تجرہر: طاہر یاسین طاہر
رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جذباتی فیصلے فرد سے معاشروں تک کو تباہ کر دیتے ہیں۔ کوئی ملک بھی اپنی خارجہ پالیسی جذباتی گروہوں کی من مرضی سے تشکیل نہیں دیتا، پاکستان کیسے دے سکتا ہے؟ کیا پاکستان خود کئی مسائل میں نہیں گھرا ہوا؟ کیا پہلے ہی پاکستان مہاجرین کے بار تلے نہیں ہے؟ پھر اے گروہِ سرفروشاں، پاک فوج اور ریاست پر دبائو بڑھانے کے بجائے مسئلے کی سنگینی اور اس کی نوعیت تو سمجھیئے۔ آپ لٹھ لے کر دنیا پہ چڑھ دوڑنے کے سوا کوئی تمنا نہیں رکھتے، یہ جانے بغیر کہ مسلمانوں کے پاس وسائل اور اختیارات کیا ہیں؟ یہ کہہ دینا بڑا آسان ہے کہ مسلمانوں کے پاس کوئی 47 ملکی بڑا فوجی اتحاد ہے، مگر اس مبینہ اتحاد کی سمت اور اہداف کیا ہیں؟ جواب تلخی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ریاستوں کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور انہی مفادات کے تابع رہ کر ریاستیں فیصلہ کرتی ہیں۔ سرفروشی کی تمنا چیزِ دگر است، زمینی حقائق چیز دگر است۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کسی مسئلے پہ سارے اسلامی ممالک کے حکمران یکجان و یکجا ہو جائیں۔ کیا یمن کے مسئلے پہ سب یکجا ہیں؟ کیا شام کے مسئلے ان سارے مسلم ممالک کا موقف ایک ہے؟ کیا افغانستان کے مسئلے پہ سب ایک جیسا سوچتے ہیں؟ کیا عراق اور لیبیا کے بٹوارے میں امت شریک نہیں؟ کیا القاعدہ و داعش کے بارے ساری امت ایک سا سوچتی ہے۔؟ ممالک تو بہت دور کی بات ہے، چند گروہ تک ایک مسئلے اور ایک جیسے موقف پہ اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ مثلاً امت مسلمہ، امت مسلمہ کا "وظیفہ" کرنے والوں نے اسلام آباد میں، روہنگیا مسلمانوں کے حق، ان کی حمایت اور ان کی نسل کشی کے خلاف ریلیاں نکالیں۔ دھواں دھار تقریریں کیں اور کہا کہ امت کہاں ہے؟ مسلم امہ خواب غفلت سے بیدار ہو، مسلمان ایک ہو جائیں وغیرہ وغیرہ۔ مگر عالم اسلام کو بیدار اور یکجان کرنے کے لئے آیات و احادیث کے حوالے دینے والے خود مختلف ٹولیوں میں تھے۔
امت، امت کھیلنے والے روہنگیا مسلمانوں کے حق میں نکالی گئی ریلی کی کوئی مشترک قیادت تک نہ لا سکے۔ ہر گروہ اور ہر مذہبی سیاسی جماعت نے اپنا اپنا رنگ جمانے کی کوشش کی۔ کسی کا رخ پریس کلب کی طرف تھا تو کسی گروہ کا زور میانمار کے سفارت خانے کی طرف، سب اپنی اپنی بولی بول رہے تھے۔ کئی ایک کو تو مسئلے کی سنگینی و حقیقت تک کا ادراک نہیں۔ ایک کالعدم سیاسی و مذہبی جماعت کے بینرز پہ جلی حروف میں لکھا تھا کہ، برما میں مسلمانوں کی نسل کشی اسرائیل اور ایران کی حمایت سے ہو رہی ہے۔ کیا ایسی بے پر کی اڑانے والے اور اپنی فرقہ وارانہ تسکین چاہنے والے مسلمانوں کو یکجان کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکیں گے؟ کیا کبھی کسی بھی مسلم ملک میں کسی ایسے سیمینار کا انتظام کیا گیا، یا کوئی ایسا تھنک ٹینک بنایا گیا، جو اس چیز کا ادراک کرے کہ ہر جگہ مسلمان ہی پسپا کیوں ہو رہے ہیں؟ جذبات نگاری میں ہمارے تجزیہ کاروں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ میڈیا مقبول بات کرتا ہے۔ چند ایک تجزیہ کار مگر ایسے ہیں جو زمینی حقائق کو بھی دیکھ پاتے ہیں، ورنہ اکثر ایسے جو سطر کاری کرتے ہوئے فتح کے جھڈے گاڑ دیتے ہیں۔ نتیجہ سے بے خبر۔ ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے ہم دنیا کے ہر مسئلے کو مذہبی اور مسلکی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ یہ خطرناک رحجان ہے، جس کے نتائج کبھی بھی مسلمانوں کے حق میں نہیں ہوں گے۔ تمام مسلمان ممالک سفارت کاری کے بجائے لٹھ پکڑ لیتے ہیں اور پھر مدتوں زخم چاٹتے ہیں۔
یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ روہنگیا مسلمانوں اور برما کی ریاست ارکان جسے راخائن بھی کہتے اور لکھتے ہیں، کے بدھ مت پیروکاروں کے درمیان جھگڑا ڈیڑھ صدی پر محیط ہے، جب انگریز کے دور میں بنگلہ دیش کے سرحدی علاقوں سے بڑی تعداد میں محنت مزدوری کرنے والے غریب مسلمان فصلوں میں کام کرنے کے لئے برما کی ریاست ارکان میں آباد ہونا شروع ہوئے، لیکن پچھلے چار پانچ عشروں سے برما میں قائم فوجی آمریت نے اس جھگڑے کو ایک بہت بڑے بحران میں تبدیل کر دیا ہے۔ اعداد و شمار کم و بیش گذشتہ 50 سالوں کے اگلے کالم میں دوں گا، ابھی صرف اس قدر کہ حالیہ حملوں میں 400 سے زائد روہنگیا مسلمان شہید ہوچکے ہیں، جبکہ 2600 سے زائد گھروں کو نذر آتش کیا جا چکا ہے، روہنگیا عورتوں کی عصمت دری کی جا رہی ہے، برمی فوج کے حالیہ حملوں کے بعد اب تک 3 لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کر چکے ہیں، 53 روہنگیا مسلمانوں کی لاشیں دریا سے ملی ہیں، جو دریائی راستے سے ہجرت کے سفر پہ تھے کہ اجل نے آلیا۔ اتنے روہنگیا مسلمانوں نے گذشتہ چار عشروں میں ہجرت نہیں کی، جتنے لوگ صرف 25 اگست سے اب تک کرچکے ہیں۔ پاکستان نے میانمار کے سفیر کو طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا اور اپنی تشویش سے بھی آگاہ کیا۔ ہر ممکن امداد کو پاکستان تیار ہے، لیکن امت مسلمہ کو میانمار پر چڑھ دوڑنے کا کہنے والے تاریخ کا مطالعہ کریں تو انھیں روہنگیا مسلمانوں کی تکالیف میں بنگلہ دیش کا کردار بھی ضرور نظر آئے گا۔ اگرچہ موجودہ لمحات و بحران میں بنگلہ دیش کا کردار روہنگیا کے حق میں ہے۔
موجودہ مسئلے کی اصل رخائن یا ارکان روہنگیا سیلویشن آرمی (آرسا) نامی تنظیم کا وہ مبینہ حملہ ہے، جو اس نے برمی سکیورٹی فورسز کے کیمپ پر 25 اگست کو کیا، جس کے بعد برمی آرمی نے مبینہ دہشت گردوں کے خلاف ایک تیز تر اور متشدد سرچ آپریشن شروع کر دیا، جس کے نتیجے میں روہنگیا مسلمانوں کو تکالیف کا سامنا ہے۔ الزام یہ ہے کہ روہنگیا مسلمان اس تنظیم کے پشت بان ہیں اور سہولت کار ہیں۔ تازہ اطلاعات ہیں کہ ارکان یا راخائن روہنگیا سیلویشن آرمی (آرسا) نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کرتے ہوئے میانمار کی فوج سے بھی ہتھیار ڈالنے کی اپیل کی ہے، تاکہ ہجرت کرنے والوں اور متاثرین کو ریلیف مل سکے، مگر اب برمی فوج نہیں مان رہی۔ جذباتیت نہیں، معاملے کی اصل دیکھیے، کیا یہ فقط مذہبی ہے یا نسلی، علاقائی اور قومیت کا بھی مسئلہ ہے؟ بے شک تمام مسئلے موجود ہیں، جن پہ غالب مذہب کا مسئلہ ہے، تو اس کا حل کیا یہی ہے کہ سب مسلم ممالک میانمار سے سفارتی تعلقات ختم کر دیں؟ یا اس پہ چڑھ دوڑیں؟ ایسا ممکن ہی نہیں۔ کم از کم پاکستان کے لئے تو قطعی نہیں۔ سعودی عرب نے بھی ایک اعلامیہ جاری کر دیا ہے کہ ہم گذشتہ ساٹھ ستر برسوں سے روہنگیا مسلمانوں کی خبر گیری کر رہے ہیں، پیغام واضح ہے اب اس سے زیادہ ممکن نہیں۔ پھر ہونا کیا چاہیے؟ مسلم امہ کے قابل ذکر ممالک کو دنیا کے فیصلہ ساز ممالک کے ساتھ مل کر میانمار کی حکومت پر دبائو بڑھانا چاہیے کہ وہ اس مسئلے کا سیاسی حل نکالے اور اقوام عالم کو یہ ضمانت دے کہ روہنگیا مسلمانوں کی جان و مال، عزت و آبرو اور معاش و رہائش کا تحفظ ریاست میانمار کی ذمہ داری ہوگی۔ مسلم ممالک اقوام عالم کے ساتھ مل کر روہنگیا مسلمانوں کی قومیت و شہریت کا مسئلہ بھی حل کرائیں۔ مگر جب کالعدم تنظیمیں روہنگیا مسلمانوں کے حق میں بینرز لہرائیں گی تو اس سے روہنگیا مسلمانوں کی مظلومیت کے بجائے "آرسا تنظیم" کی کارروائیوں کی حمایت کا تاثر بھی ملے گا، جو عام روہنگیا مسلمان کی زندگی اور آبرو کے لئے نقصان دہ ہے۔ پاکستان سمیت دیگر پراثر مسلم ممالک کو روہنگیا مسلمانوں کا کیس سفارتی محاذ پر ہی لڑنا ہوگا اور اسی میں جیت کا امکان بھی ہے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