11 May 2018 - 15:35
News ID: 435879
فونت
دنیا بھر میں اسوقت جہاں جہاں بھی دہشتگردی کا بازار گرم ہے، چاہے وہ افغانستان ہو یا پاکستان، عراق ہو یا شام، لبنان ہو یا یمن، حجاز ہو یا فلسطین، صومالیہ ہو یا لیبیا، ہر جگہ اسکے پس پردہ یا بہ ظاہر امریکہ اور اسکا لے پالک اسرائیل ہی ہے، پھر اسے کیوں نہ مردہ باد کہا جائے۔
دھشت گردی

تحریر: ارشاد حسین ناصر

مسلمانوں کی تمام تر مصیبتوں کا ذمہ دار امریکہ ہے، امام خمینی کا یہ فرمان بہت پہلے سنا اور پڑھا۔۔۔ سنا شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کی زبانی جو حقیقت میں اس دھرتی پر امام خمینی کے فرزند تھے، ان کی فکر کے صحیح منعکس کرنے والے تھے، انہیں امام خمینی کے افکار کو پاکستان کی سرزمین پر درست انداز میں یعنی مکمل اخلاص کیساتھ منعکس کرنے کی سزا دی گئی اور وہ ہم سے اسی وجہ سے چھین لئے گئے کہ وہ سمجھوتہ نہیں کرتے تھے، فکر امام سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹنے کا قول انہوں نے ہی نبھایا، اگر وہ سمجھوتہ کرنے والے ہوتے تو کسی بھی طور ہم سے جدا نہ کئے جاتے۔ انہوں نے امام خمینی کی انقلابی فکر کو پاکستان کے انقلابی نوجوانوں میں راسخ کیا اور اپنی ہر دلعزیز شخصیت اور جاذبہ سے انہیں اپنا گرویدہ بنایا۔ نوجوان ان پر جان نچھاور کرنے کیلئے تیار رہتے تھے، شہید قائد نے بارہا امریکہ کے جرائم کو گنواتے ہوئے اس پاک دھرتی پہ اس کے ارادوں کو خاک میں ملانے کا عزم دہرایا۔ انہوں نے ایران کیساتھ اپنے تعلق کو کبھی چھپایا نہیں بلکہ برملا کہا کہ ایران ہمارا سب کچ ہے، ہم ایران کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال نہیں ہونے دینگے۔ یاد رہے کہ ان دنوں میں بلوچستان میں ایران کے خلاف امریکی اڈوں کی خبریں زبان زد عام تھیں۔ شہید قائد علامہ سید عارف الحسینی کی فکر یہی تھی کہ مسلمانوں کی تمام تر مصیبتوں کا ذمہ دار امریکہ ہے، وہ یہ بیان کرتے تھے کہ امام معصوم کا فرمان ہے کہ "جس نے صبح کی اور اس کے دل و دماغ میں اپنے علاوہ دوسرے مسلمانوں کی فکر نہ ہو تو وہ اصلاً دائرہ اسلام سے خارج ہے۔"

اس ناطے سے مسلمان جہاں کہیں بھی آباد تھے، چاہے ان کا تعلق افغانستان سے تھا یا ایران سے، وہ لبنان کے مسلمان ہوں یا شام کے، مسلمانوں کا تعلق فلسطین سے ہو یا کشمیر سے، وہ عراق سے ہوں یا ایران سے، جہاں جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم کیا جاتا تھا، شہید قائد نے ان کے حق میں آواز بلند کرنا اپنا فریضہ سمجھا اور امام کے فرمان کی عملی تائید کی۔ وہ ہمیشہ کہتے، لبنان و فلسطین میں اسرائیل جو ظلم ڈھا رہا ہے، ہمیں ان کے بارے میں آواز بلند کرنا چاہیئے۔ وہ کہتے کہ آج اگر ہم رہبر انقلاب اسلامی کے حکم پر یوم القدس یا کوئی اور دن منانے کا اہتمام کرتے ہیں تو فوراً آوازیں اٹھتی ہیں کہ پاکستان کے باہر دوسرے مسلمانوں سے ہمارا کیا واسطہ۔؟ کیا ہماری یہ مشکلات امریکہ کی پیدا کردہ نہیں ہیں؟ امریکہ بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مشغول ہے اور اسی طرح آج آپ کیلئے چھوٹے چھوٹے مسائل پیدا کرکے بھائی کو بھائی سے لڑا کر اپنے لئے میدان خالی کرتا ہے، ہم اپنے اساسی اور بنیادی مسائل کو بھول جاتے ہیں، یہ مسائل و مشکلات و اختلافات کفر اور امریکہ ایجاد کر رہا ہے تو ہم کیوں نہ اس امریکہ کے خلاف آواز بلند کریں جو اس وقت خود بھی دہشت گرد ہے اور دہشت گردی کی سرپرستی بھی کر رہا ہے۔

