تحریر: عرفان علی
امریکی سینیٹر رینڈ پال نے 22 جون 2014ء کو سی این این کے اسٹیٹ آف دی یونین پروگرام میں کہا تھا کہ داعش کے طاقتور بننے کا ایک سبب یہ ہے کہ امریکا نے شام میں داعش کے اتحادیوں کو مسلح کیا، جبکہ امریکا خود بھی شام میں داعش کا اتحادی بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ داعش کو محفوظ جنت (ٹھکانہ یا پناہ گاہ) ملی، کیونکہ باغیوں کو بشار الاسد سے دور رکھنے کے لئے امریکا انہیں اسلحہ فراہم کر رہا تھا۔ ان کے مطابق شام میں امریکی مداخلت نے صورتحال کو یہاں تک پہنچایا۔ یہ ان کی رائے تھی لیکن اگر 10 اپریل 2015ء کو ڈی کلاسیفائی کی جانے والی امریکی دستاویزات دیکھیں تو اس میں امریکی محکمہ دفاع کے تحت کام کرنے والے انٹیلی جنس ادارے یعنی ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی DIA کی 12 اگست 2012ء والی رپورٹ میں دیر الذور اور حسکہ میں سلفی حکومت کے قیام کا امکان ظاہر کیا گیا تھا اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا تھا کہ امریکا اور اس کے اتحادی ایسا ہی چاہتے ہیں، یعنی: And This is Exactly What the supporting powers to the opposition want, in order to isolate the Syrian regime
اسی رپورٹ میں اپوزیشن کی سپورٹ کرنے والی طاقتوں کے نام بھی لکھے تھے کہThe West, Gulf countries, and Turkey support the Opposition. دیکھا جائے تو داعش درحقیقت القاعدہ ان عراق کا تسلسل تھی اور اس کی داغ بیل شام میں نہیں بلکہ عراق میں ہی ڈالی گئی، تب اس کا نام القاعدہ ان عراق تھا اور مذکورہ بالا ڈی کلاسیفائیڈ رپورٹ میں بھی القاعدہ ان عراق کا تذکرہ دیگر مقامات پر کیا گیا ہے۔ عراق سے پہلے عصر حاضر میں یہ سب کچھ افغانستان اور پاکستان سے شروع ہوا۔ سوویت یونین کا تو سقوط ہوگیا، لیکن افغانستان سے القاعدہ ایجاد ہوئی۔ سپاہ صحابہ بھی افغان جہاد کے دور میں پاکستان میں وجود میں آئی۔ افغان جنگ کی تفصیلات کے لئے ان امور کے ماہر نامور امریکی صحافی و مصنف جون کے کولے کی کتاب ’’ان ہولی وارز‘‘ پڑھ لیں۔ مذکورہ کتاب میں افغان جہاد میں امریکا اور اس کے اتحادیوں، ’’مجاہدین‘‘ کی بھرتی، ٹریننگ اور فنڈنگ سمیت سب نکات تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔ جنرل ضیاء اور سعودی کردار کا تو سب تذکرہ کرتے ہیں، مگر ایمن الظواہری کے ملک مصر اور اس وقت کے حکمران انور سادات کے کردار پر جون کولے ہی کو لکھنے کی توفیق ہوئی۔ کولے کا انتقال اگست 2008ء میں ہوا۔
ایک مستند دلیل رابن کک کا بیان ہے۔ وہ بش حکومت کے وزیر خارجہ کے عنوان سے شہرت پانے والے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی حکومت میں وزیر خارجہ تھے اور اگست 2005ء میں رحلت فرما گئے۔ رابن کک نے برطانوی ایوان میں بھی کہا تھا اور روزنامہ گارجین میں 8 جولائی 2005ء کو ایک آرٹیکل میں بھی لکھا کہ (القاعدہ کا قائد) اسامہ بن لادن مغربی سکیورٹی اداروں کی جانب سے کی گئی یادگار مس کیلکیولیشن کی پیداوار تھا، کیونکہ 1980ء کے عشرے میں بن لادن کو امریکی سی آئی اے مسلح کرتی رہی اور سعودی عرب فنڈنگ کرتا رہا۔ رابن کک نے مزید لکھا کہ القاعدہ کا مطلب ڈیٹا بیس تھا کیونکہ یہ ان ہزاروں ’’مجاہدین‘‘ کی کمپیوٹر فائل کا نام تھا، جنہیں سی آئی اے کی مدد سے بھرتی کیا گیا اور تربیت فراہم کی گئی، تاکہ وہ سوویت یونین سے لڑیں۔ سابق امریکی سینیٹر بوب گراہم جو امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین اور نائن الیون حملوں کی آفیشل انکوائری کے شریک چیئرمین تھے۔ ان سے کی گئی گفتگو کو برطانوی اخبار ’’دی انڈی پینڈنٹ‘‘ میں آئرش صحافی و کالم نگار پیٹرک کوک برن نے 14 ستمبر 2014ء کو بیان کیا۔
سینیٹر بوب گراہم نے کہا کہ داعش اس لئے تشکیل پائی کہ امریکی حکومت نائن الیون حملوں میں سعودی کردار اور اس کے بعد القاعدہ جیسی تنظیموں کی سعودی امداد کی تحقیقات کرنے میں ناکام رہی۔ ان کے مطابق امریکی اتحادی سعودی عرب کی وجہ سے امریکی انٹیلی جنس داعش کے بارے میں حقیقی تجزیہ کرنے میں ناکام رہی۔ نائن الیون کے حملوں میں امریکی و سعودی کردار اور ان کے طالبان اور القاعدہ کنیکشن کے بارے میں فرانسیسی پولیٹیکل سائنٹسٹ اور ریسرچر ’’تھی ایری میسان‘‘ نے اپنی تحقیقی کاوش بعنوان ’’9/11، دی بگ لائی‘‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ احمد رشید بھی لکھ چکے ہیں۔ حتیٰ کہ ہفت روزہ تکبیر نے مارچ 1995ء میں ہی طالبان کے قیام میں اس کے مغربی سرپرستوں کے کردار سے پردہ ہٹا دیا تھا۔ تکبیر میگزین کے سرپرستوں میں جنرل حمید گل بھی شامل تھے۔ بعد ازاں یہی گروہ طالبان و تکفیری دہشت گردوں کی حمایت کرنے لگا۔
5 فروری 2003ء کو امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کاؤنسل میں ایک طویل تقریر کی اور القاعدہ کا صدام کے ساتھ تعلق ثابت کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ 1950ء کے عشرے سے ایران عراق جنگ تک صدام کا تعلق خود امریکا اور اس کے اتحادیوں سے رہا تھا، جو پوری دنیا کو معلوم ہے! ساڑھے دس ہزار انگریزی الفاظ پر مشتمل اس تقریر میں صدام القاعدہ تعلق کا مرکزی کردار ابو مصعب الزرقاوی تھا۔ اردن کے علاقے زرقا میں پیدا ہونے والا یہ عرب بھی افغانستان کے جہاد میں شریک تھا۔ یہاں سے اردن آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اردن میں قیدی تھا، لیکن سزا کے پہلے سال میں ہی شاہ عبداللہ نے شاہی فرمان جاری کرکے آزاد کر دیا تھا۔ زرقاوی سمیت بہت سے دہشت گردوں کی حقیقت ہم پاکستانیوں پر پہلے ہی منکشف ہوچکی تھی، لیکن امریکی سی آئی اے میں 20 سال سے زائد کام کرنے والے افسر مائیکل شوائر نے ریٹائرمنٹ کے چار سال بعد ایک کتاب میں بھی اصل حقیقت بیان کی۔ مائیکل شوائر 1996ء سے 1999ء تک بن لادن یونٹ کا سربراہ تھا۔ 2001ء سے نومبر 2004ء تک بن لادن یونٹ کے سربراہ کا مشیر خاص تھا اور اسی سال ریٹائر ہوگیا تھا۔
