26 October 2017 - 22:11
News ID: 430546
فونت
حجۃ الاسلام والمسلمین سید افتخار حسین نقوی :
حجۃ الاسلام والمسلمین سید افتخار حسین نقوی نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں رٹ دائر کی تھی کہ پاکستان کے فیملی لاء میں بہت سی ایسی چیزیں موجود ہیں، جن کی وجہ سے فقہ جعفریہ کے لوگوں کے لئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں ۔
سید افتخار حسین نقوی

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امام خمینی ٹرسٹ کے سربراہ و اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر حجۃ الاسلام والمسلمین علامہ سید افتخار حسین نقوی نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں رٹ دائر کی تھی کہ پاکستان کے فیملی لاء میں بہت سی ایسی چیزیں موجود ہیں، جن کی وجہ سے فقہ جعفریہ کے لوگوں کے لئے مسائل پیدا ہو رہے ہیں ۔

جیسے اول، پاکستان میں خلع کو جو نظام رائج ہے، جس میں عدالت تین ماہ میں بغیر کسی تحقیق کے اور خاوند کی حاضری کے خلع جاری کر دیتی ہے، یہ فقہ جعفریہ کے خلاف ہے۔

دوم، اسی طرح طلاق کے حوالے سے شیعہ نقطہ نظر کے مطابق گواہ اور دیگر شرائط کا ہونا ضروری ہے مگر عدالتوں میں فیصلے اس کے خلاف ہو رہے ہیں۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کا آئین یہ کہتا ہے کہ فیملی لاء ہر مسلک کے نقطہ نظر کے مطابق ہوگا مگر عملی طور پر قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے فیصلے ہو رہے ہیں، جس کے وجہ سے فقہ جعفریہ کے لوگ کئی مسائل کا شکار ہیں۔

عدالت خلع دے دیتی ہے مگر فقہ جعفریہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں، بچیاں پریشان ہوتی ہیں اور شوہر بھاری پیسے لیکر طلاق دیتے ہیں یا دیتے ہی نہیں اور بچی کا مستقبل تباہ کر دیا جاتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ایسی قانون سازی کی جائے جو فقہ جعفریہ کی آراء کے مطابق ہو، سپریم کورٹ ریاست کو حکم دے کہ وہ یہ قانون سازی کرے۔

جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں دو رکنی بنچ  نے کیس کی سماعت کی۔ عدالت نے یہ تسلیم کر لیا کہ پاکستان کے فیملی لاء میں ایسے سقم موجود ہیں، جن کو دور کیا جانا چاہیے، البتہ ہم ریاست کو قانون سازی کا حکم نہیں دے سکتے۔ عدالت نے اپنی آبزرویشن میں اٹھائے گئے مسائل کو تسلیم کیا، تاکہ پارلیمنٹ قانون سازی کرتے وقت اسے مدنظر رکھے۔ اس فیصلے سے علماء کے پاس پارلیمنٹ میں جانے کی راہ ہموار ہوگئی، کیونکہ سپریم کورٹ نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ قانون میں سقم موجود ہیں۔

اس فیصلے کی سماعت کرتے ہوئے جج صاحب نے کہا حضرت علیؑ کو ہر مسلمان مانتا ہے، آپؐ نے فرمایا تھا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علیؑ اس کا دروازہ ہے۔

سماعت کے موقع پر شیعہ علماء کی بڑی تعداد موجود تھی، جس سے اس مسئلہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ فیصلے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے حجت الاسلام افتخار نقوی نے کہا کہ پاکستان قرآن و سنت کا نظام نافذ کرنے کے لئے حاصل کیا گیا تھا مگر قائد اعظم ؒ اور علامہ قبالؒ کا یہ خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ پارلیمنٹ کا یہ کام تھا کہ قانون سازی کرتی اور جہاں مسائل موجود ہیں، انہیں دور کیا جاتا مگر ایسا نہیں کیا گیا پاکستان کا آئین اور انسانی حقوق اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ ہر شخص  فیملی کے فیصلے پرسنل لاء کے مطابق ہوں، قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا، اب ہم سپریم کورٹ آف پاکستان میں آئے ہیں کہ ہمارے ساتھ انصاف کیا جائے۔

اس کیس میں حجت الاسلام افتخار نقوی کی طرف سے مشہور ایڈووکیٹ جسکانی صاحب پیش ہوئے، انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز جج صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ اس قانون  میں مسائل موجود ہیں، جن کو دور کیا جانا چاہیے، اب اگلے مرحلے میں پارلیمنٹ میں قانون سازی ہوگی، جس میں سپریم کورٹ کی اس آبزرویشن کو  ملحوظ رکھا جائے گا۔

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