 شہید قائد کے ان افکار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کی سرپرستی امریکہ کا کوئی نیا کھیل نہیں، یہ اس کا اولین روز سے وطیرہ رہا ہے، اس نے ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف ایسے ہی سازشیں کی ہیں اور مسلمان حکمرانوں کو اپنے دام میں پھنسا کر ان کے وسائل پر قبضہ اور ان کے جغرافیہ کو تبدیل کرنے کی سازشیں کی ہیں۔ امریکہ کا یہ جرم بھی ناقابل برداشت ہے کہ اس نے ہمیشہ امت مسلمہ کی صحیح اور عوامی قیادتوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر ان میں قیادت و رہبری کا خلا پیدا کیا ہے اور اس خلا میں اپنے بونے قسم کے جعلی لیڈر سامنے لایا ہے، تاکہ تنظیموں و تحریکوں کو اپنے حق میں استعمال کرسکے۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، ہم اپنے ملک کی مثال کو ہی دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح امریکہ نے ایک آمر کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دلوائی اور پاکستان کو ایسے قیادت کے بحران کا شکار کیا، جس سے آج تک ہم نکل ہی نہیں سکے۔ اسی طرح قائد شہید کی المناک شہادت امریکی جرائم اور سازشوں کا وہ حصہ ہے، جس کے تحت امام خمینی کی فکر کے وارث انقلابی و روحانی طور پر مضبوط رہنمائوں کو پوری دنیا میں راستے سے ہٹایا گیا، تاکہ انقلاب مزید نہ پھیل سکے۔ اس میں عراق کے مہدی الحکیم، لبنان کے موسٰی الصدر (انہیں اغوا کیا گیا احتمالاً شہید) شہید عباس موسوی، ایران کے انقلاب کے بعد بم دھماکوں میں نامور مجتھدین اور انقلاب لانے والی ٹیم کے ساتھ بہتر اراکین پارلیمنٹ کو شہید کروانے کا مقصد بھی انقلاب پر کاری ضرب لگانا تھا۔

شہید قائد نے امریکہ کو اسرائیل کی سرپرستی کے باعث ہی مردہ باد کہا اور اپنی قیادت کے زمانے میں باقاعدہ طور پر اسرائیل کے وجود کے دن 15 مئی سے اگلے روز پاکستان بھر میں یوم مردہ باد امریکہ منانے کا حکم دیا، جسے آج تک منایا جاتا ہے۔ تاریخ کی ورق گردانی کریں تو امریکہ کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے اور اس کا ہر جرم یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہم اس کو ہر دن "مردہ باد" کہیں۔ اس لئے اس بات پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ امسال پاکستان میں امریکہ مردہ باد کا دن تین تواریخ میں منایا جا رہا ہے۔ یہ اس برس ہے، مجلس وحدت مسلمین پاکستان جو ایک عوامی سیاسی و دینی تحریک ہے، اس نے بھی اپنے سربراہ کے حکم پر اس بار 13 مئی کو یوم مردہ باد امریکہ کے طور پر منانے کا اعلان کیا تو بہت سے حلقے اس کو اختلاف کے طور پہ پیش کرنے لگے، سوشل میڈیا کے اس دور میں ہر ایک کو یہ دسترس حاصل ہے کہ اپنے خیالات کا برملا اظہار کرسکتا ہے، جیسا کہ اس سے قبل کہا گیا کہ امریکہ کے جرائم کی فہرست اتنی طویل ہے کہ اسے ہر دن صبح شام مردہ باد کہا جائے، اس کے خلاف کام کرنے کا جذبہ ابھارا جائے، اس کے جرائم کو اگلی نسلوں تک پہنچایا جائے، اس کو میدان میں للکارا جائے، اس کے خلاف جو بن سکے کیا جائے، ہمیں امریکہ کے خلاف اقدامات اٹھاتے ہوئے کسی جھجھک یا گھبراہٹ کا شکار نہیں ہونا چاہیئے۔ وہ مسلمانوں کا کھلا دشمن ہے، بلا شک و شبہ امریکہ شیطان الاکبر ہے، اس کو اس کی شیطانیوں کی سزا دی جانی چاہیئے۔

