رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق سعودی بادشاہ نے ملک میں اقتصادی اور سماجی مشکلات و مسائل کے حل کی غرض سے، تقرری اور معزولی کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے سعودی عرب کے وزیر محنت اور سماجی امور کو برطرف کر دیا۔
انھوں نے وزیر محنت و سماجی امور" مفرج بن سعد حقبانی" کو ان کے عہدے سے برطرف کرکے "علی الغفیض" کو ان کی جگہ متعین کیا ہے۔
سعودی بادشاہ نے کسٹم کے ڈائرکٹر جنرل "صالح الخلیوی" اور اس ملک کی مجلس شورا کے سیکریٹری جنرل "محمد آل عمرو" کو بھی ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا۔
ملک سلمان نے اسی طرح سعودی علماء کی اعلی کونسل کے ڈھانچے پر بھی نظر ثانی کی ضرورت پر زور دیا ہے، سینیر علماء کی کونسل، سعودی عرب کا سب سے اعلیٰ مذہبی ادارہ ہے جس کے سربراہ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ ہیں۔ سعودی بادشاہ نے اس کونسل کے نئے اراکین کے طور پر چند افراد کا تعین کیا ہے۔
اس سے قبل شاہ سلمان نے ابراہیم العساف کو، جو بیس سال تک سعودی وزیر داخلہ تھے، برطرف کر کے محمد الجدان کو ان کا جانشین بنایا تھا۔
اسی طرح علی النعیمی کو بھی جو اگست انیس سو پچانوے سے مئی دو ہزار سولہ کے دوران اکیس برسوں تک تیل کے وزیر رہے تھے، برطرف کر کے خالد الفالح کو منصوب کیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ سعودی عرب نے امریکہ کی سازشی پالیسیوں کے زیراثر تیل کی قیمتوں میں کمی کے سبب گذشتہ مہینوں کے دوران اپنے اقتصاد اور معیشت پر اس کے منفی اثرات کا مشاہدہ کیا ہے۔
تیل کی قیمتوں میں حالیہ کمی نے اگرچہ تیل برآمد کرنے والے بعض ممالک کے اقتصاد پر جزوی اور عارضی اثرات مرتب کئے ہیں لیکن آخرکار یہ تیل کی بنیاد پر استوار سعودی عرب کا اقتصاد ہے کہ جسے تیل کی منڈیوں میں آل سعود کی مہم جوئی کے نئے دور سے سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
بلا شبہ آل سعود حکومت کی پالیسیوں نے سعودی عرب کے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کر دیا ہے اور اس ملک میں دو ہزار گیارہ سے حکومت کے خلاف پرامن عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں۔
مختلف مسائل، تمام میدانوں میں آل سعود حکومت کی تنزلی اور زوال کے عمل کی عکاسی کر رہے ہیں اور اس کے حامی بھی حیران و پریشان ہو کر اس کا نظارہ کر رہے ہیں۔/۹۸۹/ف۹۴۰/