تحریر: ارشاد حسین ناصر
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ کشمیر، قیام پاکستان کا نامکمل ایجنڈا اور پاکستان کی شہہ رگ ہے۔ 1947ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں پاکستان کے قیام کے ذریعے اس خطے کے باسیوں نے تو انگریز اور ہندو اکثریتی آبادی سے آزادی کی نعمت حاصل کر لی، مگر افسوس کشمیر کے عوام آج تک بھارتی غاصبانہ اور ہندوؤں کے ظالمانہ قبضے کا شکار ہیں۔ ہندوستان کی تمام تر سازشوں، مظالم اور فوجی جارحیت کے باوجود ستر سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اہلیان کشمیر کے دلوں سے آزادی کی تڑپ نہیں نکلی اور نہ ہی پاکستان کی محبت کم ہوسکی۔ کشمیری نوجوان آج بھی "لے کے رہیں گے آزادی اور کشمیر بنے گا پاکستان" کے نعروں کے ساتھ اپنی جان کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔
سات لاکھ سے زائد ہندوستانی فوج کے مظالم بھی ان کے جذبہ آزادی کو سرد نہیں کرسکے۔ بدقسمتی سے ہم اس انداز میں کشمیر کی بیداری و حریت کی تحریک کا ساتھ نہیں دے رہے، جو اس کا حق بنتا ہے۔ مسئلہ کشمیر ہماری حکومتوں کی ترجیح میں کہاں کھڑا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حکمرانوں نے اسے ایک غیر فعال کشمیر کمیٹی کے سپرد کیا ہوا ہے، جس کی سربراہی کئی سالوں سے بلاشرکت غیرے ہر حکومت کے اتحادی مولانا فضل الرحمن کے پاس ہے۔ اس کشمیر کمیٹی کی کارکردگی سب کے سامنے ہے، اپنے تمام تر تعلقات کے باوجود آج مودی جیسا حکمران ہمارے عرب اسلامی دوستوں سے ایسے ایسے اعزاز پا رہا ہے اور ہندوستان سے ایسے ایسے اقتصادی معاہدے ہمارے دوست حکمران کر رہے ہیں کہ حیرت ہے ہماری خارجہ پالیسی اور کشمیر کمیٹی کی فعالیت پر، جو دوست عرب اسلامی ممالک کو ہی نہیں سمجھا سکی کہ ان دنوں میں جب ہندوستان اپنا حق مانگنے والے بے گناہ عوام کو پیلٹ گن سے چھلنی کرکے معذور کر رہا ہے، آپ اسے کس چیز کا انعام دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب تو حریت کانفرنس کے بزرگ کشمیری رہنماء سید علی گیلانی کو بھی یہ کہنا پڑا ہے کہ پاکستان مولانا فضل الرحمن کی جگہ کسی اور کو کمیٹی کا چیئرمین بنائے، تاکہ کشمیر کمیٹی فعال کردار ادا کرسکے۔
کشمیر کی آزادی کے ساتھ ہمارا دوسرا تعلق یوم یکجہتی کشمیر کے ذریعے جو ہر سال 5 فروری کو منایا جاتا ہے، جو یقیناً قابل تحسین قدم ہے، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ یکجہتی صرف کاغذی یا سیاسی بیانوں تک ہی محدود نہ رہے، بلکہ پاکستانی حکومت اور عوام اس یکجہتی کے عملی تقاضوں کو بھی پورا کرے۔ پاکستان تحریک آزادی کشمیر کا حقیقی پشتیبان بن کر عالم اسلام میں بھی اگر ایک متحرک کردار ادا کرے تو اس کے مفید اثرات سامنے آسکتے ہیں۔ حکومت اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ سول سوسائٹی، سماجی کارکنان، دانشوروں اور میڈیا کو بھی اسی حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیئے، کشمیر کا مسئلہ ماضی میں بعض فرقہ وارانہ دہشت گرد تنظیموں کی وجہ سے دنیا کی مدد اور حمایت حاصل کرنے کی بجائے پاکستان پر الٹے اثرات مرتب کر رہا تھا، مگر اب صورتحال کافی بہتر ہے۔ موجودہ تحریک بیداری اور آزادی کی لہر یہاں کی مقامی آبادی بالخصوص نوجوان نسل جن کا تعلق یونیورسٹیز سے ہے، ان کی قربانیوں اور تحرک کا نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک نے اب اس مسئلہ کو اہمیت دی ہے اور آج کشمیر عالمی سطح پر ایک نمایاں جگہ پر نظر آ رہا ہے، اس میں ان کشمیری شہداء کی قربانیوں کا بھی اثر ہے، جنہوں نے سینے پر گولیاں کھا کر آزادی کے نعرے لگائے ہیں اور تمام تر مشکلات کے باوجود سبز ہلالی پاکستانی پرچم کو کشمیر کے چوکوں اور چوراہوں میں لہرایا ہے، ہندوستانی افواج کو سب سے زیادہ اسی وقت تکلیف ہوتی ہے، جب سری نگر کے چوراہوں میں ان کے سامنے سبز ہلالی پرچم لہرایا جاتا ہے۔
اگر ہم یوم یکجہتی کشمیر کی اہمیت جاننا چاہیں تو ہمیں تاریخ کی ورق گردانی کرنا ہوگی۔ آج کی نسل کیلئے ضروری ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کے پس منظر کو جان لے۔ اصولی طور پر کشمیری عوام کی تحریک آزادی اسی روز سے شروع ہوگئی تھی، جب انگریزوں نے گلاب سنگھ کے ساتھ بدنام زمانہ معاہدہ امرتسر کے تحت 16 مارچ 1846ء کو کشمیر کا 75 لاکھ روپے نانک شاہی کے عوض سودا کیا۔ 13 جولائی 1931ء کو سری نگر جیل کے احاطے میں کشمیریوں پر وحشیانہ فائرنگ کے نتیجے میں 22 مسلمان شہید اور 47 شدید زخمی ہوگئے۔ اس واقعہ پر لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے لئے کشمیر کمیٹی قائم کی اور شاعر مشرق علامہ اقبال کو اس کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا۔ گلینسی کمیشن قائم کیا گیا۔ 1934ء میں پہلی مرتبہ ہندوستان میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور ڈوگرہ راج کے مظالم کے خلاف ملک گیر ہڑتال کی گئی۔
1946ء میں قائد اعظم محمد علی جناح نے مسلم کانفرنس کی دعوت پر سرینگر کا دورہ کیا، جہاں قائد کی دور اندیش نگاہوں نے سیاسی، دفاعی، اقتصادی اور جغرافیائی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا۔ مسلم کانفرنس نے بھی کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے 19 جولائی1947ء کو سردار ابراہیم خان کے گھر سری نگر میں باقاعدہ طور پر قرار داد الحاق پاکستان منظور کی۔ لیکن جب کشمیریوں کے فیصلے کو نظر انداز کیا گیا تو یہاں کی قیادت نے 23 اگست 1947ء کو نیلا بٹ کے مقام سے مسلح جدوجہد کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ 15 ماہ کے مسلسل جہاد کے بعد موجودہ آزاد کشمیر آزاد ہوا۔ اس صورتحال کو دیکھ کر پنڈت جواہر لعل نہرو اقوام متحدہ پہنچ گئے اور بین الاقوامی برادری سے وعدہ کیا کہ وہ ریاست میں رائے شماری کے ذریعے ریاست کے مستقبل کا فیصلہ مقامی عوام کی خواہشات کے مطابق کریں گے۔
