رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے شیعہ ہزارہ قوم کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پندرہ دن میں تمام معاملات کی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے آئی جی پولیس کو معاملہ دیکھنے کی ہدایت کی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ریاستی اداروں کے بغیر ہمارا وجود ممکن نہیں، ان کو دشمن نہ سمجھا جائے۔ حکومت شیعہ ہزارہ قوم کو تحفظ نہیں دے سکتی تو انہیں جینے کا راستہ تو دیں۔ سکیورٹی پلان 2013ء کو بہتر بناکر اس پر سختی سے عملدرآمد ہونا چاہیئے۔ میرے نزدیک شیعہ ہزارہ قوم کی ٹارگٹ کلنگ نسل کشی ہے، جس پر سوموٹو لینا پڑا۔ جمعہ کو سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بینچ نے شیعہ ہزارہ قوم کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ اس دوران سابق وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، ایف سی کے نمائندے، انسپکٹر جنرل بلوچستان پولیس اور شیعہ ہزارہ قوم کے وکیل پیش ہوئے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے پاس الفاظ نہیں کہ ان بدقسمت واقعات کی مذمت کرسکیں۔ میرے مطابق یہ نسل کشی ہے، جس پر مجھے ازخود نوٹس لینا پڑا۔ سماعت کے دوران شیعہ ہزارہ قوم کے وکیل افتخار علی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ہمیں جانی و مالی نقصان دیا جا رہا ہے۔ ہمیں نوکریاں نہیں دی جاتی، ہمارے لوگ مجبور ہو کر آسٹریلیا چلے گئے۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی جی ایف سی کہاں ہیں۔؟ جس پر نمائندہ ایف سی نے جواب دیا کہ وہ اسلام آباد میں ہیں۔ میں ان کے نمائندے کے طور پر موجود ہوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے شیعہ ہزارہ قوم کے جان و مال کی حفاظت کرنی ہے۔ اس حوالے سے تمام ایجنسیاں رپورٹ دیں کہ کس طرح یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔
دوران سماعت شیعہ ہزارہ قوم کے وکیل افتخار علی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ان کے معتبرین سے بھی سکیورٹی واپس لے لی گئی ہے، جس پر ڈی آئی جی کوئٹہ نے جواب دیا کہ ہم نے سکیورٹی واپس نہیں لی ہے۔ شیعہ ہزارہ قوم کے وکیل نے کہا کہ 20 برس سے ٹارگٹ کلنگ جاری ہے، آج تک کوئی گرفتاری نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس نے آئی جی پولیس سے استفسار کہ کیا ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے رپورٹ بنائی ہے۔؟ جس پر آئی جی پولیس کی جانب سے رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2012ء سے اب تک مختلف مکاتب فکر کے 124 افراد، 106 سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور 20 آبادکار کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ آئی جی پولیس نے بتایا کہ گذشتہ 6 برسوں میں 399 شیعہ ہزارہ قوم کے افراد، 36 سنی اور 29 آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق اسی عرصے میں 344 سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں اور 19 اقلیتی برادری کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ جبکہ 2013ء میں سب سے زیادہ 208 شیعہ ہزارہ قوم کے افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ تاہم آئی جی پولیس نے عدالت میں بتایا کہ اب حالات میں کافی بہتری آگئی ہے۔ صوبے میں 4 ماہ کے دوران 9 شیعہ ہزارہ قوم کے افراد کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ رواں سال 28 سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی شہید ہوئے۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سکیورٹی فورسز کی شہادت کا شیعہ ہزارہ قوم کی ٹارگٹ کلنگ سے کیا تعلق ہے۔؟ اس پر آئی جی پولیس نے کہا کہ ہماری بہت محنت ہے، جس کی وجہ سے اعداد و شمار میں کمی آئی ہے۔ سی ٹی ڈی نے اغواء برائے تاوان کے واقعات میں ملوث دہشت گردوں کو گرفتار کیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت شیعہ ہزارہ قوم کو تحفظ نہیں دے سکتی تو انہیں جینے کا راستہ تو دیں۔ یہ بتائیں کس سطح پر ان معاملات کے لئے بات کی جائے۔؟ اس پر وکیل افتخار علی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہمارے 2013ء کے سکیورٹی پلان پر عمل درآمد نہیں ہوسکا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر اس پلان پر عملدرآمد ہو تو مسئلہ حل ہو جائے گا۔؟ چیف جسٹس ثاقب نثار کے استفسار پر وکیل افتخار علی نے بتایا کہ اس پلان کو ازسر نو دیکھا جائے تو مزید بہتری ہوسکتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سکیورٹی پلان 2013ء کو بہتر بناکر اس پر سختی سے عملدرآمد ہونا چاہیئے۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کس سطح پر ان معاملات کیلئے بات کی جائے۔؟ جب تک یہ معاملات طے ہوں گے تو اس پر عملدرآمد کا طریقہ کار بھی ہمیں دیکھنا ہوگا۔ سماعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے ہم ایک کمیٹی تشکیل دیں گے، جو یہ معاملات دیکھے گی۔ آپ نے یہاں سے غیر مطمئن نہیں جانا، ہم آپ کو سارا دن سنیں گے۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پندرہ دن میں تمام معاملات کی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے آئی جی پولیس کو معاملہ دیکھنے کی ہدایت کر دی۔ دوران سماعت شیعہ ہزارہ قوم کے رہنماء میجر (ر) نادر علی نے بتایا کہ شیعہ ہزارہ قوم کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بنائی گئی، مگر اس کا اب تک کچھ نہیں پتا چل سکا۔
اس موقع پر ایک متاثرہ خاتون نے لاپتہ اہل خانہ سے متعلق درخواست عدالت میں جمع کروائی۔ اس پر چیف جسٹس نے آئی جی پولیس اور بریگیڈیئر ایف سی کو درخواست دیتے ہوئے انہیں آئی ایس آئی سے رابطہ کرنے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریاستی اداروں کے بغیر ہمارا وجود ممکن نہیں، ان کو دشمن نہ سمجھیں۔ عدالت میں سماعت کے موقع پر چیئرمین ہزارہ جرگہ قیوم علی چنگیزی نے بتایا کہ بلوچستان میں کالعدم تنظیموں کے جن دہشتگردوں کو سزاء ملی، ان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ دہشتگرد ریاستی اداروں کے چہیتے ہیں۔ ہمارے شہداء کے لواحقین کو ملازمتیں نہیں دی جا رہی ہیں۔ ہم رعایت نہیں، قابلیت کی بنیاد پر نوکری چاہتے ہیں۔ اس موقع پر عدالت نے شیعہ ہزارہ قوم کی ٹارگٹ کلنگ سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت عید کے بعد تک ملتوی کر دی۔ /۹۸۸/ ن۹۴۰