‫‫کیٹیگری‬ :
06 May 2017 - 12:29
News ID: 427938
فونت
عدالتی ذرائع کے مطابق فیملی سول عدالتوں میں خلع کی بنیاد پر طلاق کے دعوے دائر کرنے کی شرح میں غیرمعمولی اضافہ ہونے لگا ہے۔ طلاق، خرچے اور جہیز واپسی کے بڑھتے ہوئے دعوؤں پر سیشن جج لاہور عابد حسین قریشی نے فیملی عدالتوں کی تعداد ۱۹ کر دی ہے۔ عدالتوں میں زیادہ تر دعوے خلع کی بنیاد پر دائر کئے جا رہے ہیں جس میں خواتین کا کہنا ہے کہ وہ اپنا حق مہر چھوڑتی ہیں، لہذا ان کو طلاق دلوائی جائے۔ عدالتوں نے اسی بنیاد پر ایک ماہ میں ۳۰۰ خواتین کو طلاق کی ڈگریاں جاری کی ہیں۔
طلاق

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لاہور کی فیملی سول عدالتوں میں خلع کی بنیاد پر طلاق کے دعوے دائر کرنے کی شرح میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، ایک ماہ میں 300 خواتین نے طلاق کی ڈگریاں حاصل کر لیں۔ عدالتی ذرائع کے مطابق فیملی سول عدالتوں میں خلع کی بنیاد پر طلاق کے دعوے دائر کرنے کی شرح میں غیرمعمولی اضافہ ہونے لگا ہے۔ طلاق، خرچے اور جہیز واپسی کے بڑھتے ہوئے دعوؤں پر سیشن جج لاہور عابد حسین قریشی نے فیملی عدالتوں کی تعداد 19 کر دی ہے۔ عدالتوں میں زیادہ تر دعوے خلع کی بنیاد پر دائر کئے جا رہے ہیں جس میں خواتین کا کہنا ہے کہ وہ اپنا حق مہر چھوڑتی ہیں، لہذا ان کو طلاق دلوائی جائے۔ عدالتوں نے اسی بنیاد پر ایک ماہ میں 300 خواتین کو طلاق کی ڈگریاں جاری کی ہیں۔ سول عدالتوں سے طلاق کی ڈگریاں جاری ہونے پر خواتین نے یونین کونسل سے طلاق کی ڈگری کو موثر کرنے کیلئے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔

آئینی و قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ فیملی لاء کے مطابق سول کورٹ سے وصول کی جانے والی ڈگری کو موثر کرانے کیلئے یونین کونسل سے رابطہ کرنا ضروری ہے یہاں پر ایک موقع مصالحت کا بھی دیا جاتا ہے اگر مصالحت ہو جاتی ہے تو ڈگری ختم ہو جاتی ہے ورنہ یونین کونسل طلاق کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیتی ہے۔ دوسری جانب ممتاز عالم دین علامہ محمد رضا عابدی نے "اسلام ٹائمز" سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فقہ کے اعتبار سے عدالت سے لی جانیوالی طلاق موثر نہیں ہوتی بلکہ طلاق کے اجراء کیلئے نکاح کی طرح باقاعدہ صیغہ پڑھا جاتا ہے۔ انہوں نے طلاق کی شرح میں اضافے کی وجوہات کے حوالے سے کہا کہ اس کی ایک بڑی وجہ میڈیا ہے جو خواتین کی برین واشنگ میں مصروف ہے اور خواتین کو یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ اگر آپ کا اپنے شوہر کیساتھ گزارہ نہیں فوراً طلاق لے لیں۔

انہوں نے کہا کہ میڈیا میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ طلاق لینے والی عورت کو پھر معاشرے میں قبول کون کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ طلاق یافتہ عورت کی معاشرے میں کوئی قدر نہیں ہوتی، اگر وہ دوسری جگہ شادی کر بھی لے تو اسے یہ طعنے ہی نہیں جینے دیتے کہ اگر آپ اچھی ہوتی تو پہلے شوہر سے طلاق کیوں لیتیں۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں سب سے زیادہ بچے متاثر ہوتے ہیں جو والدین کی علیحدگی کے باعث بہتر تربیت سے رہ جاتے ہیں اور ایسے ہی بچے معاشرے میں جرائم کی جانب چلے جاتے ہیں۔ علامہ محمد رضا عابدی نے کہا اس حوالے سے والدین کو سوچنا چاہیے کیوں کہ بچے کیلئے ماں اور باپ دونوں ضروری ہیں، ان میں سے اگر کوئی ایک بھی میسر نہیں تو بچوں میں احساس کمتری پیدا ہو جاتا ہے جو انہیں جرائم کی جانب لے جاتا ہے اور ایسے بچے سنگدل بھی بن جاتے ہیں۔

ممتاز ماہر نفسیات محمد اسجد کا کہنا تھا کہ والدین کو حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے کہ مصالحت ہو جائے، کیوں کہ ان کے بچے معاشرے کا حصہ ہیں اور اگر ان کی علیحدگی ہوتی ہے تو اس سے بچوں پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردی میں ملوث یا خودکش بمبار بچوں کا جب ذہنی معائنہ کیا گیا تو ان میں اکثریت ایسے بچوں کی تھی جن کے والدین علیحدہ ہو چکے تھے اور ان کی سرپرستی کرنیوالا کوئی نہیں تھا، سرپرست نہ ہونے کے باعث وہ ایسے ہاتھوں میں چلے گئے جنہوں نے انہیں دہشتگرد بنا دیا۔ محمد اسجد کا کہنا تھا کہ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کو روکنا ہوگا، یہ اللہ کے نزدیک بھی ناپسندیدہ عمل ہے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