رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب وزیر خارجہ اور سینیئر ایٹمی مذاکرات کار سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران ایران کو جامع ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے امریکہ اور بعض دوسرے ملکوں کی جانب سے وعدہ خلافیوں، تاخیری حربوں اور مخاصمانہ رویے کا سامنا ہے۔
جامع ایٹمی معاہدے کو ایک سال مکمل ہونے پر تہران میں اپنے ایک بیان میں سید عباس عراقچی نے کہا کہ امریکہ اور یورپی ممالک نے جہاں تک ان کے بس میں تھا جامع ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد میں مشکلات کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ایران ان کی رخنہ اندازیوں کا مقابلہ اور رکاوٹوں کو ہٹاتا چلا آیا ہے۔
ایران کے سینیئر ایٹمی مذاکرات کار نے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی ایران کے ایٹمی پروگرام کو جائز اور قانونی قرار دیا ہے اور ایران کا ایٹمی پروگرام پوری قوت کے ساتھ اپنے راستے پر گامزن ہے جبکہ اس بارے میں تحقیق اور ترقی کا عمل بھی جاری ہے۔
سید عباس عراقچی نے واضح کیا کہ ایران صنعتی پیمانے پر یورینیم کی افزودگی بھی شروع کرے گا اور دیگر ملکوں کے ساتھ ایران کے پرامن ایٹمی تعاون کے حوالے سے کام کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ،توانائی، تیل، گیس پیٹروکیمیکل، ٹرانسپورٹیشن، اور مالیاتی بینکاری کے شعبوں پر عائد بعض پابندیاں ختم ہو گئی ہیں اور ایران اپنے تیل کی فروخت کی آمدنی وصول کرسکتا ہے۔
جامع ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کی نگراں کمیٹی کے سربراہ نے کہا کہ، جہاز رانی، جہارانی کے بیمے اور دیگر ملکوں کی بندرگاہوں تک رسائی میں حائل رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں تاہم بعض بینکاری پابندیوں کا تعلق ایٹمی معاہدے سے نہیں ہے۔
ایران کے سینیئر ایٹمی مذاکرات کار نے ویانا میں ایرانی اور امریکی وفد کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے بارے میں کہا کہ ایران ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کے سوا امریکہ کے ساتھ کسی بھی معاملے پر بات چیت نہیں کر رہا ہے۔
سید عباس عراقچی نے واضح کیا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان ایٹمی مذاکرات ختم ہو چکے ہیں اور ایران امریکہ کی آئندہ حکومت کے ساتھ جامع ایٹمی معاہدے کے حوالے سے سیاسی مذاکرات ہرگز نہیں کرے گا۔
دوسری جانب ایران کے ایٹمی توانائی کے ادارے کے ترجمان بہروز کمال وندی نے کہا ہے کہ ایران امریکہ کی رخنہ اندازیوں اور وعدہ خلافیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے اور امریکیوں کو بھی اچھی طرح معلوم ہے کہ اس حوالے سے ایران کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ ہم ماضی کی جانب پلٹنے پر مجبور ہوں تو ہمیں ایسا کرنے میں دیر نہیں لگے گی بلکہ تیزی کے ساتھ ماضی کی ایٹمی سرگرمیوں کی جانب واپس لوٹ جائیں گے۔
بہروز کمال وندی نےاس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ امریکہ کو جامع ایٹمی معاہدے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں زیادہ دلچسپی نہیں ہے، کہا جیسا کہ امریکی صدر نے کہا ہے کہ اگر ان کے بس میں ہوتا تو وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو اکھاڑ کر پھینک دیتے کیونکہ وہ ایران میں یورینیم کی افزودگی بند کرانا چاہتے تھے لیکن آج ایران مقابل فریق سے اپنی بات منوانے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
ایران کے ایٹمی توانائی کے قومی ادارے کے ترجمان نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ممکن ہے کہ امریکہ کا جہاں بس چلے وہ جامع ایٹمی معاہدے پرعملدرآمد سے بھاگنے کی کوشش کرے تاہم ایران کو اس طرح سے عمل کرنا ہوگا کہ امریکہ جامع ایٹمی معاہدے پر پورے طور سے عملدرآمد کرنے پر مجبور ہو جائے۔
واضح رہے کہ ایران کے ساتھ ہوئے جوہری معاہدہ پر عمل در آمد سے امریکا ھمیشہ کی طرح راہ فرار اختیار کرنے کے لئے مختلف قسم سے بہانہ تراشی کی کوشش کر رہا ہے۔ /۹۸۹/ف۹۳۰/ک۶۷۶/