رسا نیوز ایجنیس کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ اصفہان کے سربراہ حضرت آیت الله حسین مظاهری نے اصفہان کے مسجد امیرالمؤمنین (ع) میں منعقدہ قرآن کریم کے اپنے تفسیری جلسہ میں بیان کیا : گناہ کا حساب ایک طرح کے عملی کفر میں ہوتا ہے ۔
انہوں نے سورہ مبارکہ بقرہ کی ایک سو انتالیسویں آیت «قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِی اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّکُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَکُمْ أَعْمَالُکُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ» کی تلاوت کرتے ہوئے وضاحت کی : اس ایات کے مطالب کئی گذشتہ آیات کے مشابہ ہے کہ جس کے بارے میں مفصل گفت و گو ہو چکی ہے ؛ یہ آیت بھی گذشتہ آیات کی طرح انسان کو دین داری اور خداوند عالم سے مستحکم تعلق کی دعوت دیتا ہے اور دنیا اور آخرت میں کامیابی کو خداوند عالم سے رابطے کا مرہون منت جانا ہے ۔
حضرت آیت الله مظاهری نے اس بیا کے ساتھ کہ خداوند عالم سے رابطہ سبب ہوتا ہے کہ انسان خود میں الہی رنگ حاصل کرے بیان کیا : سورہ بقرہ کی انتالیسویں آیت میں مسلمان و غیر مسلمان کے درمیان بات چیت ہے اس میں بیان ہوا ہے کہ مسلمانوں نے غیر مسلمانوں سے خطاب کیا ہے کہ جو دین داری کا دعوا کرتے تھے اس سے کہا اگر خداوند عالم کے سلسلہ میں بات کرنا چاہتے ہو تو اپنے اعمال میں مخلص ہونا چاہیئے ۔
حوزہ علمیہ اصفہان کے سربراہ نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے کہا : یہ گفت و گو چاہے مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان رہا ہو لیکن اس بات چیت کو دین دار افرد و غیر دین دار افراد کے لئے بھی تصور کیا جا سکتا ہے ؛ مقام مخلِص تک پہوچنے کے لئے بہت زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے ، مثال کے طور پر نماز اس طرح ادا ہونی چاہیئے کہ انسان کا دل صرف خداوند عالم کی طرف متوجہ ہو اور خداوند عالم سے بات چیت میں معاشقہ کی منزل تک پہوچ جائے ۔
حوزہ علمہ میں اخلاق کے استاد نے اخلاص کے مقام کو بیان کرتے ہوئے کہا : اخلاص کے مراتب کا پہلا مقام یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کو انجام دینے میں لوگوں کی رضایت حاصل کرنے کے لئے انجا نہ دیں ؛ خداوند عالم کی طرف سے ہمارے اعمال کے قبول ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ اخلاص کے مراتب پائے جاتے ہوں ورنہ ہمارے اعمل بے نتیجہ و بے کار ہیں ۔
انہوں نے سورہ مبارکہ بقرہ کی دو سو چوسٹھوین آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس میں فرمایا «یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِکُمْ بِالْمَنِّ وَالأذَى کَالَّذِی یُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلا یُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ...» اظہار کیا : وہ رویہ و عمل جو خداوند عالم کے علاوہ کسی کی رضایت حاصل کرنے کے لئے انجام دی جائے اس کا شمار ایک طرح سے عملی کفر میں ہوتا ہے ؛ دکھاوا و ریاکاری عمل کو تباہ کر دیتا ہے ، انسان کو چاہیئے کہ عبارت شریفہ «ایاک نعبد و ایاک نستعین» کہنے میں حقیقتا صادق ہو ۔
حضرت آیت الله مظاهری نے اظہار کیا : خلوص کے مراتب کا دوسرا مقام یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کو جنت میں جانے کے لئے اور جہنم میں نہ جانے کے لئے انجام نہ دے بلکہ خداوند عالم کو معبود کے عنوان سے انجام دے اور حق عبودیت ادا کرنے کے لئے بندگی کرے ۔
حوزہ علمیہ اصفہان کے سربراہ نے اپنی گفت و گو کو جاری رکھتے ہوئے بیان کیا : خلوص کے دوسرے مقام پر پہوچنا بہت مشکل ہے اور انسان بہت سخت اعمال کو انجام دینے اور شخت عبادت کو انجام دینے کے بعد اس مقام کو حاصل کر سکتا ہے ؛ امیر المومنین علی علیہ السلام خداوند عالم سے خطاب ہو کر بیان کرتے ہیں ، میں بہشت میں جانے کے لئے عبادت نہیں کرتا ہوں یا جہنم میں جانے کے خوف کی وجہ سے بلکہ تو میرا پروردگار ہے اور میں اس مسئلہ کو دریافت کر لی ہے ۔
حوزہ علمیہ میں اخلاق کے استاد نے کہا : جو انسان چاہتا ہے خلوص کے مراتب کے دوسرے مقام کو حاصل کرے تو چاہیئے کہ وہ گناہ سے دوری اختیار کرے ، اگر مشکلات و مصیبت میں گرفتار ہو تو صبر کرے اور خوشی کے حالت میں خداوند عالم کا شکر گزار ہو ۔
انہوں نے بیان کیا : جب کوئی شخص تمہارے پھنسے ہوئے نا امید امور کو حل کر دیتا ہے تو اپنے آخر عمر تک اس کے اس احسان کا مقروض جانتے ہو اور اس سے تواضع کے ساتھ پیش آتے ہو ، ہم لوگ سانس لینے میں خداوند عالم کے محتاج ہیں اور چاہیئے کہ زبان سے شکر ادا کرنا جو الحمد للہ کہنے سے حاصل ہوتا ہے اس کے ذریعہ عملی شکر تک پہونچیں اور خداوند عالم کو صرف اس کے لئے عبادت کریں ۔
حضرت آیت الله مظاهری نے قرآن کریم کی آیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وضاحت کی : جو انسان خداوند عالم کے حضور میں ہے اگر گناہ کرے اور ادب حضور کا خیال نہ کرے تو وہ عملی کفر میں مبتلی ہے اور وہ مخلِص مقام کو حاصل نہیں کر سکتا ہے ۔
حوزہ علمیہ اصفہان کے سربراہ نے مخلَص انسان کی تعریف کو بیان کرتے ہوئے کہا : انسان کے جب سارے راستے بند ہو جاتے ہیں اور اس راستہ سے فرار کی کوئی امید نہیں ہوتی تو اس کا دل نا خود آگاہ ایک بہت قوی وجود کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم جس کے سلسلہ میں فرماتا ہے وہ قدرت مند شی خداوند عالم کا وجود ہے ؛ دین و مذہب کا اس واقعہ کے وقوع ہونے میں کوئی تاثیر نہیں ہے کیونکہ یہ مسئلہ فطری ہے ۔
حوزہ علمہ میں اخلاق کے استاد نے اپنی گفت و گو کے اختمامی مراحل میں بیان کیا : مخلص انسان کے دل کا توجہ ہمیشہ خداوند عالم کی طرف رہتا ہے اسی وجہ سے وہ شیطان کے مکر و فریب سے امان میں ہے اور کوئی بھی چیز اور کوئی بھی اس کو اغوا نہیں کر سکتا ہے ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۱۰۶۸/