رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ ناصر عباس جعفری نے کہا ہے کہ حکومت اخلاقی و قانونی طور پر ایک سال کا بجٹ پیش کرنے کا حق نہیں رکھتی، آئین کا آرٹیکل 68 حکومت کو چار ماہ کا بجٹ پیش کرنے کا اخیتار دیتا ہے۔ یہ آنے والی حکومت کو حق ملنا چاہئے کہ وہ اپنی ترجیحات کے مطابق بجٹ بنائے۔ اپنے ایک بیان میں علامہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ 30 فیصد بجٹ تو بیرونی قرضوں اور سود کی نذر ہو رہا ہے اور 35 فیصد ڈیفنس کا بجٹ رکھا گیا ہے، 10 فیصد سول ایڈمنسٹریشن کا غیر ترقیاتی بجٹ ہے۔ بنیادی ضروریات کے لئے فقط 25 فیصد بجٹ عوام سے سنگین مذاق ہے۔ گذشتہ سال 2017ء کے بجٹ میں بھی تعلیم اور صحت کے لئے تجویز کردہ بجٹ کا صرف 20 فیصد ریلیز کیا گیا، باقی کا روپیہ کہاں گیا، یہ سوال اب بھی باقی ہے۔ حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کی بجائے اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں پھنسا دیا ہے۔
علامہ ناصر عباس کا کہنا تھا کہ حکمران اپنے آخری سال میں بھی عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ عوام دوست بجٹ نہیں بلکہ عوام دشمن بجٹ تھا، معاشی خوشحالی کے سارے دعوے جھوٹ ثابت ہوئے، ہوشربا مہنگائی کے تناسب سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہے، حکمران اپنے آخری سال میں بھی عوام کو ریلیف دینے میں ناکام رہے ہیں۔ مہنگائی کے موجودہ تناسب سے مطابقت نہ رکھنے والا یہ بجٹ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کی طرح اقتصادی معاملات بھی صلاحیتوں کے فقدان کی نذر ہو رہے ہیں۔ تعلیم اور صحت کے لئے بجٹ میں مختص کی جانے والی انتہائی کم رقم پاکستان کے مستقبل کے بارے حکومت کی غیر سنجیدگی اور عدم دلچسپی کا اظہار ہے۔ اسی طرح پاکستان ایک زرعی ملک ہے، لیکن زراعت کے شعبے میں حکومت کی عدم دلچسپی نے کسانوں کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