01 March 2017 - 09:01
News ID: 426603
فونت
گلگت بلتستان کے مستضعفین کے ساتھ ظلم و ستم کا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ انہوں نے خود جنگ لڑ کر اپنے علاقوں کو آزاد کروایا تھا، اس لئے ان کے ساتھ ایک آزاد پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اسے مسئلہ کشمیر کا حصہ بنانا ہے تو آزاد جموں و کشمیر جیسی سہولیات گلگت بلتستان کا بھی ناقابل تنسیخ حق ہے۔ آزاد کشمیر کے بجٹ میں، اسمبلی اور حکومت میں گلگت بلتستان کی نمائندگی ہونی چاہیے۔ اگر وہ پاکستانی شہری ہیں تو اول درجے کے شہری ہونے چاہئیں نہ کہ تیسرے درجے کے۔ گلگت بلتستان کے لئے ایک جامع آئینی اور ترقیاتی پیکیج منظور کیا جائے، جس میں آئینی اور قانونی طور پر ان کی مشکوک اور سوتیلی حیثیت کا خاتمہ کرتے ہوئے برابر کے درجے کا شہری تسلیم کیا جائے۔
گلگت پاکستان


تحریر: عرفان علی

گلگت بلتستان ایک ایسا مظلوم خطہ ہے کہ یہاں کے مستضعفین کے دکھ دیگر علاقوں سے وکھرے ہیں۔ اس خطے کے مصائب و مشکلات کیا ہیں، یہ جاننے کے لئے گلگت بلتستان کے علمائے کرام اور خواص سے ایک نشست ہوئی اور اس کے بعد وہاں کے دو آگاہ افراد نے اس خطے کے دگرگوں حالات پر ایک خصوصی نشست میں مزید روشنی ڈالی۔ ان نشستوں اور میرے سوالات کے جو جوابات مجھے پیش کئے گئے، اس نے مجبور کیا کہ میں اس تحریر کا عنوان گلگت بلتستان کے مستضعفین کا نوحہ لکھوں۔ میں پریشان ہوں کہ اس خطے کا موازنہ کس صوبے یا قبائلی ایجنسی سے کروں، کیونکہ وفاق پاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات اور دیگر چار صوبوں کو پاکستان کی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نمائندگی دی جاتی ہے، لیکن گلگت بلتستان کو آج تک ریاست پاکستان نے یہ نمائندگی نہیں دی۔ اگر اسے مسئلہ کشمیر سے نتھی کر دوں تو بھی ریاست پاکستان کے طاقتور یہ وضاحت کر دیں کہ آیا گلگت بلتستان مقبوضہ علاقہ ہے؟ اگر یہ آزاد ہے تو پھر اسے آزاد جموں و کشمیر کے ساتھ ملا کر ان سب کو ایک انتظامی یونٹ بنانے سے کیوں گریز کیا گیا؟ آزاد کشمیر کی اسمبلی میں اسے کیوں نمائندگی نہیں دی گئی، آزاد کشمیر کے صدور اور وزیراعظم میں سے آج تک یہاں کا کوئی فرد کیوں منتخب نہیں کیا گیا؟ پھر اسے مقبوضہ کشمیر کی طرح کیوں اور کس نے مظلوم بنایا؟ گلگت بلتستان کی آئینی و قانونی حیثیت کیا ہے؟ ایک صدارتی حکم کے تحت بننے والا ایک کھوکھلا اور نمائشی برائے نام صوبہ؟ اگر یہ واقعاً صوبہ ہے تو اسے مکمل انتظامی صوبے کا درجہ کیوں نہیں دیا جا رہا؟ اس خطے کے ساتھ اس سے بڑی ناانصافی اور کیا ہوگی۔؟

