تحریر :حجت الاسلام مولانا سید علی
اس خاص قلبی حالت کی وجہ، یہی اعمال اور دعائیں ہیں جو اس مبارک مہینہ میں وارد ہوئی ہیں۔ ان روزے، نماز، دعاؤں اور زیارتوں سے انسان کے دل نرم ہو جاتے ہیں، روح اور جان پاک ہو جاتی ہے۔ یہ سب اس لیئے تاکہ پاک پیغام کو دریافت کرنے کے لیئے پاک ظرف تیار کیا جائے۔ خدا کا پیغام پاک و طاہر ہے لہذا اب جس دل میں اسکو جانا ہے اسکا بھی پاک ہونا ضروری ہے، آپ اگر ایک گندے ظرف میں صاف و شففاف پانی ڈالیئے گا تو ظرف میں جاتے ہی گندا ہو جایئے گا اور پینے لائق نہیں رہے گا۔
قرآن،اہلبیت ؑ اور رمضان:
لیکن پیغامِ خدا ہے کیا؟ اگر ایک جملہ میں اس بات کا جواب دیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پیغامِ خدا ’’قرآن اور اہلبیت ؑ‘‘ ہیں۔لہذا رمضان المبارک میں ہم کو قرآن اور اہلبیت (علیہم السلام) کی معرفت پر خاص توجہ دینا چاہیئے۔ قرآن پر توجہ اس لیئے کہ رمضان قرآن کی بہار ہے [1] اور اہلبیت (علیہم السلام) کی معرفت اس لیئے کہ رمضان کی حقیقت شبِ قدر ہے اور شب قدر کی حقیقت اہلبیت(علیہم السلام) اور بالخصوص صاحب زمان (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) ہیں۔ ایک روایت کے مطابق خداوندِ عالم نے اپنے حبیب سے فرمایا: سورہ انا انزلناہ کی تلاوت کیجیئے یہ سورہ آپکی اور آپکے اہلبیت کی روز قیامت تک نسبت کے متعلق ہے[2]۔
ایک اور روایت ملتی ہے کہ جو اس سورہ کی اور اہلبیت (علیہم السلام) کی نسبت کو بیان کرتی ہے۔ امام باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ ایک روز امام علی (علیہ السلام) نے امامینِ حسنین (علیہما السلام) کے سامنے سورہ قدر کی تلاوت کی، امام حسین (علیہ السلام) نے مولا سے عرض کیا کہ آپ نے اس سورہ کو بہت دلنشین انداز سے پڑھا ہے اسکی کیا وجہ ہے؟ امام ؑ نے جواب دیا کہ جس وقت یہ سورہ نازل ہوا تو رسالت مآب(ص) نے مجھے بلوایا اور یہ سورہ سنایا پھرمیرے داہنے شانے پر اپنا دست مبارک رکھا اور فرمایا: اے میرے بھائی، میرے وصی اور میرے بعد اس امت کے ولی، یہ سورہ میرے بعد تمہارا ہے اور تمہارے بعد تمہارے بچوں حسن اور حسین کا ہے، اس سورہ کا نور تمہارے اور تمہاری اولادوں کے قلوب میں قائم آل محمد کے ظہور تک ساطح رہے گا۔[3] اور اسی طرح کی دیگر احادیث ہیں کہ جنکا بیان یہاں اختصار کی بنا پرممکن نہیں۔
ماہ رمضان کے اعمال اور تذکرہ اہلبیت (علیہم السلام):
ماہ مبارک کے اعمال میں مختلف نمازیں، دعائیں، اذکار وغیرہ وارد ہوئے ہیں اور حکم یہ ہے کہ اگر ہم عربی زبان سے تاحد کافی آشنائی نہیں رکھتے تو ہمیں چاہئے کہ قرآن اور دعاؤں اور اذکار کا ترجمہ بھی پڑھا کریں تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ان دعاؤں میں کون سے معرفت کے خزانے پوشیدہ ہیں۔
