‫‫کیٹیگری‬ :
31 January 2018 - 14:13
News ID: 434846
فونت
فضل حسین اصغری:
شہداء شکارپور کی تیسری برسی کے موقع پر اصغریہ آرگنائزیشن پاکستان نے شکارپور میں کانفرنس منعقد کی ۔
شہداء شکارپور  کانفرنس شہداء شکارپور  کانفرنس شہداء شکارپور  کانفرنس شہداء شکارپور  کانفرنس شہداء شکارپور  کانفرنس

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اصغریہ آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر  فضل حسین اصغری نے شہداء شکارپور کی تیسری برسی کی مناسبت سے شکارپور میں منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئےکہا سانحہ شکار پور پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب ملک دشمن عناصر نے معصوم اور بے گناہ جانوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کی۔

انہو‌ں نے کہا:‌ یہ امر ہمارے لیے اضطراب کا باعث ہے کہ دو سال گزرنے کے باوجود بھی اس واقعے کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہر ے میں نہیں لایا گیا۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے بعد پوری قوم کو اطمنان تھا کہ اس ملک کو اب دہشت گردی کے عفریت سے چھٹکار ا حاصل ہو جائے گا لیکن بدقسمتی سے چند مخصوص سانحات کے ذمہ داروں کے خلاف فیصلوں کے علاوہ کوئی ایسا قابل ذکر فیصلہ نہ ہوا جس سے شہد ا کے لواحقین کی داد رسی ہوئی ہو۔

فضل حسین اصغری نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ شہداء قوم کے محسن ہیں اور زندہ قومیں اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہیں کہا: شہدائے راہ حق سے تجدید عہد کرتے ہوئے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم شہداء کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ ہم شہداء کے مشن اور مقصد کو فراموش ہونے نہیں دیں گے۔

انہوں ‌نے نواز لیگ کا شرمناک رویہ ہے، نواز لیگ کے رہنماؤں کو شہداء کی بجائے دہشت گردوں سے مکمل ہمدردی ہے۔سندھ کی سرزمین پر دھشت گردی کے اڈے اور ٹریننگ کیمپس قبول نہیں۔ سندھ حکومت نے وارثان شہداء سے کئے گئے معاہدے پر بھی عمل نہیں کیا۔انہوں نے کہا کہ دھشت گردی اور مذہبی منافرت معاشرے کیلئے نقصاندہ ہے ۔

اصغریہ آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر نے مزید کہا :حکمرانوںکا اپنے مفادات کے سوا کسی سے کوئی غرض نہیں۔حکمرانوں کی ناکام پالیسیوں نے ملک کو بحرانوں کو شکار کر دیا ہے۔جمہوریت کے نام پر جمہوری اقدار کا جنازہ نکال کر رکھ دیا گیا۔ سیاسی جماعتوں میں بھی دہشتگردوں کے سہولت کار موجود ہیں جو کارروائی نہیں ہونے دیتے۔

دوسری جانب اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے اہم رکن حبدار علی حیدری نے شہدائے شکارپور کی تیسری برسی کی مناسبت سے المہدی سنٹر جامشورو سے جاری ایک بیان میں کہا : سانحہ شکار پور کو تین برس بیت گئے مگر کچھ زخم آج بھی تازہ ہیں، آج بھی کئی بیوہ خواتین اپنے بچوں کو شہادت کے فضائل بتا کر جب یہ بتاتی ہیں کہ تمہارے بابا بھی شہید ہیں تو ان کی آنکھیں ان کی زبان کا ساتھ چھوڑ کر برسنے لگ جاتی ہیں اور یوں بھی ہوتا ہے کہ بوڑھی مائیں بچوں کو پکارتے ہوئے بے خیالی میں اپنے جواں سال شہید بچوں کا نام لے لیتی ہیں تو پورے گھر کا ماحول سوگوار بن جاتا ہے ۔

انہوں ‌نے کہا: شادیوں میں بہنیں اپنے بھائیوں کو یہ کہہ کر یاد کیا کرتی ہیں کہ کاش ہمارا بھائی بھی زندہ ہوتا تو ہم اس کی دلہن بیاہ لاتے، اس سے نیگ لیتےحالِ دل جب سنانا ہوتا ہے، دوست تو دوستوں کی قبروں پر چلے جاتے ہیںسنا ہے وہ باپ جس نے اپنے کمسن بچوں کی لاشوں کو ٹکڑوں میں سمیٹا، وہ آج بھی چپ چپ رہتا ہے، کم بولتا ہے، کم ہنستا ہے۔ وقت نے تین سال کا فاصلہ کردیا مگر کچھ دلوں میں 30 جنوری 2015 کی وحشت اور ہولناکی ویسی ہی ہے۔شھداء شیکارپور کے قاتل آج بھی سرے عام گھوم رہے ہیںحکومت پاکستان خاموش کیوں؟؟؟شھداء کے ورسا کےدکھ میں ہر اصغری نوجوان ساتھ ہے۔/۹۲۱

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