اهلبیت (ع) فاونڈیشن کے نائب سربراہ حجت الاسلام تقی عباس رضوی نے رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر سے گفتگو میں عالمی یوم قدس کے موقع پر مظلوم فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب صیہونیوں کے ظلم و جور کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ : جہاں بھی ظلم ہو ہم احتجاج کرتے ہیں ، یہ ہمارے زندہ قوم ہونے کی نشانی ہے، حق کے غصب ہونے اور ظالموں کے ظلم و تشدد پر احتجاج کرنا عوام کا جمہوری اور آئینی حق ہے۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : ظلم کے خلاف خاموشی محض جرم ہی نہیں بلکہ سماجی اور اجتماعی فتنے کو دعوت دینے کے مترادف ایک قبیح عمل بھی ہے ۔
حجت الاسلام تقی عباس رضوی نے بیان کیا : آج ساری دنیا میں مسلمانوں کے جو حالات زار ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور ان تمام مسائل و مشکلات کا جڑ اسرائیل اور اسرائیل نواز لوگ ہیں جو مسند اقتدار پر براجمان رہنے کی خاطر اپنے صیہونی آقاؤں کے بنائے منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔
ہندوستان کی معروف دینی شخصیت نے کہا : صیہونی ناجائز اسرائیل حکومت دنیا کا ترقی یافتہ ملک نہیں بلکہ پوری دنیا بالخصوص میڈیل ایسٹ میں ناامنی اور کشیدگی پھیلانے کا جڑ ہے جس نے آج فلسطین کے 85 سے 90 فی صد علاقے پر غیر قانونی اور ناجائز قبضہ کر رکھا ہے جو عالمی برادری باالخصوص عرب ممالک اور اقوام متحدہ کے لئے قابل غور لمحہ فکریہ ہے۔
انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا : فلسطین میں آئے دن قتل عام، دربدری، قید و بند، ظلم و نا انصافی، غربت و افلاس اور بھوک سے مرتے معصوم لوگوں کا درد و الم جسے دنیا کا میڈیا دکھانا بھی چاہے تو نہیں دکھا سکتا ہے... مگر بہرحال یہ طے ہے کہ اسرائیل؛ مظلوم فلسطینیوں کی آہوں کے شراروں کی لپیٹ میں ہے۔
تقی عباس رضوی نے سرزمین فلسطین کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: 27 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا فلسطین صرف مسجد الاقصیٰ کا میزبان ہی نہیں ہے بلکہ یہ وہی ارض مقدس ہے جہاں انبیاء کرام کا مدفن ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مزار اقدس بھی ہے، یہ وہی بابرکت سرزمین ہے جس نے حضرت داؤد وحضرت سلیمان علیہم السلام جیسے جلیل القدر نبیوں کے قدم بھی چومے ہیں یہ وہی ملک فلسطین ہے جہاں سے سرور کونین پیغمبر آخرالزماں حضرت سرکار ختمی مرتبت صلى الله عليه و آلہ وسلم روح القدس کے ہمراہ سفر معراج کے لیے پابرکاب ہوئے، جہاں اسلام کی عظمت رفتہ کا نشان؛ قبلہ اول کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔
حجت الاسلام تقی عباس رضوی نے کہا : یوں تو برطانوی استعمار نے مدت مدید سے اس سر زمین پر زمانے کے ام الخبائث صیہونیوں طاقتوں کو بسانے اور آباد کرنے کی سازشیں رچ رہے تھے جس کا منھ بولتا ثبوت 1839 میں پہلی بار بیت المقدس میں پہلا مغربی سفارت خانہ کھلا جو برطانیہ ہی نے کھولا تھا اور اس کا واحد مقصد یہودیوں کی خدمت گزاری تھی اور اس کا نتیجہ 15 /مئی 1948 میں آیا کہ جب طاغوتی طاقتوں کی جانب سے فلسطین کو اسرائیلی مملکت قرار دیا گیا!۔
انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا : مگر وہ دن دور نہیں جب اسی فلسطین کو صیہونیوں کا مدفن بننے کا اعزاز حاصل ہوگا اور بالکل اسی طرح جیسے تبطس رومی کے ہاتھوں 70 میں ذلیل و خوار ہوئے اور پھر دوبارہ سر اٹھانے کی کوشش کی تو 135 میں معادریان رومی بادشاہ کے ہاتھوں بے رحمی سے کچلے گئے؛ انشاء اللہ عنقریب اب ان مظلوم فلسطینیوں کے ہاتھوں بھی یہ لوگ شکست سے دوچار ہوں گے اس لیے کہ ظلم کا انجام نہایت ہی بھیانک اور خوفناک ہوتا ہے۔
اپنی گفتگو کے اختمامی مراحلہ میں حجت الاسلام تقی عباس رضوی نے جمہوریہ اسلامی ایران کی حریت پسند قوموں کی پوری دنیا کے مظلوم و مستضعف خاص مشرق وسطی میں فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین آزاد کروانے کے لئے ان کی حمایت اور موثر اقدامات کو سراہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور اپنی گفتگو کو حضرت امام راحل کے شہرہ آفاق اس فقرے پر ختم کیا کہ:’’یوم القدس صرف فلسطین سے مخصوص نہیں ہے، یہ اسلام کا دن ہے؛ یہ اسلامی حکومت کا دن ہے۔ میں یوم القدس کو اسلام اور رسول اکرم(ص) کا دن سمجھتا ہوں‘‘۔