رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق، مفسر عصر حضرت آیت الله عبد اللہ جوادی آملی نے مسجد آعظم قم میں منعقد تفسیر قران کریم کی نشست میں ایام فاطمیہ ، ایام شھادت حضرت صديقہ کبری سلام الله عليها کی تعزیت پیش کرتے ہوئے کہا: حضرت اميرالمومنین علی (سلام الله عليه) کا ایک نورانی بیان ہے کہ جس کی سيدنا الاستاد علامہ محمد حسین طباطبائی نے تفسیرالميزان میں خوب تشریح کی ہے ، حضرت اميرالمومنین علی (سلام الله عليه) کا وہ بیان یہ ہے کہ حضرت رسول کی رحلت کے بعد لوگوں نے غدیر کو فراموش کردیا اور سقیفہ کو زندہ کردیا ، یہاں پر ایک سوال ہے کہ اغلب مدنی سوروں میں نفاق اور منافقین کا تذکرہ ہے اور مدینے کی ایک تہائی جمعیت منافق تھے ، جیسا کہ ہمیں جنگ احد کے لئے ملتا ہے کہ جنگ احد کے لئے مدینہ سے تقریبا ایک ھزار افراد نکلے میں مگر ان میں سے تین سو کے قریب افراد واپس لوٹ گئے یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتے تھے ۔
انہوں نے فرمایا: تو کیا رسول اسلام کی رحلت کے بعد یہ تمام کے تمام منافقین مرگ گئے ، آخر کہاں سب چلے گئے ؟ یا کیا سب نے توبہ کرلیا اور سب کے سب حضرت ابوذر و سلمان و مقداد کے مانند ہوگئے ؟ یہ بات تو قابل قبول نہیں ہے ، یہ یوں کہا جائے کہ سب کے سب حکومت سے ہاتھ ملا بیٹھے ، حضرت نے فرمایا کہ سقیفہ کے بعد کیوں منافقین نے فتنہ انگیزی نہیں کی ؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ سب کے سب حکومت کا حصہ بن چکے تھے ۔
آیت الله جوادی آملی نے فرمایا: خطبہ فدک کو استاد کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئے بغیر سمجھنا دشوار ہے ، فقہ و اصول اور ارث و میراث کے علوم سے واقفیت رکھنے والا اس خطبے کے کچھ حصہ کو تو سمجھ سکتا ہے ، حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام نے وہاں بخوبی بیان کیا ہے کہ دلیل و بینہ کس کے لئے ہے اور شاھد کس کے لئے ، ان باتوں کو علم اصول و فقہ پڑھنے والے کسی حد تک سمجھ سکتے ہیں ، مگر وہ پانچ اور چھ سطروں کے لئے اگر کوئی مدعی ہو کہ ہم بغیر استاد کے اسے سمجھ سکتے ہیں تو وہ آکر ایک امتحان دے ، لہذا اس خطبے کی تعلیم و تدریس ضروری ہے ۔
انہوں نے حضرت فاطمہ زهرا سلام الله عليها کی علمی عظمت کے سلسلے میں کہا: مرحوم شیخ کلينی (رضوان الله تعالي عليه) فرماتے ہیں کہ جب حضرت اميرالمومنین علی علیہ السلام لشکر صفین کو آمادہ کرنے کے لئے دوسری بار لوٹے تو حضرت نے ایک خطبہ دیا کہ جو نهج البلاغه میں موجود ہے ، مرحوم کلينی(رضوان الله تعالي عليه) فرماتے ہیں کہ اگر جن و انس اکٹھا ہوجائیں اور ان کے درمیان پیغمبر نہ ہو وہ اس طرح کا خطبہ نہیں پڑھ سکتے ، آپ سب جانتے ہیں کہ کلینی اہل غلو نہیں ہیں ، کلینی کہتے ہیں کہ «بأبي و أمي» میرے ماں باپ آپ پر قربان اور پھر حضرت امیر کے سلسلے میں دلیل کے ساتھ کہتے ہیں ، صدیوں سے موجود مادیوں کے اس شبھہ کا جواب کون دے سکتا تھا ؟
