رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امام حسین علیہ السلام سے ہماری عقیدت کا اظہار انتہائی آسان بھی ہے اور بہت مشکل بھی۔ یعنی اسے سمجھنا بہت آسان ہے لیکن دوسروں کیلئے اسے بیان کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ نہیں معلوم کہاں سے شروع کروں؟ شاید اس زمانے سے جب حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی گوندھی گئی اور اس میں امام حسین علیہ السلام کا عشق ملا دیا گیا یا شاید حضرت آدم علیہ السلام کی مٹی گوندھنے میں امام حسین علیہ السلام کے غم میں گریہ کناں فرشتوں کے آنسووں کو استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں امام حسین علیہ السلام سے عشق تمام ادیان اور مذاہب سے بالاتر ہے اور جس نے بھی ان کا نام سنا ہے اس کا دل کانپ اٹھا ہے اور بے اختیار اس کے آنسو جاری ہو گئے ہیں۔ اور یقیناً شیعیان حیدر کرار علیہ السلام کی مٹی اہلبیت اطہار علیہم السلام کی مٹی سے لی گئی ہے (اَللّهُمَّ اِنَّ شیعَتَنا مِنّا خُلِقُوا مِنْ فاضِل طینَتِنا وَ۔۔۔؛ خدایا، ہمارے شیعہ ہم سے ہیں اور ہماری اضافی مٹی سے خلق کئے گئے ہیں؛ دعائے امام زمانہ عج) جس کی وجہ سے وہ حسین علیہ السلام کا نام لینا نہیں چھوڑتے۔
شاید فرمان خداوندی "إِنِّی أَعْلَمُ ما لاتَعْلَمُون" (میں ایسا کچھ جانتا ہوں جو آپ نہیں جانتے؛ سورہ بقرہ / آیت 30) اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو خلق کرتے وقت خدا بھی امام حسین علیہ السلام کی یاد میں مشغول تھا لہذا انسانوں کے دل حسین علیہ السلام کے عاشق ہو گئے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم اور میں اس کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچنا چاہتا اور جانتا ہوں کہ محرم شروع ہو چکا ہے اور ہماری قلبی کیفیات میں طوفان برپا ہو چکا ہے۔ سب عزاداری امام حسین علیہ السلام منانے کیلئے سرگرم عمل ہو چکے ہیں۔ عشق حسین علیہ السلام اچھے اور برے انسانوں میں فرق کا قائل نہیں۔ امام حسین علیہ السلام کا نام اسرافیل کے صور کی مانند ہے جو حتی مردوں کو زندہ کر دیتا ہے چہ جائیکہ ہمارے قلوب، ایسی پیاری خوشبو ہے جو سب محسوس کرتے ہیں لہذا شاعر کہتا ہے: "روح پرور نسیم کی آمد ہے، کرب و بلا کی خوشبو کی آمد ہے۔"
گویا اہم واقعہ رونما ہونے والا ہے اور شہر کے لوگ کسی مہمان کی راہ تک رہے ہیں۔ تیار ہو رہے ہیں اور خود کو آمادہ کر رہے ہیں۔ لیکن چراغانی اور جھنڈیاں لگانے کی بجائے سیاہ بینر لگا رہے ہیں، پوسٹر چسپان کر رہے ہیں، سیاہ لباس پہن رہے ہیں اور عزاداری کیلئے تیار ہو رہے ہیں۔ عجیب سا جذبہ ہے جو حسین علیہ السلام نے سب کے قلوب میں ڈال دیا ہے۔ لوگ مہمان کے منتظر ہیں لہذا چائے اور شربت کی سبیلیں لگائی جا رہی ہیں۔ شہر کے گلی کوچوں سے اگربتی اور عرق گلاب کی خوشبو آ رہی ہے۔ گلی کوچوں میں صفائی اور پانی کی سبیلیں تو دیکھیں۔ اس عظیم دعوت کا مہمان خانہ مساجد اور امام بارگاہوں سے پہلے انسانوں کے قلوب ہیں جو دشمنی اور کینے سے عاری ہو گئے ہیں اور عشق حسین علیہ السلام سے لبریز ہو گئے ہیں۔ دیکھو کیسے مہمان کے عشق نے لوگوں کو ایکدوسرے پر مہربان کر دیا ہے، دلوں کی کدورت ختم ہو گئی ہے اور قلوب ایکدوسرے سے قریب آ گئے ہیں۔ مہمان آ رہا ہے۔ کمیت، دعبل، فرزدق، حسان، آغاسی آئیں اور اس کی مہمان نوازی کیلئے تیار ہو جائیں۔ غزل خوان کہاں ہے، قصیدہ سرا کہاں ہے؟ رباعی خوانوں کو کہہ دیں لائن بنا لیں۔ عوام کو اطلاع دیں۔ اہل کنعان تک یہ خبر پہنچا دو، کسی کا خون آلود پیراہن آ رہا ہے۔