اگر ہم عالم اسلام کا جائزہ لیں تو امریکہ نے گذشتہ دس برسوں میں ایسے ایسے جرائم اور سازشیں کی ہیں کہ اسے مرگ بر کہتے ہوئے ہماری آواز میں شدت پیدا ہوگی، ہم مرگ بر امریکہ کا شعار بلند کرتے ہوئے یمن کے مظلوم بچوں اور بے گناہ و معصوم لوگوں کو اپنے ذہن میں رکھیں۔ ہم امریکہ مردہ باد کہتے ہوئے فلسطین کے بے سہارا، ستم رسیدہ، گھروں سے بے دخل کر دیئے گئے، مسلمان بھائیوں اور ان کی خواتین کی عزتوں کی پائمالی بچوں کی دلدوز چیخیں اور اجڑے فلسطین کے درو دیوار کو ذہن میں رکھیں تو ہماری صدا بہت بلند ہو جائے گی۔ ہم مرگ بر امریکہ کا شعار بلند کرتے ہوئے عراق میں جھوٹ کی بنیاد پر کئے گئے امریکی حملوں اور ہزاروں ٹن بارود کی بارش میں مارے گئے بے گناہ عراقیوں کی ٹکڑوں میں بٹی لاشوں کو ذہن میں رکھیں تو یہ شعار بلند کرتے ہوئے ہمارا جذبہ یقیناً بہت دیدنی ہوگا۔ ہم امریکہ مردہ باد کہتے ہوئے لبنان پر امریکی و اسرائیلی یلغار اور مشرق وسطٰی کا نقشہ تبدیل کرنے کے ارادوں کو ذہن نشین رکھیں تو ہمیں اس خونخوار کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے یقیناً سرور آجائے گا۔ ہمیں امریکہ مردہ کہتے ہوئے شام میں گذشتہ چھ سال کے دوران اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کی گئی تباہی اور مقدسات اسلامی کو پیش آنے والے خداشات و خطرات کو رفع کرنے کیلئے پیش کی جانے والی عظیم قربانیوں کو یاد کرنا ہوگا، پھر دیکھیں کہ امریکہ مردہ باد کا شعار کس زور سے ہمارے گلے سے نکلتا ہے۔

ہمیں امریکہ مردہ کہتے ہوئے اس کے لے پالک خونخوار اور مسلمانوں کے قلب میں خنجر کی مانند اسرائیل جس کی پارلیمنٹ میں لکھا ہے کہ اے اسرائیل تیری حدود مصر کے دریائے نیل سے لیکر عراق کے دریائے فرات تک ہیں، کو ذہن میں رکھنا ہوگا کہ یہ اسی کا ناجائز بچہ ہے، جس نے اپنے ناجائز وجود کے دن سے لیکر تا دم تحریر لاکھوں مسلمانوں کا بے گناہ خون کیا ہے اور اسے امریکی چھتری میسر ہے۔ اقوام متحدہ میں ہمیشہ اس کے خلاف آنے والی قراردادوں کو امریکہ نے ہی ویٹو کیا ہے، وگرنہ بقول امام راحل اگر مسلمان مل کر ایک ایک بالٹی پانی اسرائیلی سرحد سے اس کی طرف پھینکیں تو یہ اسی سے ڈوب جائے۔ دنیا بھر میں اس وقت جہاں جہاں بھی دہشت گردی کا بازار گرم ہے، چاہے وہ افغانستان ہو یا پاکستان، عراق ہو یا شام، لبنان ہو یا یمن، حجاز ہو یا فلسطین، صومالیہ ہو یا لیبیا، ہر جگہ اس کے پس پردہ یا بہ ظاہر امریکہ اور اس کا لے پالک اسرائیل ہی ہے، پھر اسے کیوں نہ مردہ باد کہا جائے۔ اس مردہ باد کو کیوں ایک دن تک محدود کیا جائے، انہیں ہر دن کیوں نہ مردہ باد کرنے کی کوشش کی جائے اور یہ جو ہمارے ہاں ایک نعرہ پروموٹ کیا جا رہا ہے، اس کو بھی درست کرنے کی ضرورت ہے کہ یہی حقیقت ہے۔۔۔
یہ جو دہشت گردی ہے , اس کے پیچھے امریکہ گردی ہے ۔/۹۸۸/ ن ۹۴۰

منبع: اسلام ٹائمز

 

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