رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام علیہ السلام نے چوبیسویں رمضان کی دعا میں فرمایا: اَللَّهُمَّ اِنّى اَسْئَلُكَ فیهِ ما یُرْضیكَ وَ اَعُوذُبِكَ مِمَّا یُؤْذیكَ وَ اَسْئَلُكَ التَّوْفیقَ فیهِ لاَنْ اُطیعَكَ وَ لا اَعْصِیَكَ یا جَوادَ السَّآئِلینَ. [۱] ترجمہ : خدایا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس میں اس چیز کا جو تجھ کو پسند ہو، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے جو تجھ کو اذیت دے، اور میں تجھ سے سوال کرتا ہوں توفیق کا تاکہ میں تیری اطاعت کروں، اور معصیت نہ کروں، اے سوال کرنے والوں کو عطا کرنے والے۔
ہر مسلمان اپنے لحاظ سے اعمال کو انجام دیتا ہے تاکہ ان اعمال کے ذریعہ خدا کی رضایت کو حاصل کرے لیکن یہاں پر ہر مسلمان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کونسے اعمال ہیں جن کی وجہ سے خدا راضی ہوتا ہے، اس کے جواب میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہر وہ کام جس کا خدا نے حکم دیا ہے اسے انجام دیا جائے تو خدا ان سے راضی ہوجائے گا، مثال کے طور پر، مؤمنین کی مدد کرنا، نماز کو قائم کرنا، یتیموں کی سرپرستی کرنا، اور ان جیسی سب چیزوں کے ذریعہ، جن کا خدا نے حکم دیا ہے، خدا کی رضا کو حاصل کیا جاسکتا ہے، جس کے بارے میں امام زین العابدین (علیہ السلام) فرما رہے ہیں: « مَنْ عَمِلَ بِمَا افْتَرَضَ اللَّهُ عَلَيْهِ فَهُوَ مِنْ خَيْرِ النَّاس[۲] جو کوئی ان چیزوں کو انجام دے جن کو خدا نے واجب قرار دیا ہے وہ بہترین لوگوں میں سے ہے»۔
اور جن کاموں کے کرنے کے لئے خدا نے منع کیا ہے ان کو انجام نہ دیا جائے۔ مثال کے طور پر جھوٹ بولنا، غیبت کرنا، لوگوں پر تہمت لگانا، فحاشی کرنا وغیرہ، جب انسان اس طرح کے کاموں کو انجام دیتا ہے تو خداوند عالم کے عذاب کا شکار ہوتا ہے، جس کے بارے میں رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرما رہے ہیں: « إِنَ اللَّهَ حَرَّمَ الْجَنَّةَ عَلى كُلِّ فَحَّاشٍ بَذِيءٍ، قَلِيلِ الْحَيَاءِ، لَايُبَالِي مَا قَالَ، وَ لَامَا قِيلَ لَه[۳] خدا نے جنت کو ہر اس شخص پر حرام قرار دیا ہے جو فحاشی(گالی دینا) کرتا ہے، اور جس کی حیاء کم ہوگئی ہے، اور اسے یہ فکر نہیں ہوتی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور اس کے بارے میں کیا کہا جارہا ہے»۔ یہ ان بعض چیزوں میں سے ہے جن کو خدا نے انجام دینے سے منع کیا ہے۔
اسی لئے ہم آج کی دن اپنے پرودگار سے دعا مانگ رہے ہیں: « اَللَّهُمَّ اِنّى اَسْئَلُكَ فیهِ ما یُرْضیكَ وَ اَعُوذُبِكَ مِمَّا یُؤْذیكَ؛ خدایا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اس میں اس چیز کا جو تجھ کو پسند ہو، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے جو تجھ کو اذیت دے»۔
اگر انسان سعادت کو حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کو چاہئے کہ وہ خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرے کیونکہ رسول، خدا کی جانب سے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں جو اللہ کے بتائے ہوئے احکام کو لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں، اگر کسی نے رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی اطاعت نہیں کی تو گویا اس نے خدا کے احکام کی اطاعت نہیں کی اور جس نے خدا کی اطاعت نہیں کی وہ شیطان کی پیروری کرنے ولوں میں سے ہے اور جو شیطان کی پیروی کرتا ہے وہ کافر ہے، جس کے بارے میں خود خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرمارہا ہے: « قُلْ أَطِيعُواْ اللّهَ وَالرَّسُولَ فإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْكَافِرِينَ[سورۂ آل عمران، آیت:۳۲] کہہ دیجئے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو کہ جو اس سے روگردانی کرے گا تو خدا کافرین کو ہرگز دوست نہیں رکھتا ہے»۔ جو کوئی اللہ کے رسول کی اطاعت نہ کرے وہ کافروں میں سے ہے اور کافر، خدا کی رحمت سے دور ہوتا ہے اور خدا اس کی ہدایت نہیں کرتا، جس کے بارے میں خدا ارشاد فرما رہا ہے: « وَاللّهُ لاَ يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ[سورۂ بقرہ،آیت:۲۶۴] اللہ، کافروں کی ہدایت بھی نہیں کرتا»۔
اسی لئے ہم دعا مانگ رہے ہیں: « وَ اَسْئَلُكَ التَّوْفیقَ فیهِ لاَنْ اُطیعَكَ وَ لا اَعْصِیَكَ یا جَوادَ السَّآئِلینَ؛ اور میں تجھ سے سوال کرتا ہوں توفیق کا تاکہ میں تیری اطاعت کروں، اور معصیت نہ کروں، اے سوال کرنے والوں کو عطا کرنے والے»۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے:
[۱]۔ ابراہیم ابن علی عاملی الکفعمی، المصباح للکفعمی، دار الرضی(زاھدی)، ۱۴۰۵ق، ص۶۱۶۔
[۲]۔ محمد بن يعقوب كلينى، الكافي، دار الكتب الإسلامية، ۱۴۰۷ ق، ج۲ ص۸۱.
[۳]۔ الكافي, ج۴، ص۸.
/۹۸۸/ ن۹۴۰