اگر ماہ مبارک میں پڑھی جانے والی دعاؤں پر توجہ کی جائے تو بآسانی یہ بات سمجھ میں آجائے گی کہ ان دعاؤں کے ذریعہ ہمکو معرفت اہلبیت (علیہم السلام) حاصل کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ اس سلسلہ میں کچھ مثالیں پیشِ خدمت ہیں:
(پہلی مثال) دعائے افتتاح کو ماہ مبارک میں پڑھنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ اس دل نشین دعا کو مغرب کے بعد پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ دن بھر کے حقیقی [4] روزے کے بعد حصولِ معرفتِ اہلبیت (علیہم السلام)کے لیئے دل تیار ہو جائے۔ اس دعا کی ابتدا حمد و ثنائےالٰھی سے ہوتی ہے اور پھر راز و نیاز کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، گناہوں کے اقرار، استغفار اور طلبِ رحمت کے بعد باقاعدہ ائمہ ھدیٰ کے اسمائے مبارک کے ساتھ انکا ذکر ہے، جیسا کہ ہم پڑھتے ہیں [اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَ رَسُولِكَ ۔۔۔۔ اللَّهُمَّ وَ صَلِّ عَلَى عَلِيٍّ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَ وَصِيِّ رَسُولِ رَبِّ الْعَالَمِينَ....الخ][5] اس طرز پر اتنی صراحت کے ساتھ شاید ہی کوئی دعا ہو[6]۔ اور پھر آخر میں کچھ اس طرح طلب معرفت اور قرب اہلبیت (علیہم السلام) کی دعا ہے کہ:[اللَّهُمَّ مَا عَرَّفْتَنَا مِنَ الْحَقِّ فَحَمِّلْنَاهُ وَ مَا قَصُرْنَا عَنْهُ فَبَلِّغْنَاهُ۔۔۔] ’’ اے معبود! جس حق کی تو نے ہمیں معرفت کرائی اسکے تحمل کی توفیق دے اور جس سے ہم قاصر رہے اس تک پہنچا دے ‘‘
(دوسری مثال) شب قدر میں خاص تاکید کی گئی ہے کہ دعای فرج پڑھی جائے اور اپنے زمانے کے امام کو یاد کیا جائے تاکہ حقیقتِ شب قدر سے لو لگائی جا سکے[7]
(تیسری مثال) صحری کے وقت دعای ابوحمزہ ثمالی پڑھنے کی بہت تاکید ہے[8]۔ اس پر فیض دعا میں بھی مختلف مقامات پر اہلبیت(علیہم السلام) کا ذکر ہے ۔کہیں پر انکا واسطہ دے کر تو کہیں پر ان پر صلوات بھیج کر۔ مثلا ایک جگہ ہے کہ [ٲَیْنَ إحْسانُکَ الْقَدِیمُ ٲَیْنَ کَرَمُکَ یَا کَرِیمُ بِہِ وَبِمُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ فَاسْتَنْقِذْنِی] ’’ کہاں ہے تیرا قدیم احسان کہاں ہے تیری مہربانی اے مہربان اپنی مہربانی سے محمد(ص) وآل محمد(ع) کے صدقے مجھے عذاب سے نجات دے ‘‘۔ دوسری جگہ ہے [وَارْزُقْنا حَجَّ بَیْتِکَ وَزِیارَۃَ قَبْرِ نَبِیِّکَ صَلَواتُکَ وَرَحْمَتُکَ وَمَغْفِرَتُکَ وَرِضْوانُکَ عَلَیْہِ وَعَلَی ٲَھْلِبَیْتِہِ إنَّکَ قَرِیبٌ مُجِیبٌ] ’’ اپنے گھر ﴿کعبہ﴾ کا حج نصیب فرما اور ہمیں اپنے نبی(ص) کے روضہ کی زیارت کرا، تیرا درود تیری رحمت تیری بخشش اور تیری رضا ہو تیرے نبی(ص) پر اور ان کے اہل بیت(ع) پر‘‘ یا پھر اسی دعا میں مختلف جگہوں پر صلوات پڑھی گئی ہے مثال کے طور پر [اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاخْتِمْ لِی بِخَیْرٍ] ’’اے معبود! حضرت محمد(ص) اور آل محمد(ص) پر رحمت فرما اور میرا خاتمہ بخیر فرما‘‘ اور اسی طرح دیگر مثالیں۔
