رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عالمی مجلس ادیان پاکستان کے زیر اہتمام ’’صوبائی بین المسالک امن کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں پاکستان بھر سے مختلف مکاتب فکر کے علماء نے شرکت کی۔
کانفرنس میں شرکت کرنیوالوں میں جماعت اسلامی پاکستان کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے ڈائریکٹر مذہبی امور اور جامع مسجد اللہ اکبر کے خطیب علامہ ڈاکٹر سرفراز اعوان، بادشاہی مسجد کے خطیب مولانا عبدالخبیر آزاد، علامہ پیر سید محفوظ مشہدی، علامہ سید ضیاء اللہ شاہ بخاری، ڈاکٹر عبدالغفور راشد، حافظ کاظم رضا نقوی، پیر شفاعت رسول، مولانا محمد خان لغاری، مفتی سید عاشق حسین شاہ، مولانا محمد اسلم نقشبندی، حافظ محمد نعمان حامد، ڈاکٹر شاہدہ پروین، مولانا محمد عاصم مخدوم، ممبر قومی اسمبلی اور لیگی رہنما ڈاکٹر رامیش وینکوانی، رکن پنجاب اسمبلی عظمیٰ بخاری، پارلیمانی سیکرٹری چودھری امجد علی جاوید اور معروف تجزیہ نگار اور اینکر پرسن محمد اجمل جامی سمیت دیگر شامل تھے۔
عالمی مجلس ادیان پاکستان نے حکومت سے متفقہ طور پر مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ قانون توہین رسالت (ص) کا غلط استعمال کرنیوالے کو بھی پھانسی کی سزا ہونی چاہئے، میڈیا رپورٹنگ کے دوران اعتدال اور توازن برقرار رکھے اور رمضان المبارک کے پروگراموں کو ’’فیسٹول‘‘ میں تبدیل کرنے سے گریز کیا جائے، جبری شادی بل کو علماء کی مشاورت کے بعد ملک بھر میں نافذ کیا جائے، مذہب کے نام پر انتہا پسندی، دہشتگردی اور قتل و غارت گری خلاف دین جبکہ آئین پاکستان کے علاوہ کسی بھی فرقے اور مسلک کے ماننے والے کو کافر قرار دینا خلافِ قانون ہے، اس سے اجتناب کیا جائے،شرانگیز مواد کی انٹرنیٹ یا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور ایسا کرنیوالوں کو قانون کی گرفت میں لیا جائے۔
مسلم لیگی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رامیش وینکوانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں امن اور بھائی چارے کے فروغ کیلئے یہ کانفرنس فقید المثال اہمیت کی حامل ہے، اس طرح کی کانفرنسیں ملک بھر میں ہونی چاہیں جس کیلئے حکومت بھی تعاون کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ توہین رسالت(ص) قانون کو مزید مؤثر بنایا جائے تاکہ مشال خان جیسے واقعات سے بچا جا سکے، اس قانون کو ہونا چاہیے لیکن اس کا غلط استعمال کرنیوالے کو بھی پھانسی کی سزا ہونی چاہیے، تاکہ مشال خان جیسے واقعات سے بچا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جبری شادی بل جو کہ گورنمنٹ سے واپس لے لیا ہے یہ خالصتاً ہندوؤں کیلئے قانون ہے اس کو علماء کی مشاورت کے بعد نافذ کر دیا جائے۔ ڈاکٹر علامہ سرفراز اعوان نے کہا کہ تمام مکاتب فکر باہمی محبت، رواداری اور افہام و تفہیم کی فضا قائم کرنے کیلئے خلوصِ دل سے کوششیں کریں، اس حوالے سے علمائے کرام کا کردار بہت اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا رپورٹنگ کے دوران توازن اور اعتدال برقرار رکھے تاکہ کسی فرقے کی دل شکنی نہ ہو اور رمضان کے پروگراموں کو بھی ’’رمضان فیسٹیول‘‘ نہ بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ عالمی مجلس ادیان نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کا جو بیڑا اٹھایا ہے، اس کیلئے ہم سب آپ کیساتھ ہیں۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عالمی مجلس ادیان حافظ محمد نعمان حامد نے کہا کہ ڈبلیو سی آر پاکستان میں بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی اور مکالمہ سمیت محبت اور امن کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے اور پرُامن بقائے باہمی کے فروغ کیلئے گراں قدر خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ بین المسالک امن کانفرنس میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء کی مشاورت کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ مذہب کے نام پر انتہا پسندی، دہشتگردی قتل و غارت گری خلاف دین اور آئینِ پاکستان کی وضاحت کے علاوہ کسی بھی فرقے اور مسلک کے ماننے والے کو کافر قرار دینا خلافِ قانون ہے، اس سے اجتناب کیا جائے گا۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ کسی بھی مسلم یا غیر مسلم کو ماورائے عدالت واجب القتل قرار نہیں دیا جائے گا۔ شرانگیز مواد کی اشاعت، تقسیم اور ترسیل نہیں کی جائے گی۔ شرانگیز مواد کی انٹرنیٹ یا سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مکمل پابندی عائد کی جائے اور ایسا کرنیوالوں کو قانون کی گرفت میں لیا جائے۔ مسلکی تنازعات کو باہم مشاورت، افہام و تفہیم اور سنجیدہ مکالمے کے اصولوں کی روشنی میں حل کیا جائے گا۔ تمام مذاہب اور مسالک کی مقتدر و مقدس شخصیات اور کتب کا ادب و حترام ملحوظ رکھا جائے گا۔/۹۸۸/ ن۹۴۰