شہر میں امن و امان ہے، حسین علیہ السلام آ رہا ہے۔ شیطان فراری ہو چکا ہے اور کروڑوں کی تعداد میں فرشتے اور حوریں علم حسین علیہ السلام سے خود کو متبرک کرنے زمین پر نازل ہو رہے ہیں۔ وہ بھی حسین علیہ السلام کے مہمان ہیں، اسی طرح جیسے ہم حسین علیہ السلام کے مہمان ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پوری کائنات حسین علیہ السلام کی مہمان ہے اور وہ حقیقی میزبان ہیں۔ یہ تمام تیاریاں تحفہ درویش ہیں اس امید کے ساتھ کہ میزبان کو پسند آ جائیں۔ لوگو، محرم آ چکا ہے اور اپنے ساتھ حسین علیہ السلام کی خبر لایا ہے۔ اگر شہر میں کوئی بے خبر رہ گیا ہے تو اسے بھی آگاہ کر دیں۔ خبر پہنچانے میں اس کا حق ادا کریں اور نمک کا حق بھی ادا کریں۔ عزاداری کریں تاکہ سب جان لیں کہ فرزند رسول ص ہماری طرف آ رہا ہے۔ وہ اپنی دیرینہ پدرانہ ذمہ داریاں نبھانے آ رہا ہے تاکہ ہماری اصلاح کرے اور ہمیں نجات تک پہنچائے۔
حسین علیہ السلام وحدت کے داعی ہیں اور ان کی "هَل مِن ناصِر" کی آواز ہر زمانے کے پاکیزہ افراد کیلئے مقناطیس جبکہ ان کی محفل اعلی انسانوں کا اکٹھ ہے۔ بوڑھا استعمار اور پلید صہیونی اور خبیث وہابی اور ایک لفظ میں یعنی شیاطین وہاں نہیں جا سکتے۔ اگر 60 ہجری قمری میں یزید اور ابن زیاد کی پروپیگنڈا مشینری نے کوفیوں کو شام کے خیالی لشکر سے خوفزدہ اور حسین علیہ السلام کو خط لکھنے والوں کو پچھتاوے کا شکار کر دیا تھا تو آج استعماری قوتوں کے پٹھو میڈیا نے عوام کو خوفزدہ کرنے کا قصد کیا ہے جس کی واضح مثال عرب اور عجم کا فتنہ ہے۔ اگر 60 ہجری قمری میں یزید کے استعماری نظام نے حسین علیہ السلام کی مختصر فوج سے خوفزدہ ہو کر تفرقہ انگیزی کا راستہ اختیار کیا تو آج صہیونی استعماری نظام بھی چہلم میں شامل کروڑوں کے لشکر سے خوفزدہ ہو کر ابھی سے تفرقہ انگیزی کا راستہ اختیار کر چکا ہے۔
اگر حسینی لشکر نے امریکہ کے یزیدی خیمے پر لرزہ طاری نہیں کیا تو وہ کیوں اس قدر ہاتھ پاوں مار رہے ہیں اور گھٹیا سے گھٹیا اقدام انجام دینے اور وحشیانہ ترین مجرمانہ حرکتیں کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اگر صہیونی طاقت کو شیعہ سنی اتحاد کی کاری ضرب نہیں لگی اور صہیونی اپنی سرحدوں پر مورچہ سنبھالے حسینی لشکر کے خوف سے کھڑکیاں بھی نہیں کھولتے تو اس قدر گھٹیا پن کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں؟ اگر سعودی وہابیت صدام سے عاری عراق کو اپنے مستقبل کیلئے خطرہ تصور نہیں کرتی تو کیوں اس قدر پاگل ہو چکی ہے؟ اگرچہ ہماری بات حسین علیہ السلام کے بارے میں ہے اور ان کی محفل میں اغیار کی جگہ نہیں لیکن حسین علیہ السلام کے دشمنوں کو پہچانے بغیر انہیں مکمل طور پر پہچاننا ممکن نہیں۔ کیا حسین علیہ السلام کو ان کی شہادت کے بغیر دیکھنا ممکن ہے؟
