حجت الاسلام حسین وحید پور مرکز ترویج احکام کے رکن نے رسا نیوز ایجنسی رپورٹر سے گفتگو میں ماه مبارک رمضان میں امساک و افطار کے معین وقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: سحر میں امساک کا معین وقت طوع فجر صادق تک ہے ، یعنی اس وقت تک جب روشنی پھیلنے لگتی ہے اور ہم اسے اصطلاح میں کہتے ہیں کہ اذان صبح کا وقت آچکا ہے ، البتہ احتیاط یہ ہے کہ روزہ دار اطمینان کے لئے فجر صادق یعنی اذان صبح سے کچھ دیر پہلے کھانا پینا چھوڑ دے ۔
حجت الاسلام وحید پور نے یہ بیان کرتے ہوئے افطار کا دقیق اور معین وقت مغرب کا وقت ہےغروب، سورج کے ڈوبنے کا وقت نہیں ہے اور مغرب و غروب آفتاب، سورج ڈوبنے کے درمیان تقریبا پندرہ منٹ کا فاصلہ ہے کہا: جب سورج افق میں چھپ جائے اور ہماری انکھوں سے اوجھل ہوجائے تو وہ سورج ڈوبنے کا وقت ہے مگر مغرب کا وقت ، جب ہمارے سر سے مشرق کی سرخی گذر جائے تب مغرب کا وقت ہے ، سنی فقہ میں افطار کا وقت غروب کا وقت ہے اور شیعہ فقہ میں افطار کا وقت مغرب کا وقت ہے ۔
حوزہ علمیہ قم کے استاد نے بیان کیا: جب انسان کو خود مغرب کے وقت کا اطمینان ہوجائے اور اسے یہ اطمینان موسم صاف ہونے کی صورت میں تاریکی پھیل جانے کی بنیاد پر ہوا تو افطار کرسکتا ہے، بسا اوقات علاقہ کے ریڈیو یا ٹی وی مغرب کے وقت کا اعلان کرتے ہیں مگر جہاں یہ وسیلہ نہ ہو اور اذان دینے والا موذن بھی نہیں نہ ہو تو وہاں تاریکی پھیل جانے پر مغرب کا یقین کرسکتا ہے ۔
حجت الاسلام وحید پور نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے ریڈیو اور ٹی وی سے اذان نشر کئے جانے کو اطمینان کی صورت میں افطار و سحر کی مراعات میں کافی جانا اور کہا: ظھر و مغرب کے سلسلہ میں یہ اطمینان حاصل ہوسکتا ہے کیوں کہ وقت ظھر و مغرب کی تشخیص آسان ہے اور معمولا عوام بھی ظھر و مغرب کے وقت، میڈیا سے نشر ہونے والی اذان پر اکتفاء کرتے ہیں ۔
انہوں نے اذان صبح کے سلسلہ میں ایک مقدار احتیاط لازم جانا اور کہا: اس لحاظ سے کہ فجر صادق کی تشخیص ذرا مشکل ہے اذان صبح کے سلسلہ میں احتیاط ضروری ہے کہ ریڈیو اور ٹی وی سے اذان نشر ہونے کے بعد بھی نماز ذرا تاخیر سے پڑھی جائے ، اگر چہ ریڈیو اور ٹی وی پورے علمی اور نجومی محاسبات کے بعد اذان صبح نشر کرتے ہیں ۔
مرحوم آیت الله شیخ جواد تبریزی کے دفتر میں استفتائات کے سابق ذمہ دار نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ رھبر معظم انقلاب اسلامی نے بھی صبح کی نماز میں تقریبا 10 منٹ کے احتیاط کا حکم دیا ہے کہا: سحر کھانے میں بھی یہ احتیاط ضروری ہے کہ اذان صبح سے کچھ دیر پہلے سحر کھانا ترک کردیں تاکہ پورے دن کے روزہ کا اطمینان رہے ۔
انہوں نے اُس انسان کے روزہ کے بارے میں جو سحر کے وقت اٹھے اور بغیر تحقیق کے سحر کھانا شروع کردے اور بعد میں اس پر ظاھر ہو کہ اذان کا وقت گزر چکا تھا کہا: وہ انسان جو بغیر وقت کی تحقیق کے اور وقت گزر جانے بعد سحر کھائے اس کا روزہ باطل ہے ، اس کے روزہ کی قضا بھی ہے اور کفارہ بھی ، اور اگر فرض کریں کہ کوئی انسان بغیر سحر کے روزہ نہیں رکھ سکتا اور وہ صبح کا یقین ہونے کے باوجود سحر کھاتا رہے تو اس کا روزہ باطل اور اس پر روزہ کی قضا اور کفارہ دونوں ہی ہے ۔
حجت الاسلام وحید پور نے مزید کہا: مگر وہ بیدار انسان جسے یقین ہو کہ ابھی صبح نہیں ہوئی اور اس نے تحقیق بھی کی، اور بعد میں اس پر کھلے کہ اس نے غلط سمجھا تھا، ایسے انسان کا روزہ صحیح ہے چوں کہ اس نے تحقیق کرکے اپنے ذمہ داری ادا کردی ہے، اور اگر اس نے تحقیق نہ کی ہو مگر اسے یقین ہو کہ ابھی صبح نہیں ہوئی ہے اور بعد میں اس پر کھلے کہ وہ غلط سمجھا تو اس کے روزہ کی قضا ہے کفارہ نہیں چوں کہ اسے یقین تھا کہ ابھی صبح نہیں ہوئی ہے ۔
انہوں نے کہا: وہ انسان جو ریڈیو سے سن کر افطار کرے اور اسے افطار کے وقت بھی یقین ہو مگر بعد میں اسے پتا چلے کہ اذان کسی اور شھر کی تھی اور اس نے وقت کے اندر افطار کیا ہے یعنی اس نے وقت کے رہتے روزہ کھولا ہے تو اس پر روزہ کی قضا ہے کفارہ نہیں ہے ۔
مرکز ترویج احکام کے رکن نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے حرام چیز سے افطار کرنے کے حکم کو بیان کیا اور کہا: حرام چیز سے مغرب سے پہلے افطار کرنے والا روزہ کی قضا کے علاوہ کفارہ بھی ادا کرے گا، یعنی 60 فقیر کو کھانا کھلائے گا اور 60 روزے رکھے گا مگر مغرب کے بعد حرام کا ارتکاب جیسے شراب پینا وغیرہ روزہ پر اثر انداز نہیں ہے ۔
انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ روزہ میں افطار و سحر کھانے واجب نہیں ہے اور افطار و سحر کے ایک ساتھ کھانے میں کوئی حرج نہیں کہا: اگر کوئی اذان صبح سے رات کے 10 بجےتک روز رکھںے کا ارادہ کرے تو حرام کا مرتکب ہوا ہے، کیوں کہ ایسا روزہ شریعت میں موجود نہیں اور یہ کام دین میں بدعت اور حرام ہے ، اور اگر اس کا قصد روزہ کا معین وقت ہو یعنی صبح کی اذان سے لیکر مغرب تک، مگر افطار کے وقت ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ وہ وقت پر افطار نہ کرسکتا ہو جیسے سڑک پر ہو تو رات 10 بجے بھی افطار کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