رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے صدر جمھوریہ حجت الاسلام ڈاکٹر حسن روحانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 68 ویں اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا: ایران کے جوہری مسئلہ کا سادہ ترین حل ایران کے مسلمہ، فطری اور قانونی حق کو قبول کیا جانا ہے ۔
حجت الاسلام روحانی نے اقوام عالم کو پایدار امن کے قیام کے لئے باہمی اتحاد و اتفاق کی دعوت دیتے ہوئے کہا: ہمیں چاہئے کہ ہم دنیا کے مختلف علاقوں میں جنگ کے آپشن کے بجائے پوری دنیا میں پایدار صلح کے قیام کی خاطر متحد ہونے کے آپشن پر غور و فکر کریں۔
انہوں نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ پابندیاں انسانیت کے مسلمہ حقوق من جملہ صلح و امن ، ترقی اور پیشرفت ، صحت تک رسائی ، تعلیم اور ان سب سے بڑھ کر زندہ رہنے جیسے حقوق کی خلاف ورزی ہے کہا : ہر طرح کی پابندیوں کا نتیجہ اور ہر طرح کی لفظی جنگ اور مختلف لفظوں سے کھیلنے کا نتیجہ صرف اور صرف آگ کو بھڑکانا، جنگ طلبی اور انسانوں کی نابودی ہے۔ یہ آگ صرف پابندیوں کی زد میں آئے ہوئے افراد کے دامن میں نہیں لگتی بلکہ پابندیاں عائد کرنے والے ممالک کی عوام کی زندگیوں اور اقتصاد کو بھی نقصان پہنچاتی ہے۔
حجت الاسلام حسن روحانی نے ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا : رہبر انقلاب اسلامی کے فرمان کے مطابق اس مسئلہ کا سادہ ترین حل ایران کے اس مسلمہ، فطری اور قانونی حق کو قبول کیا جانا ہے۔ یہ ایک سیاسی نعرہ نہیں ہے بلکہ ایران میں ٹیکنالوجی کی موجودہ صورتحال کی شناخت، بین الاقوامی صورتحال،حاصل جمع صفر کے کھیل کے خاتمے اور باہمی اتفاق اور امن وامان تک پہنچنے کے لئے مشترکہ اہداف اور منفعت کے حصول پر مبنی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایران کی دفاعی مسائل میں ایٹمی اسلحہ اور بڑے پیمانہ پر تباہی مچانے والے ہتھیاروں کا کوئی مقام نہیں کہا: یہ بات ہمارے مذہبی اور اخلاقی اعتقادات کے منافی ہے۔
ایرانی صدر جمھوریہ نے اپنی تقریر کے دوران ایران اور امریکہ کے درمیان تناو کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی : ایران باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر دوسرے ممالک کے ساتھ تعمیری بات چیت کا خواہاں ہے اور فریم ورک کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ کشیدگی کو بڑھانا نہیں چاہتا۔
حجت الاسلام روحانی نے اس بات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہ انہوں نے باراک اوبامہ کی تقریر کو بہت دقت سے سنا ہے کہا : امریکی رہنماوں کی جانب سے سیاسی عزم کے اظہار اور عسکریت پسند گروہوں کے مفادات کے حصول سے خودداری برتنے کی صورت میں اختلافات کا راہ حل ڈھونڈنے کے لئے فریم ورک بنایا جا سکتا ہے۔ اور اس فریم ورک میں ضروری ہے کہ باہمی احترام، برابری کے موقف اور بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ اصولوں کو مبنا بنایا جائے۔
انہوں نے مزید کہا : ان چند سالوں میں مسلسل ایک آواز سنائی دیتی رہی کہ جنگ کا آپشن استعمال کیا جاسکتا ہے لیکن آج مجھے اس غیر قانونی اور فضول بات کے بجائے کہنے دیں کہ صلح ہماری دسترس میں ہے۔
اسلامی جمہوری ایران کے صدر نے افغانستان میں فوجی مداخلت، صدام کی جانب سے ایران پر جنگ مسلط کئے جانے، کویت پر قبضے، عراق میں فوجی مداخلت، فلسطینی عوام پر ظلم و تشدد، ایران میں سیاسی اور عام افراد کی ٹارگٹ کلنگ اور خطے کے ممالک یعنی عراق، افغانستان اور لبنان میں بم دھماکوں کو شدت پسندی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا : آج جو کچھ فلسطین کی عوام کے ساتھ ہو رہا ہے وہ شدت پسندی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے، فلسطین کی سرزمین پر قبضہ ہے اور فلسطینیوں کے بنیادی حقوق شدت سے پامال کئے جارہے ہیں اور وہ اپنے گھر، جائے پیدائش اور مادر وطن سے بھی محروم ہیں۔
انہوں نے شام کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا : اس مسئلے کے ابتدا سے اور اس وقت جب خطے کے اور چند بین الاقوامی بازیگروں نے شدت پسند گروہوں کو مسلح کرنے، انہیں جنگی ساز و سامان اور اطلاعات فراہم کرنے اور اس مسئلے کے فوجی حل کی کوششیں شروع کیں تو ہم نے اس بات کی تاکید کی تھی کہ شام کے مسئلے کا راہ حل جنگ نہیں ہے۔
حجت الاسلام روحانی نے یہ کہتے ہوئے کہ ہم ہر طرح کے کیمیاوی ہتھیار کے استعمال کی پر زور مذمت کرتے ہوئے، شام کی جانب سے اینٹی کیمیاوی ہتھیار کنونشن کے قبول کئے جانے کا خیر مقدم کرتے ہیں کہا: ہم اس بات کے معتقد ہیں اور ہمیں یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ شدت پسند گروہ اور دہشتگردوں کی ان ہتھیاروں تک رسائی سے اس پورے خطے کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