پاکستان کی مقننہ میں اسے نمائندگی حاصل نہیں، یعنی قانون سازی میں اسے شریک ہی نہیں کرنا۔ پاکستان میں انتظامی یونٹوں میں مالیات کی تقسیم قومی مالیاتی کمیشن یعنی این ایف سی کے تحت ہوتی ہے اور اس کمیشن کے ذریعے این ایف سی ایوارڈ میں تفصیلات طے کی جاتی ہیں کہ کس صوبے کو کتنا حصہ ملے گا۔ اس کمیشن میں گلگت بلتستان کی نمائندگی نہیں۔ پاکستان کی اعلٰی ترین عدلیہ نے الجہاد ٹرسٹ کی وفاق پاکستان کے خلاف پٹیشن کے فیصلے (SCMR 1379) سال 1999ء میں وفاق پاکستان کو حکم دیا کہ چھ ماہ کے اندر شمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) کے عوام کو پاکستانی شہری قرار دیتے ہوئے وہاں کی چیف کورٹ کو ہائیکورٹ کا درجہ دے اور اسے وہاں بنیادی انسانی حقوق کے نفاذ کے لئے آئینی پٹیشن کا دائرہ اختیار بھی دیا جائے۔ گلگت بلتستان کا چیف جج بھی گلگت بلتستان سے تعلق نہیں رکھتا۔ چوہدری محمد برجیس طاہر پاکستان کے وزیر برائے امور کشمیر و گلگت بلتستان ہی اس خطہ مظلوم پر نگران ہیں۔ گورنر یا وزیراعلٰی بنانے کا سلسلہ بھی 2009ء کے صدارتی حکمنامے کے بعد شروع ہوا۔ پہلا گورنر بھی گلگت بلتستان سے تعلق نہیں رکھتا تھا یعنی قمر زمان کائرہ۔ چوہدری برجیس طاہر بھی گلگت بلتستان کے گورنر رہ چکے ہیں۔ کیا پاکستان کے کسی بھی صوبے میں کسی گلگتی یا بلتستانی کو گورنر یا وزیراعلٰی بننے کا شرف بخشا گیا ہے۔؟

آئینی طور پر گلگت بلتستان چوں چوں کا مربہ بنا دیا گیا۔ پھر سی پیک منصوبے کی وجہ سے چین کی جانب سے دباؤ بڑھا تو اس بدقسمت خطے کے درجے کو بڑھانے کے لئے کمیٹی پچھلے سال بنی۔ پاکستان میں مرکزی حکومت نواز لیگ کی تھی تو گلگت بلتستان کو بھی نواز لیگی وزیراعلٰی کا تحفہ دیا گیا۔ کہنے کو حافظ لیکن مذہبی اجتماعات پر سیلیکٹیو پابندی لگا دی۔ تعصب کا یہ عالم کہ یمن کے مظلوموں کے حق میں ریلی نکالنے والوں پر مقدمات قائم کر دیئے اور آل سعود کی حمایت میں ریلیاں اور اجتماعات کرنے والے جوں کے توں مادر پدر آزاد۔ معروف عالم دین آغا ضیاءالدین رضوی کے قتل کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو سکیورٹی فورسز کے ذریعے کچلا گیا تھا۔ وہاں فائرنگ سے رینجرز کے بعض اہلکار بھی شہید ہوئے تھے۔ ان شیعہ شہید اہلکاروں کے ورثاء سے ملزمان کا راضی نامہ بھی ہوگیا تھا، کیس تقریباً بند تھا، لیکن حافظ صاحب نے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں اس مقدمہ کو ری اوپن کر دیا۔ نوید حسین جیل میں قید تھا، اس پر الزام لگا دیا گیا کہ اس نے جیل میں رہنے کے باوجود باہر جاکر کسی جج کو قتل کر دیا اور پھر اس جھوٹے الزام میں اسے نہ صرف پھانسی کی سزا سنائی گئی بلکہ اس پر عمل بھی کیا گیا۔ وہ جیل سے باہر کیسے گیا، دوبارہ اندر کیسے آگیا؟ جیل سپرنٹنڈنٹ کو کوئی سزا نہیں دی گئی، کیوں؟ اب مزید بے گناہوں کو سزا دینے کی تیاریاں۔ شہید کون ہوا ایک شیعہ عالم دین، احتجاج کرنے والے شیعہ، شہید ہونے والے اہلکار شیعہ اور اس الزام میں شیعہ مسلمانوں کو ہی قیدی بنا دیا گیا۔

