
رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹری جنرل النُجَباء اسلامی مزاحمت تحریک شیخ اکرم الکعبی نے عالمی تقریب مذاہب اسلامی کے سیکریٹری جنرل آیت اللہ "محسن اراکی" سے بات چیت کرتے ہوئے داعش کی فکری جڑوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا: داعش دہشت گرد ٹولہ عراق کے بعض علاقوں میں فکری اور عوامی مقبولیت رکھتی ہے اور جب تک ہم ان کی فکری اور عوام جڑوں کو اکھاڑیں گے نہیں، عراق میں داعش کی موجودگی اختتام پذیر نہیں ہوگی۔
انھوں نے کہا: الحشد الشعبی کے قیام کا مقصد داعش کا مقابلہ تھا اور الحشد الشعبی عراقی مزاحمتی تحریکوں اور تنظیموں کی جامع اور ہمہ گیر تنظیم ہے؛ الحشد میں شامل تنظیمیں اور تحریکیں جہادی نظریات اور تربیت یافتہ مجاہدین کی برکت سے، بہت طاقتور ہیں اور الحشد کی طاقت مزاحمتی تحریکوں کی طاقت سے سرچشمہ لیتی ہے۔
انھوں نے النُجَباء اسلامی مزاحمت تحریک کے مجاہدین کے جہادی نظریئے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم آیت اللہ العظمی امام سید علی حسینی خامنہ ای کی قیادت ميں مکتب ولایت فقیہ کے پیروکار ہیں اور جہاں بھی محاذ مزاحمت کو ضرورت ہوگی، ہم وہیں حاضر ہونگے۔
عراقی رضاکار فورسز [الحشد الشعبی] کے اس اعلی کمانڈر نے داعش کے مسقبل کے بارے میں واضح کیا کہ یہ دہشت گرد ٹولہ عراق میں عسکری طور پر شکست کھانے کے بعد ملک میں سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لئے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے گی اور زیرزمین سیلوں کے سانچے میں عراق کی شہری آبادی کو نشانہ بنائے گی جس کے سد باب کے لئے ہمیں سلامتی کے حوالے سے اقدامات کرنا ہونگے اور مزاحمتی تنظمیں اس وقت اس سمت میں کام کرنے کے لئے منصوبہ بندی کررہی ہیں۔
شیخ اکرم الکعبی نے داعش کے خلاف فکری جدوجہد پر زور دیا اور کہا: امریکی افواج نے ماضی میں کچھ عسکری کاروائیوں کے بعد اعلان کیا کہ "اس ملک میں القاعدہ کا خاتمہ کیا جاچکا ہے" حالانکہ دہشت گردی [القاعدہ] کے خاتمے کے لئے اس دہشت گرد نیٹ ورک کی فکری جڑوں کو سکھانے ضرورت ہے اور ہمیں اس حوالے سے تقریب مذاہب [مذاہب میں قربت] قائم کرنے اور وحت اسلامی کو فروغ دینے کی طرف توجہ دینا چاہئے۔
انھوں نے مزید کہا: ہمارے ملک میں کئی سیاستدانوں کے امریکہ، قطر اور سعودی عرب کے ساتھ رابطے ہیں اور یہ لوگ اپنی کامیابی کو فرقہ وارایت میں تلاش کرتے ہیں؛ ان سیاستدانوں نے حال ہی میں حکومت پر دباؤ ڈالا کہ انتہاپسند مولویوں کو ائمۂ مساجد کے طور پر داعش سے آزاد ہونے والے شہر "فلوجہ" پلٹا دے لیکن ہم نے اس کی شدید مخالفت کی۔
سیکریٹری جنرل النُجَباء اسلامی نے کہا: عراق میں فرقہ واریت کے مسئلے کا راہ حل یہ ہے کہ اہل سنت کی اعتدال پسند شخصیات کا اعتماد حاصل کیا جائے، ہم نے النُجَباء تحریک میں "ادیان" اور "تقریب مذاہب" کے عنوان سے شعبے قائم کئے ہیں، اور اہل سنت کے علماء کو ان علاقوں میں منتقل کیا جو داعش کے قبضے سے آزاد کرائے گئے تھے تا کہ وہ عراق کے سنی عوام سے بات چیت کریں۔
انھوں نے کہا: ہم نے حتی النُجَباء اسلامی مزاحمت تحریک میں ایسے عسکری یونٹ قائم کئے ہیں جن کے تمام تر اراکین کا تعلق فلوجہ اور تکریت کے سنی نوجوان ہیں اور وہ ان علاقوں کی آزادی میں ہمارے شانہ بشانہ لڑے۔
حجت الاسلام شیخ اکرم الکعبی نے کہا: النُجَباء اسلامی مزاحمت تحریک کی پالیسی ہے کہ اہل سنت کے ساتھ مستحکم تر روابط قائم کئے جائیں چنانچہ ہم نے شیعہ علاقوں میں سنی مساجد کھلوادیں اور ہم سنی علاقوں میں سنی عوام اور ان کی مسجدوں کا تحفظ کرتے ہیں۔