تحریر: نذر حافی
پاکستان مسلسل امتحانات سے گزر رہا ہے، اس سے پہلے 2012ء سے 2015ء تک کے عرصے میں بھی پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف واچ لسٹ میں موجود تھا۔ اس لسٹ میں شامل ہونے سے پاکستان کو عالمی امداد کے حصول، قرضوں اور پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے سلسلے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف سے مراد فنانشل ایکشن ٹاسک فورس ہے۔ اس ٹاسک فورس میں خلیج تعاون کونسل اور یورپی کمیشن سمیت 37 اراکین شامل ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی معیشت پر اس ٹاسک فورس کی پابندیوں سے سخت منفی اثر پڑتا ہے۔ پاکستان کا جرم دہشت گردوں کی مالی معاونت کرنا بتایا جاتا ہے، فروری 2018ء میں پاکستان کو موثر اقدامات کرنے کے لئے تین ماہ کی مہلت دی گئی تھی، تاہم پاکستان اس سلسلے میں ٹاسک فورس کو مطمئن نہیں کرسکا اور بالآخر اس کا نام گرے لسٹ میں شامل کر دیا گیا، جس کے بعد بلیک لسٹ میں شامل کئے جانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کو واچ لسٹ پر ڈالنے سے جب بھی کوئی پاکستانی بینک، دنیا میں کسی پاکستانی کے لئے کوئی رقم منتقل کرنا چاہے گا تو تمام مطلوبہ معلومات فراہم کرنے کے باوجود اس سے کسی تھانے یا ایئر پورٹ پر پوچھے جانے والے سوالات اب بینکوں میں بھی پوچھے جائیں گے۔ اسی طرح اب پاکستان کے لئے عالمی مارکیٹ تک رسائی اور تجارت کئی گنا زیادہ مشکل ہو جائے گی، اس کے ساتھ ساتھ ایل سی جو کہ لیٹر آف کریڈٹ ہے، اس کا اوپن کروانا بھی آسان نہیں رہے گا، باہر سے مال منگوانا یا باہر مال بھیجنا یہ سب نیز کہیں سے بھی قرضہ لینا اب جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ یعنی ہمارے ساتھ بھی ایتھوپیا، ایران، عراق، شمالی کوریا، شام اور یمن جیسا برتاو کیا جائے گا۔
اے ٹی ایف کا یہ اجلاس پیرس میں ہوا، اگرچہ اس میں نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے اپنی ٹیم کے ذریعے عالمی برادری کو منی لانڈرنگ، دہشت گرد تنظیموں اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کو روکنے کے اقدام سے آگاہ تو کیا لیکن شاید ناتجربہ کار ٹیم کے باعث وہ کسی کو بھی مطمئن نہ کرسکیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں امریکہ، سعودی عرب ،برطانیہ، جرمنی اور فرانس کی کوششوں، حمایت اور ووٹوں سے پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈالا گیا۔ گرے لسٹ میں پاکستان کا نام ڈالے جانے کی ایک اہم وجہ حافظ سعید کے خلاف کسی تادیبی کارروائی کا نہ ہونا بھی ہے۔ پاکستان نے حافظ سعید کی تنظیم کو نام بدل کر ایک اور نام سے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازات بھی دے رکھی ہے۔
ایف اے ٹی ایف کا اگلا اجلاس ستمبر 2018ء میں ہوگا، اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا پاکستان اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد تنظیموں اور گروہوں پر آہنی ہاتھ ڈالے گا اور ان سے سختی کے ساتھ نمٹے گا یا پھر پاکستان ایسا کرنے میں ناکام رہے گا اور اس کا نام بلیک لسٹ میں ڈال دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ اس وقت پاکستان پر دہشت گردوں کی حمایت کو رکوانے کے لئے دباو ڈالنے والے ممالک خود ہی دہشت گرد ٹولوں کے اصلی موجد ہیں اور ان کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے خود پاکستان ایک عرصے سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ دہشت گردی کو فروغ دینے والے اصلی ممالک اب اپنی نئی حکمت عملی کے تحت اور بھارت سے تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لئے پاکستان پر خواہ مخواہ کا دباو ڈال رہے ہیں۔ اس وقت بھارتی میڈیا پاکستان کا نام گرے لسٹ میں ڈالنے پر بغلیں بجا رہا ہے۔ لہذا پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ عالمی برادری کے مطالبات کو سنجیدگی سے لے اور بین الاقوامی فورمز پر لائق، سنجیدہ اور تجربہ کار افراد کے ساتھ اپنی ترجمانی کرے۔/۹۸۸/ ن۹۴۰
منبع: اسلام ٹائمز