گلگت بلتستان کے مستضعفین پر زمین تنگ کی جا رہی ہے۔ طلباء کو تعلیمی اداروں میں یوم حسین ؑ یا یوم مصطفٰیﷺ برپا کرنے کی اجازت نہیں۔ جو پابندی کے خلاف عمل کرے، اس پر مقدمات اور انہیں جیلوں میں بند کر دیا جاتا ہے۔ کیا انسداد دہشت گردی کے قوانین کا اطلاق پرامن شیعہ مسلمانوں پر ہی ہونا ہے؟ کیا گلگت بلتستان میں بے گناہ انسانوں کو قتل کرنے والے تکفیری دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا؟ کتنے بڑے بڑے سانحات ہوگئے۔ کتنے افراد کو بسوں سے اتار کر چن چن کر شیعہ شناخت پر قتل کر دیا گیا، کہاں ہے قانون، عدالت، وزیراعلٰی؟ کتنے قاتل گرفتار ہوئے، کتنے دہشت گردوں کو سزا سنائی گئی اور کتنے پھانسی پر لٹکے؟ سیاحوں کو قتل کرنے والے تکفیری دہشت گردوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی اب تک۔؟ ڈیموگرافی کی تبدیلی کی سازش پر جنرل ضیاء کے دور میں منظم طریقے سے عمل کیا گیا۔ باہر کے افراد کو یہاں لا کر بسایا جاتا رہا، تاکہ اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر دیا جائے۔ خالصہ سرکار کے عنوان سے زمینوں پر قبضہ کرکے بندر بانٹ کا سلسلہ بھی طویل عرصے سے جاری ہے۔ انتظامیہ کے تعصب کی ایک مثال یہ ہے کہ خالصہ سرکار کے عنوان سے داریل، تانگیر، دیامیر، چلاس میں یہ قانون نافذ نہیں کیا جاتا، یعنی وہاں اس طرح زمینوں پر قبضے نہیں کئے جاتے۔ دیامیر بھاشا ڈیم کے متاثرین کو معاوضہ دیا گیا، لیکن مقپون داس کا نہیں دیا گیا۔ مقپون داس کی 2000 کنال زمین پاکستان کے طاقتور عسکری ادارے کو دے دی گئی، مقامی افراد کو اس کا بھی معاوضہ نہیں دیا گیا۔ ماردور کے علاقے میں 1000 کنال زمین پر پولیس فورس کے ذریعے قبضہ کر لیا گیا۔ اکنامک زون کے نام پر یہ قبضے ہو رہے ہیں۔

