12 October 2018 - 21:16
News ID: 437384
فونت
شب عاشور میرے والد خیمے میں اپنے چند اصحاب کے ہمراہ تشریف فرما تھے اور ابوذر کے غلام جون آپؑ کی تلوار تیز کر رہے تھے۔
شب عاشوہ

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امام زین العابدینؑ سے منقول ہے کہ شب عاشور میرے والد خیمے میں اپنے چند اصحاب کے ہمراہ تشریف فرما تھے اور ابوذر کے غلام جون آپؑ کی تلوار تیز کر رہے تھے۔ اس موقع پر امامؑ نے یہ شعر پڑھے:

" اے دنیائے ناپائیدار تجھ پر وائے ہو۔ کیا برُی دوست ہے تو کہ صبح و شام کتنے ہی دوستوں اور دشمنوں کو مار ڈالتی ہے اور ایک کے عوض دوسرے کو قبول نہیں کرتی۔ سچ ہے کہ تمام امور خدا ہی کے ہاتھ میں ہیں۔

جو زندہ ہے بہرحال اسے یہ راستہ طے کرنا ہے"

امام سجادؑ فرماتے ہیں کہ یہ اشعار سن کر میں سمجھ گیا کہ ان کے ذریعے  میرے والد اپنی شہادت کی خبر دے رہے ہیں۔ میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں لیکن میں نے رونے سے گریز کیا البتہ میری پھوپھی ذینبؑ نے جو میرے بستر کے ساتھ ہی تشریف فرما تھیں یہ اشعار سن لئے اور جب امامؑ کے سب اصحاب چلے گئے تو وہ امامؑ کے خیمے میں تشریف لے گئیں اور کہا:

 کاش میں مر گئی ہوتی اور آج کا دن نہ دیکھتی۔ اے گزشتگان کی یادگار اور پسماندگان کی پناہ گاہ! یوں لگتا ہے کہ میرے تمام عزیز آج ہی مجھ سے جدا ھوۓ ہیں۔ آج یہ مصیبت دیکھ کر والد گرامی علی ابن ابی طالبؑ، والدہ محترمہ فاطمہ زہراؑ اور بھائی حسنؑ کے بچھڑنے کا غم تازہ ہو گیا۔

امامؑ نے حضرت زینبؑ کو تسلی دی، صبر و تحمل کی تاکید کی اور فرمایا:

" یاٰ اُخْتٰاہُ تٙعٙزّٰی بٙعٙزاٰءِ اللّهِ۔۔۔۔....." اے بہن! صبر و تحمل سے کام لو اور یاد رکھو کہ ایک دن تمام دنیا والوں نے مرنا ہے اور جو آسمان پر ہیں وہ بھی باقی نہیں رہیں گے۔ وہ خدا جس نے اپنی قدرت سے دنیا کو خلق کیا ہے اس کے سوا سب نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور وہی تمام مخلوقات کو ایک بار پھر اٹھاۓ گا اور وہ یکتا اور بےمثل ہے۔ میرے والد، میری والدہ اور میرے بھائی مجھ سے بہتر تھے میرے، انکے اور تمام مسلمانوں کےلئے نبی اکرمؐ کی ذات نمونہ عمل ہے۔( ان سب نے بھی موت کا مزہ چکھا ہے)

پھر فرمایا:

"۔۔۔۔ یٰا اُخْتٰاہ یٰا اُمّٙ کُلْثُومٙ یٰا فاٰطِمٙةُ یاٰ رٙباٰبُ۔ ۔۔۔۔"

اے میری بہن، اے ام کلثوم، اے فاطمہ، اے رباب! دیکھو میرے مرنے پر ھر گز گریبان چاک نہ کرنا، اپنا منہ نہ نوچنا اور ھرگز کوئی نامناسب بات لبوں پر نہ لانا۔

شب عاشور حسین ابن علیؑ کے خیموں میں عجیب جوش و جذبہ اور غیر معمولی ولولہ نظر آتا تھا۔ کوئی اپنے اسلحہ تیار کر رہا تھا، کوئی اللّه کی عبادت اور اس کے ساتھ مناجات میں منہمک تھا اور کوئی قرآن مجید کی تلاوت میں مشغول۔۔۔

ضحاک ابن عبدالله مشرقی نے نقل کیا ہے کہ اس رات عمر ابن سعد کے سپاہی صورت حال پر نظر رکھنے کی غرض سے تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد امام حسینؑ کے خیموں کی پشت پر اتے اور خیموں میں موجود لوگوں کے حالات کا جائزہ لیتے۔ ان میں سے ایک شخص نے امام حسینؑ کو اس آیہ کریمہ کی تلاوت کرتے سنا:

"جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے وہ یہ گمان نہ کریں کہ جو مہلت ہم نے انہیں دی ہے وہ ان کےلئے بہتر ہے۔ ہم نے تو انہیں اس لئے مہلت دی ہے کہ وہ اپنے گناہوں میں اور اضافہ کریں اور ان کے لئے سخت رسوا کن عذاب معین ہے۔ خدا مومنوں کو اس حالت میں نہیں چھوڑے گا جب تک کہ نیکوکار و بدکار اور پاک و ناپاک افراد کو ایک دوسرے سے جدا نہ کر دے

