رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، تفصیلات کے مطابق افغانستان کے صوبے پکتیکا میں افغان فورسز سے جھڑپ میں سیف اختر موقع پر ہلاک ہوگیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سیف اللہ اختر پاکستان کے علاقے چشتیاں کا رہائشی تھا اور پاکستان میں شدت پسندوں کے سرکردہ رہنماوں میں شامل ہونے کے ساتھ ساتھ ملا عمر کے مشیر کے طور پر بھی کام کر چکا تھا، جبکہ حکومت مخالف بغاوت میں ملوث ہونے کے الزام میں جیل کی ہوا کھا کر رہائی کے بعد روپوش ہوگیا اور بعدازاں افغانستان میں نمودار ہوا۔
انیس سو اٹھاون میں پیدا ہونے والے قاری سیف اللہ اختر نے کراچی کے جامعہ بنوری ٹاؤن سے دینی تعلیم کی سند لینے کے بعد 80 کے عشرے کے اوائل میں شدت پسندانہ سرگرمیاں شروع کیں۔
قاری سیف اللہ کا اصل نام محمد اختر اور سیف اللہ اس کا لقب تھا۔ قاری سیف اللہ اختر افغانستان میں ایک تربیتی کیمپ بھی چلاتا رہا، اس کے ساتھیوں کے مطابق تقریبا ساڑھے تین ہزار جنگجوؤں کو اس نے تربیت دی۔/۹۸۹/ ف۹۴۰