12 April 2017 - 13:46
News ID: 427450
فونت
شیخ مفید ؒ فرماتے ہیں : امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے اندر جمعہ کے دن تیرہ رجب سن ۳۰ عام الفیل کو پیدا ہوئے ۔ پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کا نام اللہ کے نام پر علی رکھا ۔ حضرت ابو طالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام (ص) سے عرض کیا کہ ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا ۔
حرم حضرت  امیر المومنین علی (ع)

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شیخ مفید ؒ فرماتے ہیں : امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے اندر جمعہ کے دن تیرہ رجب سن 30 عام الفیل کو پیدا  ہوئے ۔ پیغمبر اسلام (ص) نے آپ کا نام اللہ کے نام پر علی رکھا ۔ حضرت ابو طالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام (ص) سے عرض کیا کہ ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا۔

آپ کے مشہور القاب امیر المومنین ، مرتضی، اسد اللہ، ید اللہ، نفس اللہ، حیدر، کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں۔ حضرت علی علیہ السّلام کی مشہور کنیت ابو الحسن و ابو تراب ہیں۔

حضرت علی (ع) ھاشمی خاندان کے وه پہلے فرزند ہیں جن کے والد اور و الده دونوں ہاشمی ہیں ۔ آپ کے والد ابو طالب بن عبد المطلب بن ہاشم ہیں اور ماں فاطمه بنت اسد بن ہاشم ہیں ۔  ہاشمی خاندان قبیلہ قریش میں اور قریش تمام عربوں میں اخلاقی فضائل کے لحاظ سے مشہور و معروف تھے ۔ جواں مردی ، دلیری ، شجاعت اور بہت سے فضائل بنی ہاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت علی (ع) کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے۔

جب حضرت علی (ع) کی ولادت کا وقت قریب آیا تو فاطمه بنت اسد کعبه کے پاس آئیں اور آپنے جسم کو اس کی دیوار سے مس کر کے عرض کیا: پروردگارا ! میں تجھ پر، تیرےنبیوں پر، تیری طرف سے نازل شده کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے، آپنے جد ابراہیم (ع) کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ہوں ۔پروردگارا ! تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچه کے حق کا واسطه جو میرے شکم میں موجود ہے، اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما ۔  ابھی ایک لمحہ بھی نہیں گزرا تھا که کعبہ کی جنوب مشرقی دیوار ، عباس بن عبد المطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافته ہوئی، فاطمه بنت اسد کعبہ میں داخل ہوئیں اور دیوار دوباره مل گئی ۔ فاطمه بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے اس سب سے مقدس مکان میں اللہ تعالی کی مہمان رہیں اور تیره رجب سن ۳۰/ عام الفیل کو بچہ کی ولادت ہوئی ۔ ولادت کے بعد جب فاطمه بنت اسد نے کعبہ سے باہر آنا چاہا تو دیوار دو باره شگافتہ ہوئی، آپ کعبه سے باہر تشریف لائیں اور فرمایا :” میں نے غیب سے یہ پیغام سنا ہے که اس بچے کا "  نام علی " رکھنا  ۔

بچپن ا ور تربیت

حضرت علی (ع) تین سال کی عمر تک اپنے والدین کے پاس رہے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کے پاس آگئے۔ کیونکہ جب آپ تین سال کے تھےاس وقت مکہ میں بہت سخت قحط پڑا ۔جس کی وجہ سے رسول الله (ص) کے چچا ابو طالب کو اقتصادی مشکل کابہت سخت سامنا کرنا پڑا ۔ رسول الله (ص) نے آپنے دوسرے چچا عباس سے مشوره کرنے کے بعد یہ طے کیا کہ ہم میں سے ہر ایک، ابو طالب کے ایک ایک بچے کی کفالت اپنے ذمہ لے لے تاکہ ان کی مشکل آسان ہو جائے ۔ اس طرح عباس نے جعفر اور رسول الله (ص) نے علی (ع) کی کفالت اپنے ذمہ لے لی ۔حضرت علی (ع) پوری طرح سے پیغمبر اکرم (ص) کی کفالت میں آگئے اور حضرت علی علیہ السّلام کی پرورش براهِ راست حضرت محمد مصطفےٰ (ص) کے زیر نظر ہونے لگی ۔ آپ نے انتہائی محبت اور توجہ سے آپنا پورا وقت، اس چھوٹے بھائی کی علمی اوراخلاقی تربیت میں صرف کیا. کچھ تو حضرت علی (ع) کے ذاتی جوہر اور پھراس پر رسول خدا  جیسے بلند مرتبہ مربیّ کافیض تربیت ، چنانچہ علی علیہ السّلام دس برس کے سن میں ہی اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ جب پیغمبر اسلام (ص) نے رسالت کا دعوی کیا، تو آپ نے ان کی تصدیق فرمائی ۔ آپ ہمیشه رسول الله (ص) کے ساتھ رہتے تھے، یہاں تک کہ جب پیغمبر اکرم (ص) شہر سے باہر، کوه و بیابان کی طرف جاتے تھے تو آپ کو آپنے ساتھ لے جاتے تھے ۔  

پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت اور حضرت علی (ع)

جب حضرت محمد مصطفے ( ص ) چالیس سال کے ہوئے تو اللہ نے انہیں عملی طور پر اپنا پیغام پہنچانے کے لئے معین فرمایا ۔ اللہ کی طرف سے پیغمبر (ص) کو جو یہ ذمہ داری سونپی گئی ، اسی کو بعثت کہتے ہیں .

