رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حزب الله لبنان کے ڈپٹی جنرل سکریٹری حجت الاسلام والمسلمین شیخ نعیم قاسم نے اس حزب کے دو شھیدوں کی مجلس ترحیم کے پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ہم امام موسی صدر رہ کے اغوا کئے جانے کے ایام سے روبرو ہیں کہ جو استقامت ، جہاد، قوم و اسلام کا مکمل مصداق اور آئڈیل تھے ، امام موسی صدر امام لبنان میں مجاہدت اور استقامت کے موسس تھے ، لبنان آپ ہی کی بنا کردہ استقامت و جہاد کی برکتوں سے آج نعمتوں سے مالا مال ہے ۔
لبنان کی امنیت امام موسی صدر کی تاسیس کردہ استقامت کے مرھون منت ہے
انہوں نے استقامت کو لبنان کی طاقت کا سبب جانا اور کہا: لبنان کی امنیت اور ملک کا ثبات بھی مختلف پوسٹوں پر حزب اللہ کے افراد کی موجودگی کی وجہ سے ہے اور امام موسی صدر نے « قدس مومنین کے ہاتھوں سے آزاد کیا جائے » کے عنوان سے مجاہدین کی تربیت کا آغاز کیا تھا ۔
شیخ نعیم قاسم نے لبنان کے ثبات کو شام کے ثبات سے جڑا ہوا بتایا اور کہا: لبنان اور شام ایک ہی دشمن سے پر سرپیکار ہیں لہذا دھشت گردوں کے مقابل استقامت کی مسلسل پیروزی سے صھیونی میں شدید خوف و ہراس پایا جارہا ہے کہ جس کا صھیونی میڈیا بھی اقرار کر رہے ہیں ، دشمن میں اس حقیقت کو بدلنے کی توانائی موجود نہیں ہے لہذا نالہ و فریاد سے متوصل ہے مگر اس پر کوئی بھی توجہ کر رہا ہے ۔
استقامت کے مخالفین ہر دن سو بار مرتے اور جیتے ہیں
حزب الله لبنان کے ڈپٹی جنرل سکریٹری نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایک سال سے کم کی مدت میں شام و عراق سے دھشت گردوں کا مکمل صفایا ہوجائے گا کہا: استقامت کے حامی ھرگز ان لوگوں کی باتوں میں نہ ائیں جو دشمن کے مقابل شریفوں کی پیروزی کو دیکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ، کیوں کہ یہ لوگ اپنے دل میں موجود کینے اور دشمنی کے وجہ سے ہر دن سو بار مرتے اور جیتے ہیں ، بعض افراد صھیونیوں کا لبنان میں رہنا پسند کرتے ہیں مگر استقامت کی پیروزی پسند نہیں کرتے ، اور اسی بنیاد پر تکفیریوں کی شسکت کو ماننے کو تیار نہیں ہوتے کیوں کہ وہ اپنی خام خیالی میں یہ تصور کرتے ہیں کہ تکفیری ، استقامت کو مٹانے کی طاقت رکھتے ہیں کہ جو محض خام خیالی ہے ۔
انہوں نے حیوان صفت دھشت گرد گروہوں کو استقامت کے مخالفین کے لئے بھی خطرناک بتایا اور کہا: یہ افراد اپنی اولادوں کو خطرات سے روبرو کرنے کو تیار ہیں مگر استقامت کی پیروزی دیکھنے کو تیار نہیں ہیں ، مگر ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ ہم مکمل چین و سکون کے عالم ہیں کیوں کہ ہمارا موقف سب پر عیاں ہے اور وہ یہ کہ اسرائیل فقط استقامت کے ذریعہ ہی لبنان سے باہر جا سکتا ہے مگر کچھ لوگ ہمیں جواب میں یہ کہہ رہے کہ ڈپلومیسی کے ذریعہ بھی اسرائیل کو ملک سے نکالا جاسکتا ہے ۔
شیخ نعیم قاسم نے مزید کہا: اس ڈپلومیسی کو 22 سال ہوگئے مگر سن 2000 عیسوی میں استقامت نے صھیونیوں کو منھ توڑ جواب دے کر ملک سے چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا کہ جو علاقہ کی بزرگترین کامیابی تھی ، ہم نے شام میں بھی یہی طریقہ اپنایا اور بعض نظریات کے برخلاف ہم معتقد تھے کہ یہ جنگ شام کی بربادی اور اسے صھیونی شام بننے کا سبب ہوگی ۔
انہوں نے شام میں 80 ممالک کے تکفیریوں کے اکٹھا ہونے اور بڑی طاقتوں کی جانب سے ان کی ھمہ جانبہ حمایت کی جانب اشارہ کیا اور کہا: کسی بھی گروہ میں تکفیریوں کے مقابل کھڑے ہونے کی جرائت نہیں تھی مگر حزب اللہ نے ان سے جہاد کیا اور فداکاری تاکہ سوریہ استقامت کی میراث باقی رہ سکے ، یہ لوگ یہ کہتے تھے کہ شام کی صورت حال لبنان تک بھی پہونچ جائے گی مگر لبنانی دلاوروں نے جان کو اپنی ہتھیلی پر لیکر شام کے تمام خراب حالات کے باوجود لبنان میں پرسکون فضا قائم رکھی اور ملک کو بحران سے دور رکھا ۔
حزب الله لبنان کے ڈپٹی جنرل سکریٹری نے بیان کیا: ملک کا 700 کیلومیٹر کا علاقہ تکفیریوں کے ہاتھ میں تھا مگر ہم نے پوری طاقت کے ساتھ اس علاقہ کو ان سے چھین لیا ، حکومت ، فوج اور ماھرین سبھی جانتے ہیں کہ اسیروں کی واپسی اور کمترین خسارت کی صورت میں پیروزی کے کیا معنی ہیں مگر کچھ لوگ حقیقت بینی سے کام نہیں لینا چاہتے ہیں اور فقط اس لئے کہ ان کا اپنا کسی قسم کا نقصان نہ ہو دھشت گردوں کو ملک سے نکلنے کے ان کے قتل پر مُصّر ہیں ۔
انہوں نے ان افراد کو خطاب کرتے ہوئے کہا: دھشت گردوں کو جان سے مارنے کے لئے دسیوں شھید کی ضرورت ہے تو آپ میدان میں اترئے ، دھشت گردوں سے لڑئے ، شھادت پیش کرئے ، مگر آپ تو سکون سے اپنے گھروں میں بیٹھ کر فقط نظریہ دینا جانتے ہیں ۔
شیخ نعیم قاسم نے شام سے سیاسی ، اقتصادی ، سماجی ، سکوریٹی اور فوجی تعلقات قائم کرنے کی تاکید کی اور کہا: حزب الله ہر طریقہ سے اس کی حمایت کرتی ہے مگر کچھ لوگ اس تعلقات کے قائم ہونے کے حق میں نہیں ہیں ، یقینا شامی شھری لبنان میں پناہ گزیں نہیں ہوں گے ، یہ تعلقات لبنان کے حق میں بہتر و مفید ہیں جبکہ کچھ لوگ ظاھری مخالفت کے باوجود شام میں چھپ کر اپنی اقتصادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔/۹۸۸/ ن۹۳۰/ ک۹۸۵