ان دعاؤں کے علاوہ اور بھی دیگر دعائیں ہیں کہ جن میں جگہ جگہ پر رسول اور اہلبیت رسول(صلوات اللہ علیہم اجمعین) کا ذکر ہے چاہے وہ فقط ایک صلوات کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو۔
ماہ مبارک میں، چاہے مشترکہ اعمال ہوں یا خاص اعمال ہوں، کہیں نہ کہیں ان اعمال میں اور اہل بیت (علیہم السلام) میں رابطہ نظر آتا ہے، اور اس طرح سے ہم اپنے اور اہلبیت (علیہم السلام) کے رابطہ کو دوبارہ تروتازہ کر سکتے ہیں اور اس رابطہ کو تقویت بخش سکتے ہیں۔
(چوتھی مثال) ایک جگہ پر اعمال میں ملتا ہے کہ شیخ کفعمی نے بلد الامین کے حاشیہ میں سید بن باقی سے نقل کیا ہے کہ ماہ رمضان کی ہر شب دو رکعت نماز پڑھنا مستحب ہے ... اور ان سب کے بعد حضرت رسول اور ان کی آل (ع) پر دس مرتبہ صلوات بھیجے، جو شخص یہ نماز بجا لائے تو حق تعالیٰ اس کے ستر ہزار گناہ بخش دیتا ہے۔ اس عمل مین بھی اہلبیت (علیہم السلام) کو یاد کرنے کا شوق دلایا جا رہا ہے۔
(پانچوی مثال) اس کی ایک اور بارز مثال شبِ قدر میں دیکھنے کو ملتی ہے کہ جب ہم اپنے سروں پر قرآنِ مجید رکھ کر عملِ قرآن انجام دیتے ہیں اور دس دس بار چھاردہ معصومیں (علیہم السلام) کا نام لے کر اللہ کو واسطہ دیتے ہیں۔
یہ باتیں ہمکو یاد دلاتی ریتی ہیں کہ بغیر اہلبیت (علیہم السلام)، توسل ناقص ہے اور بنا معرفتِ اہلبیت(علیہم السلام)، ان سے توسل ممکن نہیں۔
نتیجہ:
اسکے علاوہ بھی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن اس جگہ پر بیان کرنے کی گنجایش نہیں ہے۔
مذکورہ مثالوں سے یہ بات واضح ہے کہ ماہ رمضان کے اعمال اور ائمہ اطہار (علیہم السلام) کے درمیان ایک گہرا رابطہ ہے جو اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ معرفت اہلبیت(علیہم السلام) حاصل کریں اور اس عظیم مہینہ میں کوشش کریں کہ اپنا رابطہ، اللہ، رسول اور اہلبیت رسول (صلوات اللہ علیہم اجمعین) سے مستحکم کر سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] لِكُلِّ شَيْءٍ رَبِيعٌ وَ رَبِيعُ الْقُرْآنِ شَهْرُ رَمَضَان (الكافي، ج 2، ص 630)
[2] ثُمَّ قَالَ لِي اقْرَأْ إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فَإِنَّهَا نِسْبَتُكَ وَ نِسْبَةُ أَهْلِ بَيْتِكَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَة (علل الشرایع، ج۲، ص۳۱۶٫)
[3] تفسیر برهان، ج۴، ص۴۸۷٫
[4] قال امیرالمومنین علیه السلام :صوم القلب خیر من صیام اللسان و صوم اللسان خیر من صیام البطن(غرر الحکم، ج ۱، ص ۴۱۷، ح ۸۰)
[5] دعائے افتتاح کا فقرہ
[6] یہاں ماہ رمضان میں پڑھی جانے والی دعائیں مراد ہیں۔البتہ دعائے توسل بھی اسی نھج پر ہے۔
[7] مفاتیح الجنان
[8] مفاتیح الجنان۔اعمال ماہ رمضان