تعلیم، صحت، گیس و بجلی کی فراہمی میں بھی اس خطے کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ گیس پائپ لائن یہاں تک بچھائی ہی نہیں گئی۔ بجلی کے بارے میں ہمارے ان دوستوں کی رائے تھی کہ ہم تو دعا کرتے ہیں کہ لوڈشیڈنگ کا نظام ہو، تب بھی قابل برداشت ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اتنی دیر بعد بجلی فراہمی بحال ہو جائے گی، لیکن یہاں تین دن بعد ایک دن بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔ تعلیمی زبوں حالی کا عالم یہ ہے کہ پہلی یونیورسٹی 2002ء میں بنی۔ سرکاری سطح پر میڈیکل و انجینیئرنگ کی تعلیم آج تک گلگت بلتستان میں میسر نہیں۔ پچھلے سال میڈیکل کالج کے قیام کے لئے یہاں کی حکومت اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میٖڈیکل سائنسز کے مابین مفاہمت کی یادداشت پر دستخط ہوئے تھے۔ سی پیک پاکستان میں اسی گلگت بلتستان کے ذریعے داخل ہوگا اور یہی علاقہ پاکستان چین کو ملاتا ہے، لیکن یہی علاقہ سی پیک کے میگا پراجیکٹس میں مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ سرحد کے دوسی طرف لداخ و کرگل کے علاقے ہیں اور بلتستان سے ایک شاہراہ ان علاقوں سے ملاتی ہے، لیکن پاکستان بھارت کشیدہ تعلقات کی وجہ سے یہ راستہ بند کر دیا گیا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کو کرگل لداخ میں اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لئے زیادہ طویل سفر کرنا پڑتا ہے کہ انہیں بھی واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارت اور پھر وہاں سے ایک طویل سفر کے ذریعے کرگل لداخ پہنچنا پڑتا ہے۔ یہاں کے مکینوں کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ اس راستے کی تعمیر نو کرکے اسے کھولا جائے، کیونکہ اگر کشیدہ تعلقات ہی اس بندش کا سبب ہے تو پھر بھارت کے ساتھ واہگہ سرحد بھی بند کر دی جائے۔

یہ علاقہ بجلی کی پیداوار کا سستا ترین ذریعہ بن سکتا تھا، لیکن پاکستان کی بعض حکومتیں متنازعہ کالا باغ ڈیم کے چکر میں پڑی رہیں اور بہت بعد میں انہیں دیامیر بھاشا ڈیم کا خیال آیا، ورنہ یہاں سے بہت پہلے اتنی بجلی پیدا کر لی جاتی کہ بجلی کا بحران پیدا نہ ہوتا۔ آزاد جموں و کشمیر کے صدر نے حال ہی میں کراچی میں تاجروں کو بتایا کہ ان کے یہاں سرپلس بجلی ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر سے نتھی کرنے والے آزاد جموں و کشمیر کی سرپلس یعنی اضافی بجلی کو گلگت بلتستان کیوں نہیں پہنچا دیتے؟ گلگت بلتستان کے مستضعفین دہرے عذاب میں مبتلا کر دیئے گئے ہیں۔ ریاست پاکستان میں موجود متعصب طاقتوروں نے وہاں بھی مقامی آبادی کو سوتیلوں اور سگوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ سوتیلوں میں نوید حسین جیسے لوگ ہیں، جن کا عدالتی قتل کر دیا جاتا ہے۔ سوتیلوں میں وہ ہیں کہ جو یوم حسین ؑ منائیں یا یمن پر سعودی جنگ کی مخالفت میں مظاہرہ کریں تو ان پر مقدمات قائم کرد یئے جاتے ہیں، گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ انہیں زمینوں سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ ان سوتیلوں میں سے اگر سانحہ چلاس، لولو سر وغیرہ میں چن چن کر شہید کر دیئے جائیں تو کسی دہشت گرد کو سزائے موت نہیں دی جاتی۔ آغا ضیاء الدین رضوی بھی ان سوتیلوں میں ہیں، جن کے قاتل آج تک کیفر کردار تک نہیں پہنچائے گئے۔ سگے وہ ہیں کہ ان کی زمینوں پر قبضہ نہیں کیا جاتا۔ ان کے علاقے اقتصادی زون میں آجائیں تو انہیں معاوضہ دیا جاتا ہے۔ وہ سگے ہیں کیونکہ وہ یمن میں مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے آل سعود کی بادشاہت کے دفاع میں ریلیاں نکالتے ہیں، نہ ان پر مقدمہ بنتا ہے، نہ گرفتار ہوتے ہیں نہ جیل بھیجا جاتا ہے۔