کیا حسین علیہ السلام کو ان کے سرمدی حماسے سے ہٹ کر دیکھا جا سکتا ہے؟ اور کیا حسین علیہ السلام کیلئے گریہ کئے بغیر ان کے عشق کا مزہ چکھنا ممکن ہے؟ کیا ممکن ہے حسین علیہ السلام کو گود میں لیتے وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گریہ کی وجہ دریافت نہ کی جائے؟ اور کیا خدا کے مہربان رسول ص کا جواب حسین علیہ السلام کی مظلومیت کے سوا کچھ تھا؟ کیا تاریخ نے کم مجرمانہ اقدامات اور ہولناک جرائم کا مشاہدہ کیا ہے جو عاشورا کا دن اس قدر اہمیت کا حامل ہو گیا ہے؟ کیا فرعون، خوارج اور داعش نے بھی بچوں کو ذبح نہیں کیا پس حسین علیہ السلام کے پسر صغیر علی اصغر کیلئے اتنے بے تاب کیوں ہوتے ہیں؟ ہم نے جو کہا کہ شاید خدا نے حسین علیہ السلام کی محبت کو بنی نوع انسان کی مٹی میں ملا دیا تھا یا ان کی مٹی کو حسین علیہ السلام پر گریہ کرنے والے فرشتوں کے آنسووں میں گوندھا گیا تھا اس کا مقصد محبان حسین علیہ السلام کی عظمت اور پاکیزگی کو واضح کرنا اور ان کے دشمنوں کی خباثت اور گھٹیاپن کو ظاہر کرنا تھا۔
خدایا تیرا لاکھ لاکھ شکر کہ محرم کے مہینے کو خلق کیا اور اگر یہ مہینہ نہ ہوتا تو ہم کیا کرتے اور زندگی کیسے بسر کرتے؟ حسین علیہ السلام کے بغیر یہ دنیا بغیر دروازے کے زندان اور یاد حسین علیہ السلام کے بغیر انسان بغیر پروں کے پرندہ ہوتا۔ اگر حسین علیہ السلام ان کا راستہ اور ان کا مشن نہ ہوتا تو ہم انسان دنیا کے اس کنویں میں کیا کرتے؟ اور صحیح راستے کو غلط راستے سے جدا کیسے کرتے؟ اور ہم اہل زمین کس کے بارے میں بات کرتے؟ اور ہم گمراہان کس نور کی برکت سے راستہ پاتے؟ اور ہم حیران و سرگردان اس بے نشان راستے پر کیسے چلتے؟ اور اسلام کس سے سیکھتے؟ اور شجاعت اور شہامت اور شرافت اور شہادت کا معنی کیسے بیان کرتے؟ حق اور باطل کا فرق کس طرح سمجھتے؟
یمن، افغانستان، میانمار، عراق، شام، بحرین، نائیجیریا اور دنیا کے دیگر حصوں کے یتیم اور بھوکے بچوں کے آنسو کس داستان سے پاک کرتے؟ اور مظلومین کو تلوار پر خون کی فتح کی امید کیسے دلاتے؟ اور ظالم قوتوں کے ظلم کا کیسے مقابلہ کرتے؟ اپنے دکھ درد کس سے بانٹتے؟ اپنی مشکلات کیسے حل کرتے؟ اور ہم گنہگار افراد کس کے دروازے پر حاضری دیتے؟ اور موت کے وقت کس کا نام زبان پر لاتے؟ اور قبر کی پہلی رات نکیر اور منکر کے سوالات کا جواب کس کے سپرد کرتے؟ اور برزخ میں کسے پہچانتے؟ اور قیامت کے دن کس کی تلاش کرتے؟ اور جزا کے دن کس کی پناہ حاصل کرتے؟ اور دوزخ سے بچنے کیلئے کہاں جاتے؟ اور جنت میں داخل ہوتے وقت کس سے ملاقات کی آرزو کرتے؟
ہماری جان سے عزیز حسین، ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں اور خداوند متعال کا شکر ادا کرتے ہیں کہ آپ کے آنے کو دیکھنا نصیب ہوا اور آپ کی دعوت ہمارے کانوں تک پہنچی اور ہم نے انتہائی شوق سے اس پر لبیک کہی۔ آپ کی "هَل مِن ناصِر یَنصُرنی" کی صدا درحقیقت آیت شریفہ "أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذینَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِکْرِ الله" (کیا اہل ایمان کیلئے وہ گھڑی نہیں آئی کہ ان کے قلوب خدا کی یاد اور نازل ہونے والی حقیقت سے نرم ہو جائیں؟؛ سورہ حدید / آیت 16) کا عاشقاتہ ترجمہ تھا۔ اپنے عاشقوں کے انتخاب کیلئے آپ بھی خداوند متعال کی طرح خاشع اور خاضع قلوب کی تلاش میں ہیں۔ ایسے افراد آپ کی صدائے ھل من ناصر سن سکتے ہیں جو خدا پر ایمان لائے اور اس کی یاد سے ان کے دل نرم پڑ جاتے ہیں اور وہ آپ کی نصرت کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تاکہ خدا بھی ان کی نصرت کرے کیونکہ آپ کی نصرت درحقیقت دین خدا کی نصرت ہے۔ اسی لئے خداوند متعال نے قرآن کریم میں فرمایا ہے "یا أَیُّهَا الَّذینَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللهَ یَنْصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ أَقْدامَکُمْ" (اے ایمان والو، اگر تم خدا کی نصرت کرو گے تو خدا بھی تمہاری مدد کرتے گا اور تمہیں ثابت قدم کر دے گا؛ سورہ محمد / آیت 7)۔
