تحریر: ثاقب اکبر
سانحۂ منٰی کو جتنا وقت گزرتا چلا جاتا ہے، اتنا ہی درد و رنج میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہر گزرتی پہر کے ساتھ نئے شہیدوں کے پامال چہرے سامنے آتے ہیں، ہر روز نئی لاشوں کی خبر ملتی ہے اور ابھی خدا جانے لاشوں کی تہ کے نیچے سے اور کتنی لاشیں برآمد ہوں گی۔ خدا جانے کتنوں کی خبر ہی نہیں آئے گی، اس لئے کہ بہت سوں کو اس لئے دفنایا جا رہا ہے کہ ان کی شناخت ممکن نہیں۔ یہ کتنی لاشیں ہیں جنھیں اٹھانے کے لئے انسانوں کے کندھے کم پڑ گئے اور کرینوں سے مدد لی جا رہی ہے۔ انسانی لاشوں کے کتنے ڈھیر ہیں، جن کی تصویر اس لئے نشر نہیں کی جا رہی کہ کمزور دل لوگوں کے دل دہل جائیں گے۔ شاید تاریخ میں بھی کئی ایسی داستانیں اس لئے چھپا دی گئی ہیں کہ آنے والی نسلوں کے کمزور دل یہ داستانیں پڑھ نہ سکیں گے اور سن نہ سکیں گے۔ پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے بھی اچھا کیا کہ پابندی عائد کر دی کہ لوٹ کے آنے والے حاجیوں سے کوئی انٹرویو نہ کیا جائے، غم دیدہ و غم رسیدہ حاجیوں کو سیدھا اپنے گھروں کو جانے دیا جائے۔ سعودی وزیر خارجہ کے بقول زخمی دلوں پر نمک نہ چھڑکا جائے۔ رنج و غم کے ان دفینوں کا نہ کریدا جائے، اس لئے کہ بقول غالب:
جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہوگا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
سنا ہے کہ خادم الحرمین شریفین نے سی سی ٹی وی کیمروں کا ریکارڈ بھی عام تحقیق کاروں اور میڈیا کے شور شرابا کرنے والوں کی دسترس سے دور رکھنے کا حکم صادر کیا ہے۔ انھیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا، اس لئے کہ کہ شیخ سعدی فرما گئے ہیں کہ نقصان ہو جانے پر بہتر ہے زبان خاموش رکھی جائے، کیونکہ اوّل نقصان مایہ دوم شماتت ہمسایہ۔ یعنی ایک طرف اتنا بڑا نقصان ہوگیا اور دوسری طرف یہ سب طشت ازبام کرنے کے بعد ہمسایہ لوگوں کی بے کار شماتت اور لعن طعن سننے کی آخر کیا ضرورت ہے۔ جن لوگوں نے آج کے جدید آلات سے ایسی تصویریں بنا کر خلق خدا کو بھٹکانے کے لئے شائع کر دی ہیں، شاید انھوں نے بھی بدعت کا ارتکاب کیا ہے۔ اوّل تو ان آلات کی ایجاد بدعت تھی اور ثانیاً حج جیسی عبادت کے موقع پر ان کا استعمال، توبہ توبہ۔ توجہ اللہ کی طرف رہنی چاہیے تھی، کہیں ایسا نہ ہو کہ فرشتے توجہ کی اس تقسیم کو شرک کے کھاتے میں ڈال لیں۔
خدا جانے اس تصویر کا بنانے والا کون ہے، جس میں ایک شہزادہ گاڑی میں بیٹھا تکبیر پڑھتا ہوا ’’شیطان‘‘ کو کنکریاں مار رہا ہے اور اردگرد خلق خدا دکھائی نہیں دے رہی۔ خدا جانے اس خلق خدا کو کس نے اور کہاں روک رکھا ہے اور اس پر کیا گزر رہی ہے۔ شہزادۂ محترم ایسے میں دنیا و مافیھا سے بے نیاز عبادت الٰہی میں مصروف ہیں۔ کیمرے نے ایسے تصویر کشی کی ہے کہ میاں محمد بخش کا یہ مصرعہ خارج میں وجود پذیر ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے
اس تصویر کے ساتھ اگر لاشوں کے ڈھیر دکھانے والی تصویریں بھی لگا دی جائیں اور ہسپتالوں میں موجود پامال جسموں کی تصویروں کو بھی ساتھ جوڑ دیا جائے، بولنے والے میڈیا کی زبان بندی کا تصور بھی کر لیا جائے اور جن گھروں کے چراغ گل ہوگئے ہیں، انھیں بھی صفحۂ ذہن پر نقش کر لیا جائے تو میاں محمد بخش کی پیش کی گئی تمام تر خیالی تصویر عملی پیرایہ اختیار کرتی دکھائی دے گی۔
ہٹی سڑے کراڑ دی جتھے دیوا نت بلے
کُتّی مرے فقیر دے جیڑی چوں چوں نت کرے
پنچ ست مرن گوانڈھناں رہندیاں نوں تاپ چڑھے
گلیاں ہو جان سنجیاں وچ مرزا یار پھرے
کہتے ہیں کہ بادشاہ سلامت نے سانحے کی تحقیق کا حکم دے دیا ہے۔ اس سے پہلے حرم الٰہی کے گرد کرین کے حادثۂ جانکاہ کی تحقیقات کا بھی حکم دیا گیا تھا۔ یہ تحقیقات کون کرے گا؟ یہ تحقیقات سامنے آنے کے بعد اگر وہ آگئیں تو غالب کے الفاظ میں جن کے پیارے لقمۂ اجل بن گئے یہی نہ کہتے پھریں کہ:
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا؟
ان مظلوموں کی نمائندگی کون کرے گا؟ کیا دنیا کا کوئی غیر جانبدار ادارہ بھی اس میں شریک ہوگا، یا جن ملکوں کے زائرین شہید ہوئے ہیں، ان کی بھی نمائندگی تحقیق کرنے والوں میں ہوگی یا پھر معاملہ ہمیشہ کی طرح کوئی اور صورت اختیار کر لے گا۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ عالمی سطح پر غیر جانبدارانہ تحقیقات کروانے کا مطالبہ کس طرح سے سیاسی مطالبہ کہا جاسکتا ہے۔ اس مطالبے میں کون سی بات فرقہ وارانہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس مطالبے کو سیاسی اور فرقہ وارانہ کہہ کر سارے معاملے کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار اس مطالبے کو رد کرنے کے لئے اسی طرح کی کمزور دلیلیں دیتے رہیں گے تو یہ شاہوں کی حمایت نہیں رہے گی بلکہ ہر دو کی حیثیت کو مشکوک کر دے گی۔ اس موقع پر مظلوم شہیدوں اور متاثر خاندانوں کے ساتھ حقیقی انصاف کے لئے آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ بیدار انسان کی فطرت پکارتی رہے گی:
کسی کو رنگ سے مطلب کسی کو خوشبو سے
گُلوں کے چاک گریباں کی بات کون کرے