سورہ آل عمران 3 ۔ آیت 178-179

ابن سعد کے لشکر کے سپاہی نے جب یہ آیہ کریمہ سنی تو کہا:

" خدا کی قسم وہ نیکوکار افراد ہم ہیں اور خدا نے ہمیں تم لوگوں سے علیحدہ اور ممتاز کر دیا ہے"

امامؑ کے صحابی بریرؓ سامنے آئے اور کہا:

 "اے فاسق! اللّه تعالٰی نے تجھے ناپاک افراد کی صف میں قرار دیا ہے، ہماری طرف آ جا اور اپنے عظیم گناہ سے توبہ کر لے۔ خدا کی قسم پاک و پاکیزہ ہم لوگ ہیں"

اس شخص نے تمسخرانہ انداز میں کہا:

" وٙاٙنٰا عٙلٰی ذٰلِکٙ مِنٙ الشّٰاھِدِیْنٙ" ۔ " ہاں ہاں، میں بھی اس بات کی گواہی دینے والوں میں سے ہوں"

یہ کہہ کر وہ شخص عمر ابن سعد کے لشکر کی طرف واپس چلا گیا۔

نفس المہموم کے مصنف نے شیخ صدوق سے نقل کیا ہے کہ شب عاشور کی آخری ساعتوں میں امام پر ہلکی سے نیند طاری ہو گئی۔ بیداری کے بعد آپ نے اپنے اصحاب اور ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوے فرمایا:

"میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ کئی کتے مجھ پر شدید حملہ کر رہے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ شدید ایک سیاہ اور سفید رنگ کا کتا ہے۔ یہ خواب نشاندھی کر رہا ہے کہ میرا قاتل ان میں سے کوئی ایسا شخص ہو گا جو برص کے مرض میں مبتلا ہے۔

اس کے بعد امامؑ نے فرمایا۔

" اس خواب کے بعد میں نے رسول اللّهؐ کو چند اصحاب کے ہمراہ دیکھا۔ آنحضرتؐ نے مجھے کہا: تم اس امت کے شہید ہو۔ عرش بریں اور آسمانوں میں رہنے والے ایک دوسرے کو تمہاری آمد کی خوشخبری دے رہے ہیں۔ تم آج رات افطار میں میرے پاس ہو گے۔ اب جلدی کرو اور ھر گز دیر نہ لگاؤ۔ ایک فرشتہ آسمان سے نازل ہو رہا ہے جو تمہارے خون کو سبز رنگ کی ایک شیشی میں جمع کرے گا۔

پھر امامؑ نے فرمایا:

"میں نے یہ خواب دیکھا ہے۔ اب وقت آ پہنچا ہے اور یہی اس دنیا سے کوچ کا وقت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔

ابن قولویہ اور مسعودی کے مطابق امام حسینؑ نے نماز صبح کی ادائیگی کے بعد نماز گزاروں کی طرف رخ کیا اور اللّه تعالٰی کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

"اللّه تعالٰی کا اذن آج میرے اور آپ کے مارے جانے کے متعلق آ پہنچا ہے۔ اب آپ سب کو چاہئیے کہ صبر و تحمل سے کام لیتے ہوے دشمن سے جنگ کریں

شیخ صدوق نے امام سجادؑ سے یہ مضمون نقل کیا ہے ۔ جوں جوں جنگ کا وقت قریب آ رہا تھا حسین ابن علیؑ اور ان کے خاص اصحاب کی کیفیت یہ تھی کہ ان کے چہروں کے رنگ نکھرتے چلے جا رہے تھے اور ان کے سکون اور اطمینان قلب میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اصحاب یہ منظر اور غیر معمولی جراٙت دیکھ کر متعجب تھے اور امام عالی مقام کے ملکوتی اور نور سے جگمگاتے چہرے کی سمت اشارہ کر کے کہتے تھے:

"اُنْظُرُوْا لاٰ یُبالی بِالْمٙوْتِ"  انہیں دیکھو، انہیں موت کی ذرہ برابر پرواہ نہیں

امامؑ نے جب اپنے اصحابؑ  کا یہ  جملہ سنا تو انہیں مخاطب کر کے فرمایا:

اے معزز لوگوں کی اولادو! صبر و تحمل سے کام لو- موت تو صرف ایک پل ہے جس کے ذریعے تم سختی اور مشکلات سے گزر کر وسیع و عریض جنت اور اس کی ہمیشہ رہنے والی نعمتوں تک پہنچ جاؤ گے۔ تم میں سے کون ہے جسے یہ بات پسند نہ ہو گی کہ وہ ایک قید خانے سے نکل کر محل میں منتقل ہو جاۓ؟

یہ موت تمہارے دشمنوں کےلئے ایسی ہی ہے جیسے انہیں کسی محل سے نکال کر قید خانے اور عقوبت گاہ میں ڈال دیا جاۓ۔/۹۸۹/ف۹۵۴/

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