اے حسین علیہ السلام، آپ خدا کی وہ نشانی ہیں جس کے ذریعے خدا اپنے بندوں کے دل میں ایمان کا اضافہ کرتا ہے اور آپ کا روضہ مبارک مومنین کی جنت ہے اور آپ پر بہائے جانے والے آنسو گناہوں کی مغفرت کرنے والے، مشکلات حل کرنے والے اور دلوں کو نورانی کرنے والے ہیں۔ خداوند متعال فرماتا ہے "إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذینَ إِذا ذُکِرَ الله وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَ إِذا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ آیاتُهُ زادَتْهُمْ إیماناً" (بے شک اہل ایمان صرف ایسے افراد ہیں جن کے سامنے جب خدا کو یاد کیا جاتا ہے تو ان کے قلوب نرم ہو جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے؛ سورہ انفال / آیت 2)۔ اسی طرح خداوند متعال فرماتا ہے "الَّذینَ آمَنُوا وَ تَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِکْرِ الله أَلا بِذِکْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب" (وہ افراد جو ایمان لائے اور ذکر الہی سے ان کے دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے، خبردار کہ خدا کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے؛ سورہ رعد / آیت 28)۔
پیارے حسین، آپ کے بارے میں کیا کہیں کہ غم دل ہمیں مار رہا ہے اور آپ کے بارے میں جتنا بھی کہیں گویا کچھ بھی نہیں کہا۔ آپ ہمارے دل کا سکون ہیں، آپ قرآن کریم کے ترجمان ہیں اور اگر خدانخواستہ آپ نہ ہوتے تو ہم قرآن کا معنی کیسے سمجھتے اور جنت کے ترجمان کو کہاں سے ڈھونڈ کر لاتے؟ آپ کے بغیر جنت ویران کھنڈر ہے اور ہمیں ایسے کھنڈر کی طلب نہیں۔ یہ سب کچھ اس لئے کہا کہ بتا سکوں کہ جس کے پاس آپ ہیں اس کے پاس سب کچھ ہے اور جو آپ سے دور ہے اس کے پاس کچھ بھی نہیں۔ یہ صرف اس لئے کہا کہ آپ کے بارے میں کچھ کہہ دیا ہو۔ ہر دین اور مسلک سے تعلق رکھنے والے انسانوں کو آپ کے محرم سے اپنی زندگی حسینی کرنے اور آپ کے ذریعے شیطان سے دوری کرنے اور آپ کی عزاداری کے ذریعے اپنے قلوب پاکیزہ کرنے کا حق حاصل ہے۔
انسان فطری طور پر پاک ہے اور پاکیزگی کو پسند کرتا ہے۔ خدا نے حسین علیہ السلام کا محرم اور اپنا رمضان درحقیقت قلوب کو پاکیزہ اور نورانی کرنے کیلئے پیدا کیا ہے۔ اگر خدا کی یہ دو عظیم نعمتیں نہ ہوتیں تو خدا ہی جانتا ہے شیطان اور نفس امارہ ہمارا کیا حشر کرتا اور اگر غم حسین علیہ السلام پر بہائے گئے آنسو جہنم کی آگ کو بجھا نہ دیتے تو خدا ہی جانتا ہے ہم پر کیا گزرتی۔ خدایا، ہم نے سنا کہ دعوت دینے والا ایمان کی طرف بلا رہا تھا کہ "اپنے پروردگار پر ایمان لاو"، پس ہم ایمان لے آئے۔ پروردگارا، ہمارے گناہوں کو معاف فرما، اور ہماری برائیاں دور فرما اور ہمیں موت کے وقت نیک افراد کے زمرے میں شامل فرما۔ (رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِیاً یُنادی لِلْإیمانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّکُمْ فَآمَنَّا رَبَّنا فَاغْفِرْ لَنا ذُنُوبَنا وَ کَفِّرْ عَنَّا سَیِّئاتِنا وَ تَوَفَّنا مَعَ الْأَبْرار؛ سورہ آل عمران / آیت 193)۔/۹۸۹/ف۹۵۵/