آیت الله جوادی آملی نے مزید کہا: مادہ پرستوں کا کہنا تھا کہ معاذ الله نہ خدا کا وجود ہے اور نہ قیامت آنی ہے ، مادہ کی ازلیت میں ان کا ایک شبھہ تھا ، وہ کہتے ہیں کہ آپ جو مدعی ہیں کہ خدا ہے تو اس دنیا کے خدا کو یا «من شيء» نے پیدا کیا يا «من لا شيء» نے ، ان دونوں کے سوا کچھ بھی نہیں ، یا «من شيء» یعنی کسی چیز نے پیدا کیا يا «من لا شيء» نے ، کہ اگر دنیا کے خدا کو «من شيء» نے پیدا کیا تو اس کا مطلب پہلے کچھ ذرات موجود تھے مگر خدا نہ تھا اور خدا نے ان کے وسیلے دنیا کو پیدا کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چیزیں بغیر خدا کے بھی ہوسکتی ہیں ، اور اگر کہیں کہ دنیا کو «لا شيء» نے پیدا کیا تو «لا شيء» عدم ہے اور عدم سے کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی ، اور رفع نقيضين بھی جمع نقيضين کی طرح محال ہے ۔ تو پھر خدا نے عالم کو کس چیز سے پیدا کیا ؟ اس ازلیت کے شبھہ کا جو کئی صدیوں سے تمام مراکز میں موجود تھا حضرت علي بن ابيطالب نے جواب دیا ، کہ عین اس جملے کو حضرت فاطمه زھرا (سلام الله عليها) نے خطبه فدک میں حضرت علي بن ابيطالب کے خطبے کے 25 سال پہلے بیان کیا ہے ، اب سمجھے آپ کے حضرت زھرا کون ہیں ؟ چوں کہ جس وقت حضرت نے مسجد میں جاکر خطبہ فدک دیا اس کے 25 سال بعد جنگ صفین واقع ہوئی ۔
انہوں نے بیان کیا: حضرت فاطمه زھراء (سلام الله عليها) اس خطبے کی ابتداء میں فرماتی ہیں «الحمد لله الذي خلق الاشياء لا من شيء» یعنی حضرت سمجھنا چاہتی ہیں کہ «من شيء» کی نقیض«من لا شيء» نہیں ہے کیوں کہ دونوں کی نسبت وجودی ہوجائے گی ، بلکہ «من شيء» کی نقیض «لا من شيء» ہے ، اگر نسبت «من شيء» ہوتی تو شبھہ بجا تھا اور اس سے یہ سمجھ میں آتا کہ پہلے ذرات تھے اور خدا نے ان ذرات کو یکجا کرکے یہ دنیا خلق کردی ، اگر «من لا شيء» ہوتا تو بھی اشکال موجود تھا کہ عدم وہ چیز نہیں ہے جسے کوئی یکجا کرکے آسمان بنا دے ، نیز «من شيء» کی نقیض «من لا شيء» نہیں ہے کیوں کہ دونوں ہی موجبہ ہیں ، بلکہ «نقيض کلّ رفع أو مرفوع» یعنی ہر چیز کی نقیض خود اسی کا سلب کرنا ہے ، یعنی «من شيء» کی نقیض «لا من شيء» ہے «من لا شيء» نہیں ہے ، یہ حضرت زهراء کا نورانی خطبہ ہے جسے حضرت نے حضرت اميرالمومنین کے خطبے کے 25 سال پہلے دیا تھا ۔
آیت الله جوادی آملی نے تاکید کی: حضرت زھراء کی عظمت کو یہاں سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ مرحوم کليني نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلام کی رحلت کے بعد جناب جبرئیل بارہا و بارہا حضرت فاطمه زھراء (سلام الله عليها) پر نازل ہوا کرتے تھے اور آپ سے باتیں کرتے تھے جسے بعد میں حضرت زھراء بولتی تھیں اور حضرت امیر المومنین لکھا کرتے تھے کہ جو بعد میں مصحف فاطمہ کی شکل میں آیا ۔
انہوں نے بیان کیا: ائمہ کی عزاداری کو فقط اشکوں میں خلاصہ نہ کریں کیوں کی اس عزاداری کو سمجھنے کا ثواب آنسو بہانے سے کم نہیں ہے ، فاطمیہ سے دوطرح سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ایک خطبہ فدک کی تعلیم کو عام کیا جائے ، اور دوسرے حضرت کی مصبیت پہ آنسو بہانے جائیں ۔/۹۸۸/ ن۹۷۰