بھی ملی تو اللہ تعالیٰ کی عدالت عظمیٰ سے اسے کون رہائی دلاپاۓگا
کیا صبح دم قریب نہیں ہے؟ /۹۸۸/ن