رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان متضاد اور جھوٹے بیان میں دینے میں معروف ہیں اس نے شام میں ترک فوجیوں کی کارروائی کے سلسلے میں اپنے پہلے بیان کو بدلتے ہوئے کہا : شام میں ترک فوج کی سپر فرات کارروائی کسی ملک اور شخص کے خلاف نہیں ہے جبکہ اس سے قبل اس نے کہا تھا شام میں سپر فرات کارروائی شام کے صدر بشار اسد کا تختہ الٹنے کے لئے کی گئی ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے ایک کانفرنس میں کہا : شام میں ترک فوجیوں کی موجودگی کا مقصد اس جنگ زدہ عرب ملک سے بشار اسد حکومت کا خاتمہ کرنا ہے۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا نے اعلان کیا : شام کے بارے میں ترکی کے صدر کا بیان ان کے وہم اور ان کی حریص نظروں اور پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس کی بناء پر ترکی میں انتہا پسندانہ افکار وجود میں آئے ہیں اور یہ ملک دہشت گرد گروہوں کے ایک اڈے میں تبدیل ہو گیا ہے۔
ترک صدر اردوغان نے کہا : شام کے شمال میں ترک فوج کی موجودگی صرف دہشت گردوں کے خلاف ہے کسی شخص یا ملک کے خلاف نہیں ہے۔
انہوں نے بیان کیا ہے : سپر فرات کارروائی صرف دہشت گردوں کے خلاف ہے۔ اور ترکی کی شام میں مداخلت کسی شخص یا ملک کے خلاف نہیں ۔
اس سے قبل ترکی کے صدر نے کہا تھا کہ شام میں ترکی کے فوجیوں کی مداخلت کا مقصد شام کے صدر بشار اسد کی حکومت کا خاتمہ تھا۔ ترک صدر کے اس غیر منطقی اور اشتعال انگیز بیان پر شام اور روس نے شدید رد عمل ظاہر کیا تھا جس کے بعد ترک صدر نے اپنے بیان کو بدل دیا ہے۔
شام کی وزارت خارجہ کے مطابق، دہشت گرد گروہوں نے عراق اور شام کے امن و استحکام کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے اور ترک حکومت کی حمایت سے عام شہریوں پر جتنے بھی مسائل و مشکلات مسلط کی جا رہی ہیں ان سب کے ذمہ دار، سب سے پہلے ترک حکام ہی ہیں۔
واضح رہے کہ ترکی نے چودہ اگست سے شمالی شام میں فوجی کارروائی شروع کر رکھی ہے جس کے تحت وہ فری سیرین آرمی سے موسوم گروہ کی حمایت کر رہا ہے جبکہ اس سے قبل اس فوجی کارروائی کا مقصد داعش اور مسلح گروہوں کا مقابلہ کرنا بتایا گیا تھا۔
دوسری جانب روس کے قصر کرملین کے ترجمان دیمتری پسکوف نے شام کے صدر بشار اسد کے بارے میں ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے حالیہ بیان کے بارے میں کہا ہے کہ ان کا یہ بیان، اس سے قبل کے، ان کے بیان سے تضاد رکھتا ہے اور یہ بیان، موجودہ صورت حال کے بارے میں روسی حکام کے خیالات سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتا۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۵۰۷/