رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق کشمیر میں حریت کانفرنس کے اعلی رہنما اور انجمن شرعی شیعیان کے سربراہ حجۃ الاسلام والمسلمین آغا سید حسن الموسوی نے یوم ِ قدس کی اہمیت کے بارہ میں گفتگو کرتے ہوئے اس دن کو فلسطین کی تحریک مزاحمت اور آزادی کے لئے ایک سنگ میل قرار دیا اور امام خمینی ؒ کے ماہ ِرمضان کے آخری جمعہ کو یوم قدس کے عنوان سے منانے کے اقدام کو ایک تاریخی اقدام قراردیا، جو ابتداء میں ایران اور چند دیگر ممالک تک محدود تھا لیکن آج یہ دن پوری دنیا میں آب وتاب کے ساتھ منایا جاتا ہے ، یہ دن حقیقی معنیٰ میں مظلوم کی حمایت اور ظالم کے خلاف احتجاج کی علامت بن چکا ہے ۔
اس گفتگو کے آغاز پر انجمن شرعی شیعیان جموں وکشمیر کا شکریہ ادا کیا کہ آپ نے اس انٹرویو کے لئے اپنا قیمتی وقت دیا اور موصوف کی نو ماہ کی خانہ نظر بندی کا ذکر کرتے ہوئے اس نظر بندی کو انسانی حقوق اور قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور موصوف کے صبرواستقامت کو دادِ تحسین پیش کی کہ آپ نے قوم کے وسیع تر مفادات کی خاطر اس قید وبند کی صعوبت کو برداشت کیا لیکن آپ کے ماتھے پرذرابھی شکن نہ آئی ۔ انجمن شرعی کے سربراہ نے مہر نیوز کے نامہ نگار کےان محبت آمیز الفاظ کے جواب میں اپنی خانہ نظربندی کا تذکرہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ کشمیری عوام گزشتہ ستر برس سے مختلف مظالم برداشت کررہے ہیں اور تحریک ِمزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں ، کشمیری عوام کے اس جذبہ مزاحمت کو دیکھ کر ہمارے حوصلہ میں اضافہ ہوتا ہے اور تمام مشکلیں آسان ہوجاتی ہیں ۔
آغا سید حسن موسوی نے اپنے انٹرویو کے اگلے حصہ میں موجود عالمی وبا کورونا اور اس میں کئی لاکھ افراد کی قیمتی جانوں کے زیاں بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران میں تقریباً 6 ہزار سے زائد افراد کی موت پر گہرے رنج وغم کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ شبہائے قدر میں امام زمانہ(عج) کی خصوصی عنایت اور مومنین و صالحین کی دعا کی بدولت انشاء اللہ دنیا کو اس وبا سے نجات ملے گی ۔
آغا صاحب نے اس بات پر زور دیا کہ موجودہ عالمی وبا کی نوعیت اور اس کے روک تھام کے لئے سماجی دور ی انتہائی ناگزیر ہے اس سلسلہ میں عالمی ادار ہ صحت اور مراجع تقلید کی طرف سے جاری ہدایات پر سختی سے عمل کیا جائے ۔
موصوف نے فرمایا: انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ اس سال ماہ ِ مبارک میں موجودہ عالمی وبا کے چلتے روضوں، مساجد وامام بارگاہوں کی رونقیں بالکل مدہم پڑی ہیں ، یہ مذہبی مقامات یا تو بالکل بند ہیں یا ان میں وہ سابقہ رونق نہیں ہے ۔ ماہ رمضان کے مذہبی اجتماعات بھی اس وبا کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں ، بہرحال کورونا کی روک تھام کے لئے حفظان ِ صحت کے اصولوں کو اپنانا ایک ناگزیر امر ہے ۔
انجمن شرعی شیعیان کشمیر کے سربراہ نے یوم قدس کی اہمیت کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے اس دن کو یوم اللہ سے تعبیر کیا اور اس بات پر زور دیا یہ دن غاصب صیہونی حکومت کے لئے کسی ایٹم بم اور کاری ضرب سے کم نہیں ہے چونکہ یہ حکومت اپنے مظالم اور فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ جرائم پر پردہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے لیکن جیسے ہی یہ دن آتا ہے دنیا کے تمام حریت پسند اور باضمیر لوگ اس حکومت کے خلاف سراپا احتجاج بن کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور ہرطرف اسرائیل مردہ باد ، امریکہ مردہ باد کے فلک شگاف نعرے سامراجی طاقتوں بالخصوص امریکہ واسرائیل کی نیند کو حرام کردیتے ہیں ، یہ دن نہ صرف فلسطین کی مظلوم قوم سے اظہارِ یکجہتی اور ہمدردی کا دن ہے بلکہ پوری دنیا کے مظلوم وستمدیدہ عوام کی ڈھارس بندھاتا ہے اور انہیں یاد دلاتا ہے کہ اقوام عالم کا ضمیر ان مظالم کے خلاف بیدار ہے اگرچہ ان کے حکمران اپنے ضمیر کا سودا کرکے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔ آغا سید حسن نے اس سال کورونا بیماری کے تناظر میں اس دن کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس بیماری کی وجہ سے جہاں عام لوگوں کی زندگی شدید متاثر ہوئی ہے وہیں اس بیماری کی وجہ سے ستم پیشہ حکومتوں کو اپنے پلید مقاصد واہداف کو جامہ عمل پہنانے کا موقع غنیمت فراہم ہوا ہے وہ اس بیماری کی آڑ میں جب کہ دنیا کی توجہ اس بیماری کی روک تھا م پر مرکوز ہے یہ حکومتیں اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنا نے میں مصروف ہیں لہذا ہمیں دشمن کی سازشوں سے ہر لمحہ خبرداررہنا چاہئے ۔
آغا سید حسن نے گزشتہ برس امریکہ واسرائیل اور چند عرب ممالک کے درمیان سنچری ڈیل معاہدہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس معاہدہ کو فلسطینی تحریکِ مزاحمت کے خلاف اعلانیہ جنگ کے مترادف قرار دیا ، موصوف نے سنچری ڈیل کو فلسطینی قوم کے خلاف ترکش کا آخری تیر قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ اس ڈیل کی وجہ سے دشمن اور اس کے آلہ کار بالکل بے نقاب ہوگئے اور ان کامکروہ چہرہ سب کے سامنے آگیا ۔یہ ڈیل فلسطین کے مظلوم عوام کے دیرینہ مطالبات اور خواہشات کے خلاف اعلان جنگ ہے یہاں تک کہ اس ڈیل کے خلاف محمود عباس نے بھی صدائے احتجاج بلند کی جو ماضی میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیاں مختلف معاہدوں کا حصہ رہے ہیں ۔ آغا سید حسن نے امریکہ اور اسرائیل کے موجودہ صدور کو ذہنی دیوالیہ کا شکار قرار دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ، ان مطلق العنان فرعون صفت حکمرانوں کو تاریخ میں جھانک کر اپنے جیسوں کے انجام کا مطالعہ کرنا چاہئے کہ خدائی کا دعویٰ کرنے والوں کا آج کوئی نام ونشان نہیں ہے پھر ان کی کیا اوقات ؟اگر چہ کورونا وائرس نے امریکہ کی حقیقی قلعی بڑی حد تک کھول دی ہے لیکن ٹرامپ پھر بھی عقل کے ناخن نہیں لیتا اور ہوش میں نہیں آتا اور دنیا کی مظلوم قوموں کے خلاف اپنی غیر انسانی پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے ۔
آغا حسن موجودہ حالات کے تناظر میں یوم ِ قدس کے موقع پر مظاہروں کے انعقاد کے بارہ میں کہا : آج دنیا کے بہت سے ممالک میں مکمل یا جزوی لاک ڈاؤن جیسی صورت حال ہے اور سماجی دوری ناگزیر بن چکی ہے اس لئے اس سال کا یوم ِ قدس عام حالات سے مختلف ہوسکتا ہے ، ہمیں اس سلسلہ میں رہبر انقلاب اسلامی اور مراجع تقلید کی ہدایات پر عمل کرنا ہوگا ، عین ممکن ہے بعض مقامات پر حالات نارمل ہونے کی وجہ سے یہ مظاہرے اپنی اصلی شکل وصورت میں برپا ہوں اور بعض مقامات پر اس احتجاج کی نوعیت اور صورت مختلف ہو ، ہم اس موقع پر سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں اور اس کے ذریعہ اپنا پیغام دنیا تک پہنچا سکتے ہیں ، ہم اس کے لئے دیگر ذرائع ووسائل جیسے شمع جلانا ، گھروں پر فلسطین کا پرچم لہرانا وغیرہ سے بھی استفادہ کرسکتے ہیں ۔ بہرحال ہمیں اس سلسلہ میں رہبرانقلاب اسلامی اور علمائے کرام کی ہدایات پر سختی سے عمل کرنا چاہئے اور ان کی آواز پر لبیک کہنے کو تیار رہنا چاہئے ۔