’’مارچنگ ٹوورڈ ہیل: امریکا اینڈ اسلام آفٹر عراق‘‘ کے چوتھے باب میں موصوف نے لکھا کہ افغان جہاد کے وقت مسلمان ممالک میں نوجوانوں کی بڑی تعداد اسلام پسند تھی اور ان کی جانب سے حکومت مذہبی دباؤ محسوس کرتی تھی، افغان جہاد کی صورت میں انہیں اپنے معاشرے میں ریڈیکل مذہبی دباؤ کو ریلیز کرنے والا والو (valve) مل گیا۔ مذہبی قیدیوں کو اس شرط پر آزاد کیا جانے لگا کہ وہ افغانستان جاکر ملحد سوویت حملہ آوروں سے لڑیں۔ کئی قیدی آمادہ ہوئے۔ حکومتوں نے سوچا کہ اس طرح یا وہ ماریں گے یا مارے جائیں گے۔ بالکل اسی طرح ہوا، لیکن بعض اس جنگ میں بچ نکلے، اپنے وطن لوٹ گئے اور اپنی حکومتوں کے لئے مسئلہ بنے۔ مثال کے طور پر تھائی لینڈ اور بنگلہ دیش میں وہ حکومت مخالف سیاسی لیڈر بنے اور الیکشن میں بھی حصہ لینے لگے۔ عراق چونکہ ماضی میں خلافت کا مرکز رہ چکا ہے، اس لئے افغانستان کی نسبت زیادہ جنگجو افراد یہاں آنے پر مائل تھے۔ لہٰذا عرب حکومتوں کو یہ صورتحال آئیڈیل لگی۔ افغان جہاد کے بعد اندرونی مشکلات و عدم استحکام کو کم کرنے کے لئے انہوں نے اس کا فائدہ اٹھایا۔
مائیکل شوائر کے مطابق عرب حکومتیں امریکیوں پر حملوں کے لئے یہ افراد بھیج رہی تھیں۔ اگر ایسا تھا تو امریکا نے عرب حکومتوں سے اپنے تعلقات ختم کیوں نہ کئے، ان کے خلاف اقدامات کیوں نہ کئے؟ نہیں کئے کیونکہ عراق جنگ میں بھی درپردہ یہی امریکا ہی کے اتحادی تھے۔ مائیکل شوائر نے سعودی عرب، یمن، تیونس، مراکش، الجزائر سمیت مختلف ممالک میں قید مذہبی افراد کی معافی و آزادی کے اعداد و شمار بھی تحریر کئے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کا قیام اور وہاں پاکستان کے لئے بدنام زمانہ دہشت گرد گروہ لشکر جھنگوی کا قیام، ریاض بسرا، اکرم لاہوری سمیت دیگر بدنام زمانہ جرائم پیشہ افراد کی مشروط رہائی کے لئے جیلیں تڑوانا، جیلوں سے فرار کروانا کوئی زیادہ پرانی بات نہیں۔ طالبان کے افراد نے بھی یہی کام کیا۔ پھر نائن الیون کے بعد کے افغانستان اور 2003ء کی جنگ کے بعد عراق میں بھی جیلوں سے قیدیوں کو بھگا دینا، متعدد واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔
امریکی ایف بی آئی نے سی آئی اے کے بن لادن کے ساتھ تعاون نہیں کیا۔ سوڈان سے لے کر افغانستان تک امریکی اسپیشل فورسز یا سی آئی اے کا کوئی نہ کوئی فرد اسامہ بن لادن کے نزدیک ہی تھا، لیکن اسے پکڑنے یا مارنے کا حکم نہیں تھا۔ فرانس کے اخبار لی فگارو میں 31 اکتوبر 2001ء کوالیگزینڈرا رچرڈ نے تو یہاں تک لکھا کہ 4 جولائی سے 11 جولائی 2001ء تک متحدہ عرب امارات میں اسامہ بن لادن امریکن ہاسپٹل میں زیر علاج تھا، جہاں اس سے سعودی عرب اور امارات کی اہم شخصیات ہی نہیں بلکہ سی آئی اے کے اسٹیشن چیف نے بھی ملاقات کی تھی۔ طالبان کے حق میں اقوام متحدہ سمیت امریکا کے دیگر فورم پر ان کا دفاع کرنے والی لیلٰی ہیلمز سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر رچرڈ ہیلمز کے بھتیجے کی افغان نژاد بیوی تھی۔ رچرڈ ہیلمز، بش خاندان اور سعودی شاہی خاندان کے بزنس تعلقات بھی تھے، کہیں کارلائل گروپ تو کہیں بی سی سی آئی اور کہیں ٹھیکے۔
