10 May 2016 - 15:03
News ID: 422256
فونت
حالیہ ہفتوں میں پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان اور کراچی میں ایک ہی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، وکلا اور سماجی کارکنوں کا قتل پھر سے فرقہ وارانہ کشیدگی اور قتل و غارت کو بڑھانے کی ایک منظم کوشش نظر آتی ہے۔ اگر نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے حکومت ایسے منظم نیٹ ورک کو بے نقاب کرکے ملوث عناصر کو کیفر کردار تک نہیں پہنچاتی تو ایک طرف نیشنل ایکشن پلان کا ہی جنازہ نکلے گا تو دوسری طرف وطن عزیز ایک بار پھر بے گناہ لوگوں کے خون سے رنگین ہوگا ۔
خرم ذکی


تحریر: محمد ذاکر

خرم زکی ایک معروف سماجی کارکن اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے خلاف ایک مضبوط اور جرات مند آواز تھے۔ جنہیں 7 مئی 2016ء کو کراچی میں قتل کر دیا گیا۔ ان کا جرم یہی تھا کہ انہوں نے مذہب کے نام پر معاشرے میں منافرت پھیلانے اور قتل و غارت گری کو عام کرنے والے انتہا پسندوں اور ان کو فکری غذا اور عملی سہولت فراہم کرنے والے ریاستی و غیر ریاستی عناصر  کو چھپ کر نہیں بلکہ آگے بڑھ کر للکارا۔ سوشل میڈیا سمیت مختلف ذرائع سے انتہا پسندی خلاف کھل کر آواز اٹھائی۔ قانون کی بالا دستی اور امن و سلامتی کی صورت حال کی بہتری کے لئے   سماجی سطح پر بھرپور مہم چلائی اور امن و سلامتی کے لئے لاحق خطرات کے ان پہلؤوں کو اجاگر کیا، جنہیں ریاست مسلسل نظر انداز کرتی آئی ہے۔
 

ان کے بعض خیالات سے اختلاف ممکن ہے، لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ خرم زکی پاکستان کی وہ دلیر آواز تھے، جنہوں نے کسی قسم کی مصلحت اور منافقت کا لبادہ اوڑھنے یا انتہا پسندوں کے خوف سے خاموش رہنے کے بجائے شدت پسندوں کا آگے بڑھ کر مقابلہ کیا۔ انہوں نے کراچی، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں موجود ان عناصر کو بے نقاب کرنے اور ان انتہا پسندوں کے خلاف حکومت وقت کی مداہنت اور بزدلانہ پالیسیوں کو بھی طشت از بام کر دیا۔ یہ بات پاکستان میں امن و سلامتی کی صورت حال اور حکومتی و عسکری اداروں کے دعؤوں کی قلعی کھولنے کے لئے کافی ہے کہ ہر وہ آواز جو انتہا پسندوں کے لئے کھٹکتی ہے، اسے گولی کے زور پر خاموش کر دی جاتی ہے، جبکہ دہشت گردوں نے ریاستی اداروں اور حکومتی حلقوں میں اتنے افراد کی ذہنی تربیت کر دی ہے، جو حکومت اور ریاست کے اداروں کو ان دہشت گرد عناصر کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے سے روکنے کے لئے کافی ہو جاتے ہیں۔
 

حالیہ ہفتوں میں پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان اور کراچی میں ایک ہی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، وکلا اور سماجی کارکنوں کا قتل پھر سے فرقہ وارانہ کشیدگی اور قتل و غارت کو بڑھانے کی ایک منظم کوشش نظر آتی ہے۔ اگر نیشنل ایکشن پلان کے ذریعے حکومت ایسے منظم نیٹ ورک کو بے نقاب کرکے ملوث عناصر کو کیفر کردار تک نہیں پہنچاتی تو ایک طرف نیشنل ایکشن پلان کا ہی جنازہ نکلے گا تو دوسری طرف وطن عزیز ایک بار پھر بے گناہ لوگوں کے خون سے رنگین ہوگا، جس کے براہ راست ذمہ دار حکومت اور ریاستی ادارے ہی ٹھہریں گے۔
 

محمد ذاکر ایک سماجی کارکن تھے اور مختلف سماجی موضوعات پر لکھتے رہے تھے ۔ انہوں نے ایم فل اسلامیات کیلئے ’’ احترام انسانیت کے مذہبی و قانونی تناظرات‘‘ پر اپنا تحقیقی مقالہ لکھا ہے۔

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