حضرت محمد (ص) پر وحی الٰھی کے نزول و پیغمبری کے لئے انتخاب کے بعدکی تین سال کی مخفیانہ دعوت کے بعد بالاخرخدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی اور رسول الله (ص) کو عمومی طور پر دعوت اسلام کا حکم دیا گیا ۔

اس دوران پیغمبراکرم (ص) کی الٰھی دعوت کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے والے تنہا حضرت علی (ع) تھے۔ جب رسول الله (ص) نے اپنے اعزاء و اقرباء کے درمیان اسلام کی تبلیغ کے لئے انہیں دعوت دی تو آپ کے ہمدرد و ہمدم، تنہا حضرت علی (ع) تھے ۔

اس دعوت میں پیغمبر خدا (ص) نےحاضرین سے سوال کیا کہ آپ میں سے کون ہے جو اس راه میں میری مدد کرے اور آپ کے درمیان میرا بھائی، وصی اور جانشین ہو؟

اس سوال کا جواب فقط حضرت علی (ع) نے دیا :” اے پیغمبر خدا ! میں اس راه میں آپ کی نصرت کروں گا ۔ پیغمبر اکرم (ص) نے تین مرتبه اسی سوال کی تکرارکی اور تینوں مرتبہ حضرت علی (ع) کا جواب سننے کے بعد فرمایا :

اے میرے خاندان والوں ! جان لو که علی میرا بھائی اور میرے بعد تمھارے درمیان میرا وصی و جانشین ہے ۔

علی (ع) کے فضائل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ (ع) رسول الله (ص) پر ایمان لانے والے سب سے پہلے شخص ہیں ۔ اس سلسلے میں ابن ابی الحدید لکھتے ہیں :

" بزرگ علماء اور گروه معتزلہ کے متکلمین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہے کہ علی بن ابی طالب (ع) وه پہلے شخص ہیں جو پیغمبر اسلام پر ایمان لائے اور پیغمبر خدا (ص) کی تصدیق کی "۔
رسول اسلام کی بعثت، زمانہ , ماحول, شہر اور اپنی قوم و خاندان کے خلاف ایک ایسی مہم تھی ، جس میں رسول کا ساتھ دینے والا کوئی نظر نہیں آتا تھا ۔ بس ایک علی علیہ السّلام تھے کہ جب پیغمبر نے رسالت کا دعویٰ کیا تو انہوں نے سب سے پہلے ان کی تصدیق کی اور ان پر ایمان کااقرارکیا . دوسری ذات جناب خدیجۃ الکبریٰ کی تھی، جنھوں نے خواتین کے طبقہ میں سبقتِ اسلام کا شرف حاصل کیا۔

پیغمبر کادعوائے رسالت کرنا تھا کہ مکہ کا ہر آدمی رسول کادشمن نظر آنے لگا . وہی لوگ جو کل تک آپ کی سچائی اورامانتداری کادم بھرتے تھے اج آپ کو ( معاذ الله )  دیوانہ، جادو گر اور نہ جانے کیا کیا کہنے لگے۔ اللہ کے رسول کے راستوں میں کانٹے بچھانے لگے، انہیں پتھر مارنے لگے اور ان کے سر پر کوڑا کرکٹ پھینکا جانے لگا. اس مصیبت کے وقت میں رسول کے شریک صرف اور صرف حضرت علی علیہ السّلام تھے، جو بھائی کاساتھ دینے میں کبھی بھی ہمت نہیں ہار تے تھے ۔ وہ ہمیشہ محبت ووفاداری کادم بھرتے رہےاور ہرموقع پر رسول کے سینہ سپر رہے۔

یہاں تک کہ وہ وقت بھی آیا جب مخالف گروہوں نے انتہائی سختی کے ساتھ یہ طے کرلیا کہ پیغمبر اور ان کے تمام گھر والوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ حالات اتنے خراب تھے کہ جانوں کے لالے پڑ گئے تھے .حضرت ابو طالب علیہ السّلام نے اپنے تمام ساتھیوں کو حضرت محمد مصطفےٰ سمیت ایک پہاڑ کے دامن میں محفوظ قلعہ میں بند کردیا۔ وہاں پر تین برس تک قید وبند کی زندگی بسر کرنی پڑی . کیونکہ اس دوران ہر رات یہ خطرہ رہتا تھا کہ کہیں دشمن شب خون نہ مار دے . اس لئے ابو طالب علیہ السّلام نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ وہ رات بھر رسول کو ایک بستر پر نہیں رہنے دیتے تھے، بلکہ کبھی رسول کے بستر پر جعفر کو اور جعفر کے بستر پر رسول کو کبھی عقیل کے بستر پر رسول کو اور رسول کے بستر پر عقیل کو کبھی علی کے بستر پر رسول کو اور رسول کے بستر پر علی علیہ السّلام کو لٹاتے رہتے تھے. مطلب یہ تھا کہ اگر دشمن رسول کے بستر کا پتہ لگا کر حملہ کرنا چاہے تو میرا کوئی بیٹا قتل ہوجائے مگر رسول کا بال بیکا نہ ہونے پائے . اس طرح علی علیہ السّلام بچپن سے ہی فدا کاری اور جان نثاری کے سبق کو عملی طور پر دہراتے رہے ./۹۸۸/ ن۹۴۰

منبع‌‌: مھر نیوز

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