آج بھارت نے اقوام متحدہ کی قراردادں کو پاؤں تلے روندتے ہوئے کشمیری بھائیوں کے خون سے ہولی کھیلنا، ماؤں بہنوں کی عزتوں کو تار تار کرنا اور یہاں کے باسیوں کے ساتھ ظالمانہ رویہ رکھنا معمول بنایا ہوا ہے۔ کوئی عالمی قانون، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور مہذب دنیا اسے روکنے والے نہیں اور وہ اس سب کے باوجود دنیا کی بڑی جمہوریت کا دعویدار بنا ہوا ہے۔ اس کی بڑی آبادی اور بڑی مارکیٹ کیوجہ سے دیگر ممالک اور ریاستیں اس سے اقتصادی مفادات وابستہ کئے ہوئے ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ ہمارے حکمران بھی ایسا ہی سوچتے ہیں، جیسا دنیا بھارت کے بارے سوچتی ہے، پھر کیسے ممکن ہے کہ مظلوم کشمیریوں کو ہندو بنیئے کے ظلم سے نجات ملے۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان کے حکمران اگر مخلص ہو کر اہل کشمیر کیساتھ کاندھا ملاتے تو دنیا کو خطے کے اس پرانے اور قدیم مسئلہ کے حل کیلئے سوچنے پر مجبور کیا جاسکتا تھا۔ یہ جنوبی ایشیا میں ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے، جس کی آگ خطے کو کسی بھی وقت اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، خصوصی طور پر جب پاکستان و ہندوستان دونوں ایٹمی ملک ہیں، ایسے میں یہ بے حد خطرناک اور توجہ کا طالب مسئلہ ہے۔ آج کا دن یعنی 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ مظلوم کشمیری بھائیوں، بہنوں جو ستر سال سے مسلسل ہندو بنیئے کے مظالم کا شکار چلے آ رہے ہیں کیساتھ اظہار یکجہتی کیلئے گھروں سے باہر نکلیں، ان کے ہم آواز بن جائیں، ان کی دبی ہوئی آواز کو دنیا تک پہنچائیں اور ان کیساتھ ہونے والی زیادتیوں کو آشکار کریں۔ بھارت کو یہ بات یاد رکھنا ہوگی کہ کسی بھی قوم کو زیادہ دیر تک محکوم نہیں رکھا جا سکتا، کسی بھی قوم کو صرف جبر اور ظلم کی بنیاد پر محکوم نہیں رکھا جا سکتا۔ ایک نہ ایک دن دنیا کا ضمیر بیدار ہوگا اور مظلوموں کو انکا حق ملے گا، ظالموں کو ان کے انجام سے دوچار ہونا پڑے گا، اہل کشمیر آزادی کا سورج طلوع ہوتا دیکھیں گے اور شہداء کی قربانیاں رنگ لائیں گی۔
توڑ اس دست جفا کش کو یارب جس نے
روحِ آزادیِ کشمیر کو پامال کیا
ہم ہر مظلوم کیساتھ ہیں، چاہے وہ کافر ہی کیوں نہ ہو، مظلوم کا تعلق چاہے فلسطین سے ہو یا کشمیر سے، برما سے ہو یا بحرین سے، حجاز سے ہو یا یمن سے، ہم ان کیساتھ ہیں اور ہر ظالم کے خلاف ہیں، چاہے وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ اہل کشمیر کیلئے ہماری جانیں فدا ہیں، ہمارے وسائل، ہماری تمام تر توانائیاں، ہمارے جذبے، ہماری قوت ان کی آزادی کی جدوجہد کیلئے حاضر ہے اور ہم ہر اس حد تک جا سکتے ہیں، جس کے ذریعے مظلوم کشمیری بھائیوں کو ان کا جائز اور بنیادی حق حاصل ہو،حق خود ارادیت ان کا بنیادی و تسلیم شدہ حق ہے، جو ایک نہ ایک دن انہیں ملے گا۔ یوم یکجہتی کشمیر کے عنوان سے پورے پاکستان میں جلسے، جلوس، سیمینار، کانفرنسز اور ریلیاں نکالی جائیں گی، تاکہ کشمیری بھائی یہ محسوس کریں کہ ہم ان کے پشتبان ہیں، ہم ان کے قدم بہ قدم ساتھ ہیں، عوام ان میں بغیر کسی تعصب اور تفاوت کے شریک ہوں اور یکجہتی کا بھرپور اظہار کریں۔ حبیب جالب نے کشمیر کے حالات کو پیش نظر رکھ جو کلام لکھا، اس کا ایک بند خوب ترجمانی کر رہا ہے۔
یہ شعلہ نہ دب جائے، یہ آگ نہ سو جائے
پھر سامنے منزل ہے، ایسا نہ ہو کھو جائے
ہے وقت یہی یارو، جو ہونا ہے ہو جائے
کشمیر کی وادی میں لہرا کے رہو پرچم
ہر جابر و ظالم کا کرتے ہی چلو سر خم
/۹۸۸/ن۹۴۰