آغا سید حسن نے فلسطین کے عوام کی تحریک مزاحمت اور ان کے عزم وثبات قدم کو سلام پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ مزاحمت ہی وہ واحد راستہ ہے جو فلسطینی قوم کی کامیابی کا ضامن ہے ، غاصب صیہونی حکومت فلسطینیوں کی تحریک ِ مزاحمت سے بے حد خائف ہے اور اس کو کمزور بنانے کے لئے نت نئے حربے اختیار کرتی رہی ہے ، فلسطین کے مختلف سیاسی گروہوں کو غاصب صیہونی حکومت کی تمام سازشوں کا مل کر مقابلہ کرنا چاہئے اور اپنی صفوں میں اتحاد کو مضبوط بنانا چاہئے ، موصوف نے اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید کہا : ماضی کے مقابلہ میں عصر حاضر میں فلسطینی عوام کے موقف کو دنیا کی مختلف قوموں میں زیادہ پذیرائی اور حمایت حاصل ہے اور ہر طبقہ کے لوگ ان کے جائز اور برحق مطالبات کو بہتر انداز میں سمجھ رہے ہیں یہی وجہ ہےکہ دنیا کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد یہاں تک کہ مشہور ومعروف فٹبالر اور دیگر نمایاں کھلاڑی ان کی حمایت میں سامنے آئے ہیں اور دن بدن اس حمایت میں اضافہ دکھائی دے رہا ہے ۔
انجمن شرعی شیعیان کشمیر کے سربراہ نے اسرائیل کے زوال کے سلسلہ میں رہبرمعظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کی پیشگوئی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کرنا چاہئے یہ ایک اٹل حقیقت ہےجو ہو کر رہے گی ، بعض چیزیں بظاہر مشکل اور محال دکھائی دیتی ہیں لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ "مکروا ومکراللہ واللہ خیر الماکرین " بھی ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کوئی راہِ فرار نہیں ، تاریخ میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ دنیا کےانتہائی طاقتور حکمران اور ان کا تخت وتاج آناً فاناً نیست ونابود ہوگیا اور وہ صفحہ ہستی سے ایسے مٹ گئے جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں ، کیا ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے سابق سودیت یونین کا شیرازہ بکھرتے نہیں دیکھا ، کیا ہم نے صدام اور اس جیسے دیگر ڈکٹیٹر حکمرانوں کا خاتمہ نہیں دیکھا بالکل اسی طرح یہ غاصب حکومت بھی داخلی انتشار کا شکار ہوکر صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہے ، یہ وعدہ الٰہی ہے ہمیں اس بات پر یقین رکھنا چاہئے ، انشاء اللہ اس حکومت کا بہت جلد خاتمہ ہوگا اور فلسطینیوں کو ان کا حق واپس ملے گا ۔
انجمن شرعی شیعیان کے سربراہ نے اسلامی ممالک کی سربراہ کانفرنس ، ایمنسٹی انٹرنیشنل ، اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کو مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل اور غاصب صیہونی حکومت کے جابرانہ وتسلط پسندانہ عزائم پر روک تھام لگانے میں ناکامی پر شدید ہدفِ تنقید بنایا اور ان اداروں کو اپنی آئینی ذمہ داریوں کی یاددہانی کراتے ہوئے زور دیا کہ اگر انہوں نے اس سلسلہ میں اپنی کوتاہیوں کو جاری رکھا تو تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔
آغا سید حسن نے اپنے انٹرویوکے آخر میں دنیا کے تمام حریت پسندوں سے فلسطینی عوام کی دامے ، درھمے سخنے اور قدمے حمایت کرنے کی اپیل کی ، موصوف نے سرزمینِ ایران میں کورونا بیماری سے اموات کے تناظر میں ایرانی قوم اور رہبر معظم انقلاب نیز مرحومین کے پسماندگان اور لواحقین کو تسلیت پیش کرتے ہوئے ہسپتالوں میں موجود بیماروں کی صحتیابی کے لئے دعا کی ۔
تشکر از مہر نیوز