گلگت بلتستان کے مستضعفین کے ساتھ ظلم و ستم کا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ انہوں نے خود جنگ لڑ کر اپنے علاقوں کو آزاد کروایا تھا، اس لئے ان کے ساتھ ایک آزاد پالیسی مرتب کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اسے مسئلہ کشمیر کا حصہ بنانا ہے تو آزاد جموں و کشمیر جیسی سہولیات گلگت بلتستان کا بھی ناقابل تنسیخ حق ہے۔ آزاد کشمیر کے بجٹ میں، اسمبلی اور حکومت میں گلگت بلتستان کی نمائندگی ہونی چاہیے۔ اگر وہ پاکستانی شہری ہیں تو اول درجے کے شہری ہونے چاہئیں نہ کہ تیسرے درجے کے۔ گلگت بلتستان کے لئے ایک جامع آئینی اور ترقیاتی پیکیج منظور کیا جائے، جس میں آئینی اور قانونی طور پر ان کی مشکوک اور سوتیلی حیثیت کا خاتمہ کرتے ہوئے برابر کے درجے کا شہری تسلیم کیا جائے۔ وہاں مزید یونیورسٹیاں، میڈیکل اور انجینیئرنگ یونیورسٹیاں اور پروفیشنل کالجز، ٹیکنیکل یونیورسٹی و کالجز، صحت کی جدید ترین سہولیات سے مزین بڑے بڑے اسپتال اس ترقیاتی پیکیج کے ذریعے ان منصوبوں پر کام شروع کیا جائے اور ہنگامی بنیادوں پر پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ گلگت بلتستان کی عدلیہ کے جج اور سربراہ وہیں کے مقامی ہونے چاہئیں اور سپریم کورٹ آف پاکستان واضح طور پر اس کی حیثیت تسلیم کرے۔ گلگت بلتستان کو ایک وفاقی وزیر کے ماتحت چلانے کی پالیسی ترک کی جائے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو فرقہ وارانہ بنیادوں اور سوتیلوں اور سگوں میں تقسیم کرنے کی غیر انسانی روش ختم کی جائے۔ بے گناہ قید کئے جانے والے اس خطے کے غیرت مند فرزندوں کو جھوٹے مقدمات سے باعزت بری کیا جائے۔

شیعہ علمائے کرام شیخ مرزا علی، شیخ علی حیدر، نیئر مصطفوی، شیخ فدا عابدی اور ان جیسے دیگر علمائے کرام اور الیاس صدیقی سمیت سبھی شیعہ زعماء کے نام فورتھ شیڈول سے خارج کئے جائیں۔ ایران سے ایک اور گیس پائپ لائن کا معاہدہ کرکے گلگت بلتستان تک گیس پائپ لائن بچھائی جائے، تاکہ گلگت بلتستان تک گیس کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے۔ اس منصوبے میں چین کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے کہ یہی پائپ لائن چین تک چلی جائے، یعنی ایران پاکستان چین گیس پائپ لائن منصوبہ۔ ماضی میں اس پر غیر رسمی بات چیت ہوتی رہی ہے۔ گلگت بلتستان میں اہل مقامی افراد کو صرف اور صرف اہلیت کی بنیاد پر سرکاری نوکریوں میں ملازمتیں دی جائیں۔ یہاں بہت سے کارخانوں اور دیگر منصوبوں کی ضرورت ہے، جو مقامی سطح پر روزگار کی فراہمی کا ذریعہ بن سکیں۔ یہاں کے مقامی افراد کو اپنے آئینی و اقتصادی حقوق کے لئے متحد، متفق اور منظم ہوکر مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ یعنی یہاں کے عوام نہ تو مسلکی بنیادوں پر تقسیم ہوں، نہ ہی لسانی بنیادوں پر۔ ان دونوں طرح کی تقسیم سے بچتے ہوئے انہیں ریاست پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر کی قیادتوں سے مکالمہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ گلگت بلتستان کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق کا ہے، کسی مسلک یا لسانی گروہ کا نہیں۔ یہ ایک اجتماعی مفاد ہے تو اس کے حصول کے لئے ایک اجتماعی جدوجہد ہی واحد آپشن ہے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰

منبع:‌ اسلام ٹائمز

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