04 February 2017 - 08:03
News ID: 426101
فونت
حالیہ دھماکہ ہوا بھی اہلیان کرم پر، مرے بھی یہی، جبکہ الٹا گرفتاریاں بھی انہی مقتولین کے خانوادوں سے ہوئیں۔ سبزی منڈی کے متاثرہ اڑتیوں کو گرفتار کیا گیا، اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ایسے کئی دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا گیا، جن پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے لوگوں کو احتجاج کرنے پر اکسانے کی کوشش کی تھی، تو کیا ایک جمہوری ملک میں اہنی مظلومیت کی آواز بلند کرنا بھی ممنوع ہے۔
 پاراچنار بم دھماکے



تحریر: سید محمد الحسینی

پاراچنار دھماکے میں کیا ہوا اور کتنا نقصان ہوا۔ کتنی مائیں بہنیں سوگوار اور کتنے گھر اجڑ گئے۔ کتنے معصوم طالبعلموں کے جنازے اٹھے۔ جو ہوا وہ تو ہوا، کیونکہ پاراچنار کو ویسے بھی پاکستان کا حصہ شمار نہیں کیا جا رہا۔ پاراچنار ہے بھی اتنا مظلوم کہ 2007ء جنگ کے دوران پانچ سال تک اہلیان پاراچنار پر اپنے پیارے ملک کی سرزمین کا استعمال حرام قرار دیا جاچکا تھا۔ اس دوران یہاں کے مظلوم اور محصور اقوام نے پشاور اور دیگر علاقوں تک رسائی کے لئے ایک ایسے ہمسایہ ملک کی سرزمین استعمال کی، جس کے ساتھ ہمارے تعلقات کئی دہائیوں سے کشیدہ چلے آرہے ہیں۔ اگرچہ یہ ہماری حکومت بلکہ خود ہمارے لئے نہایت ننگ کی بات تھی کہ ہم اپنی سرزمین کی بجائے ہمسایہ ملک کی سرزمین استعمال کرتے رہے، تاہم مرتے کیا نہ کرتے، کے مصداق ہم نے مجبوراً وہ کام کیا جو نہیں کرنا چاہئے تھا۔

پاراچنار پر ہونے والے خودکش اور دیگر بم حملوں کا تو سب کو بخوبی علم ہے۔ لیکن اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ کہ یہاں دھماکوں کے بعد دوسرا ظلم شروع ہوتا ہے۔ دھماکہ کرنے والا دشمن تو پس پردہ ہوتا ہے، اسکا تو کوئی پتہ نہیں چلتا، کوئی اسے طالبان کی کارروائی قرار دیتا ہے تو کوئی اسے لشکر جھنگوی کی، کبھی فضل سعید خود ذمہ داری قبول کرتا ہے تو کبھی کسی سرکاری گاڑی میں دھماکہ ہوتے دیکھ کر فقط اسے نہیں بلکہ تمام سانحات کی ذمہ داری حکومت ہی پر عائد کرتے ہیں اور وہ دوسرا ظلم کیا ہوتا ہے، وہ یوں کہ جب عوام کی جانب سے دھماکے کے خلاف کوئی ردعمل سامنے آتا ہے تو ان ستم دیدہ عوام کو اپنی ہی سرکار گولیوں سے بھون دیتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اگر کوئی صرف اپنی رائے یوں بیان کرے کہ واقعے پر احتجاج کرنا چاہئے تو ان افراد کو گرفتار کرکے پابند سلاسل کر دیا جاتا ہے۔ چنانچہ 2012ء کو کرمی بازار میں ہونے والے دھماکے کے بعد دو درجن سے زیادہ افراد کو حکومت ہی نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا تھا بلکہ درجنوں دیگر کو گرفتار کرکے ایک سال تک قید میں رکھا گیا۔

اسی حالیہ دھماکے ہی کو لیجئے کہ دھماکہ ہوا بھی اہلیان کرم پر، مرے بھی یہی، جبکہ الٹا گرفتاریاں بھی انہی مقتولین کے خانوادوں سے ہوئیں۔ سبزی منڈی کے متاثرہ آڑتیوں کی گرفتاری تفتیش کی حد تک تو صحیح ہے کہ تمہارے پاس سبزی کہاں سے آتی ہے اور یہ سبزی کہاں سے آئی۔ تاہم یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہفتوں تک انہیں پابند سلاسل رکھا جائے۔ اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ کئی دیگر بے گناہ افراد کو بھی گرفتار کیا گیا، جن پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے لوگوں کو احتجاج کرنے پر اکسانے کی کوشش کی تھی۔ تو کیا ایک جمہوری ملک میں اپنی مظلومیت کی آواز بلند کرنا ممنوع ہے۔ اس حوالے سے اسلام ٹائمز نے مولانا یوسف حسین جعفری کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کی ہے، جسے نذر قارئین کر رہے ہیں۔

تحریک حسینی کے صدر مولانا یوسف حسین جعفری سے جب دھماکے کے بعد حکومت کی جانب سے کی جانے والی گرفتاریوں کے حوالے سے پوچھا گیا تو انکا کہنا تھا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے، کسی بھی جمہوری ملک میں عوام کو اپنے مسائل و مشکلات کے حوالے سے احتجاج کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہوتا ہے، جبکہ کرم ایجنسی میں پورے ملک کے برعکس ایک عجیب قسم کا قانون لاگو ہے۔ جہاں کوئی اپنے مسائل و مشکلات اور مظلومیت کا رونا بھی نہیں رو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ مشکوک افراد کی گرفتاری بجا ہے۔ جیسے اس حوالے سے صدہ سے بوشہرہ کے مشکوک شخص کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ جس نے مبینہ طور پر بہت کچھ اگل دیا ہے۔ لیکن صدائے احتجاج بلند کرنے والوں کو گرفتار کرنا، کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ حق ہم سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔ یہ ہمارا قانونی اور آئینی حق ہے۔ نہیں تو ہم اسے کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ طوری بنگش اقوام قید و بند سے گھبرانے والی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج جمعہ کو مدرسہ آیۃ اللہ خامنہ ای میں شہداء کے ایصال ثواب کیلئے قرآن خوانی کا جو انعقاد کیا گیا ہے، اس میں بھی ہم عوام نیز میڈیا کو اپنے موقف اور اپنے آئینی حقوق سے آگاہ کریں گے۔ انہوں نے علمائے کرام پر زور دیا کہ وہ خطابات میں عوام کو اپنے جائز حقوق سے آگاہ کریں اور سرکار کی جانب سے روا رکھے جانے والے مظالم پر ہر سطح پر صدائے احتجاج بلند کریں۔/۹۸۸/ ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