2008ء میں انتقال کر جانے والے مشہور امریکی وکیل اور خارجہ امور کا ماہر پیٹر روڈمین نیشنل سکیورٹی کاؤنسل میں ہنری کسنجر کا معاون خصوصی تھا اور بش دور حکومت میں جولائی 2001ء سے سال 2007ء تک بین الاقوامی سکیورٹی کے لئے معاون وزیر دفاع تھا۔ وزیر دفاع کے نام اس کا 3 صفحات پر مشتمل 15 اگست 2002ء کو لکھا گیا کلاسیفائیڈ لیٹر چھ سال قبل ڈی کلاسیفائی کیا گیا تھا۔ اس کا عنوان تھا عراق پر حکومت کون کرے گا؟ اس نکتے کا تذکرہ اس لئے کیا کہ مستند ترین ذریعے سے یہ ثابت ہے کہ امریکا نے منظم منصوبہ بندی کے تحت عراق کے تیل اور دفاعی صلاحیت کو نظر میں رکھ کر اس پر حملہ کیا تھا۔ القاعدہ و طالبان سمیت جتنے گروہ اس نے تشکیل دیئے تھے، ان کا آئندہ کا مصرف بھی پہلے سے طے تھا اور نائن الیون کے بعد بھی یہ تنظیمیں امریکی و سعودی ایجنڈا پر عمل پیرا رہیں۔ امریکی اپنا کردار چھپا کر اتحادیوں کا کردار بیان کرتے ہیں۔ امریکی تحقیقاتی صحافت میں ایک بڑا نام وین میڈسن کا ہے، جو انٹیلی جنس انسائیڈر بھی سمجھے جاتے ہیں۔
جولائی 2004ء العالم ٹی وی کے مطابق میڈسن نے کہا داعش کو امریکی سی آئی اے کے موجودہ ڈائریکٹر جون برینن نے تشکیل دیا ہے۔ وہ ایک سعود و فائل یعنی سعودی عرب کے دوست اور حامی ہیں، سعودی عرب میں اسٹیشن چیف بھی رہ چکے ہیں۔ امریکی کنزرویٹو ویب سائٹ ورلڈ نیٹ ڈیلی نے 17 جون 2004ء کو یہ راز فاش کر دیا کہ اردن میں مذہبی دہشت گردوں کو امریکی اسپیشل فورسز نے 2012ء میں ٹریننگ دی تھی اور انہی تربیت یافتہ دہشت گردوں نے داعش میں شمولیت اختیار کی۔ لیکن مکمل سچ یہ بھی نہیں۔ یہ ٹریننگ کبھی معطل ہوئی ہی نہیں تھی۔ اردن، افغانستان، عراق، سعودی عرب سمیت دیگر ممالک میں ویسے بھی یہ ٹریننگ جاری تھی۔ اپریل 2009ء میں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے امریکی کانگریس میں اعلانیہ کہا کہ جو صورتحال ہمیں درپیش ہے، اس میں کسی حد تک ہمیں خود کو بھی ذمے دار سمجھنا چاہئے، کیونکہ جن افراد سے آج ہم لڑ رہے ہیں، 20 سال قبل انہیں ہم نے سوویت یونین سے لڑنے کے لئے فنڈنگ کی تھی۔ 25 اپریل 2009ء کو ڈان اخبار میں واشنگٹن سے انور اقبال کی خبر شایع ہوئی، جس میں ہیلری کے بیان کی خبر شایع ہوئی کہ ہیلری کہتی ہے کہ ’’امریکا نے طالبان تخلیق کئے اور پاکستان کو (لاوارث) چھوڑ دیا۔‘‘
پاکستان میں سپاہ صحابہ کا بننا، افغان جنگ میں القاعدہ کا قیام، اس کے بعد، افغانستان میں طالبان اور لشکر جھنگوی کا قیام، پھر القاعدہ کا یہاں دوبارہ ظہور، افغانستان کی جنگ کے دوران ہی القاعدہ کو یہاں سے عراق منتقل کروا دینا، القاعدہ میں سے داعش سمیت متعدد تکفیری گروہوں کا ظہور، پھر اس کا شام چلے جانا اور وہاں دہشت گردی کرنا، یہ سب ایک ہی کہانی کا تسلسل ہے۔ ناموں کی بجائے ان گروہوں کے کاموں پر توجہ دی جائے کہ انہوں نے کتنی آسانی سے امت اسلامی کو کمزور کیا ہے، جانی و مالی نقصانات پہنچائے ہیں، مسئلہ فلسطین کو دفن کرکے رکھ دیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان وحشیوں کی وجہ سے اسلام پر دہشت گردی کا لیبل لگانا آسان بنادیا گیا ہے۔
(نوٹ: ماضی میں بھی یہ نکات بیان کرچکا ہوں۔ قبل اس کے کہ اسرائیل کے تکفیریوں سے روابط پر بات ہو، ضروری ہوگا کہ ایک نظر جدید تکفیری دہشت گردی کے اس سفر کو بھی ذہن میں رکھیں، تاکہ مسئلہ سمجھنے میں آسانی ہوسکے۔ اگلی مرتبہ ان شاء اللہ صہیونی تکفیری روابط پر تحریر پیش خدمت ہوگی)/۹۸۸/ ن۹۴۰